 
                                                                              2021 سے پاکستانی ٹیم کے ٹاپ تھری بلے بازوں نے تقریباً 70 فیصد گیندوں کا سامنا کیا
پاکستان نے 28 اگست کو دبئی میں ہونے والے ایشیاکپ 2022 کا آغاز بھارت سے شکست کی صورت میں کیا۔
شکست کے بعد گرین شرٹس کے بیٹنگ آرڈر کی تنظیم نو کے بارے میں بحث چل رہی ہے، جس کے ٹاپ آرڈر کو مڈل آرڈر پر واضح برتری حاصل ہے۔
گزشتہ دو سالوں کے دوران ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کپتان بابراعظم، وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان اور بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے فخر زمان مرکز نگاہ رہے ہیں۔
ان تینوں کھلاڑیوں نے نہ صرف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ٹیم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے بلکہ زیادہ تر رنز بھی ان تینوں نے ہی بنائے ہیں۔ یہ جب بھی میدان میں اترتے ہیں تو بہت کم مایوس کرتے ہیں بلکہ قومی ٹیم زیادہ تر انہیں پر انحصار کرتی ہے۔
ہر فائدے میں ایک متوقع خطرہ شامل ہوتا ہے۔ کیا ہوتا ہے جب ٹاپ تھری بلے باز آؤٹ ہوجاتے ہیں جو دوسرے تمام بیٹسمینوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں گیندوں کا سامنا کرتے ہیں۔
شکست کے بعد مڈل آرڈر اور لوئر مڈل آرڈر میں مسائل کے بارے میں بھی بحث ہوئی کہ وہ اس طرح کی کارکردگی نہیں دکھارہے جس طرح انہیں دکھانی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قصور صرف ان بلے بازوں کا ہے؟
اس کے لیے ہم نے گہرائی میں جاکر اس مسئلے کو جاننے کی کوشش کی۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) فرنچائز اسلام آباد یونائیٹڈ کے جنرل منیجر ریحان الحق کی جانب سے آغاز کی جانب ایک اشارہ دیا گیا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ 2021 کے آغاز سے لے کر اب تک پاکستان کے ٹاپ تھری بلے بازوں نے 68 اعشاریہ 84 فیصد گیندوں کا سامنا کیا ہے جو کہ دنیا کی ٹاپ 7 ٹیموں میں سے سب سے زیادہ ہے۔
اس فہرست میں دوسرے نمبر پر بھارت 55 اعشاریہ 78 فیصد اور جنوبی افریقہ 53 اعشاریہ 95 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر موجود ہے۔
آسٹریلیا 53 اعشاریہ 88 فیصد کے ساتھ چوتھے، نیوزی لینڈ 53 اعشاریہ 59 فیصد کے ساتھ پانچویں، انگلینڈ 53 اعشاریہ 54 فیصد کے ساتھ چھٹے اور ویسٹ انڈیز 52 اعشاریہ 86 فیصد کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔
گرین کیپس کے ٹاپ تھری نے گزشتہ 18 ماہ میں ٹی ٹوئنٹی میں کُل گیندوں میں سے تقریباً 70 فیصد کا سامنا کیا اور اس عرصے کے دوران ان کی اوسط دیگر تمام ٹیموں کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ موثر ثابت ہوئے ہیں۔
تاہم، یہ تعداد تھوڑی بہت غلط بھی ہوسکتی ہے، تینوں نے بہت زیادہ رنز بنائے ہوں گے لیکن ان کا اسٹرائیک ریٹ صرف 129 اعشاریہ 64 ہے جو اس فارمیٹ کی ٹاپ ٹیموں میں پانچویں نمبر پر آتا ہے۔
بھارت 139 اعشاریہ 94 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ سرفہرست ہے۔ نیوزی لینڈ 135 اعشاریہ 75 کے ساتھ دوسرے، انگلینڈ 134 اعشاریہ 57 کے ساتھ تیسرے، جنوبی افریقہ 132 اعشاریہ 55 کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے جب کہ آسٹریلیا 128 اعشاریہ 51 کے ساتھ چھٹے اور ویسٹ انڈیز 126 اعشاریہ 1 کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔
آسان الفاظ میں پاکستان کے ابتدائی 3 بلے باز ٹی ٹوئنٹی میں اوسطاً 83 گیندوں کا سامنا کرتے ہیں جو تقریباً 14 اوورز بنتے ہیں۔ اگر آپ کے ابتدائی بلے باز اتنی زیادہ تعداد میں گیندوں کا سامنا کررہے ہیں تو پیچھے آنے والوں کے لیے صرف 6 اوورز باقی رہ جاتے ہیں، ایسے میں ان کے لیے آتے ساتھ ہی کچھ الگ کرجانا اتنا آسان نہیں ہے۔
تبدیلی کے لیے، گزشتہ اتوار کو دبئی میں بھارت کے خلاف پاور پلے کے اندر پاکستان کے ابتدائی 3 بلے بازوں میں سے 2 کو آؤٹ کردیا گیا۔
بابر اور فخر 15 گیندوں کے لیے کریز پر موجود تھے اور انہوں نے اس دوران مشترکہ طور پر 20 رنز بنائے تاہم محمد رضوان وکٹ پر موجود رہے جو 42 گیندوں پر 43 رنز بنانے کے بعد 15ویں اوور میں آؤٹ ہوئے۔
اسی میچ میں پاکستان کا مڈل آرڈر بھی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا۔ 12 اوورز میں قومی ٹیم نے 2 وکٹ کے نقصان پر 87 رنز ہی بنائے تھے لیکن 19ویں اوور میں 9 وکٹ کے نقصان پر صرف 128 رنز ہی بناسکی تھی۔ یعنی 39 گیندوں پر صرف 41 رنز اور اس دوران 7 وکٹیں بھی گنوایں۔
خوشدل شاہ، شاداب خان، آصف علی اور محمد نواز سب نے مل کر 26 گیندوں پر صرف 22 رنز بنائے۔
بہت سے لوگ کہیں گے کہ اس دن مڈل آرڈر کی ناکامی کی دیگر وجوہات تھیں، ٹاپ آرڈر کو محتاط انداز میں بیٹنگ کرنا چاہیے تھی، وہ کیوں جلدی پویلین واپس جاکر بعد میں آنے والے کے لیے دروازہ کھول گئے۔
اگر آپ پوری ایمانداری سے کُل 20 اوورز میں سے ابتدائی 12 سے 14 اوورز میں 7 کی اوسط سے رنز کررہے ہیں تو اس کا مطلب آپ کا ہدف 150 رنز اسکور کرنا ہے اور اس ہدف کو حاصل کرنا واقعی مشکل ہوجاتا ہے۔
مزید برآں، اس مقصد سے وکٹیں محفوظ رکھنا کہ مڈل آرڈر اور لوئر مڈل آرڈر آتے کے ساتھ ہی دھماکا کردے، تھوڑا عجیب لگتا ہے۔ اور اس کے لیے کھلاڑیوں کو یہ کہنا کہ وہ 200 یا اس سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنائیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔
آئیے ذرہ بھارتی ٹیم کے موجودہ کپتان روہت شرما کی قیادت میں ان کی سوچ کو جانچتے ہیں۔
ممبئی انڈین کے اسٹار نے ایک پریس کانفرنس میں یہ اعتراف کیا کہ انتظامیہ پاور پلے کے اختتام پر بغیر کوئی وکٹ گنوائے 40 رنز کے بجائے ایک وکٹ کے نقصان پر 52 رنز دیکھنا پسند کرے گی۔
بھارتی کپتان ایک وکٹ بچانے سے زیادہ 12 اضافی رنز سے بہتر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ اس سوچ کے تحت آغاز میں ٹیم مثبت نتائج دینے میں ناکام رہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ بھارت کو اپنی پرانی سوچ سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جس کے تحت اسے 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے ناک آؤٹ مرحلے سے باہر ہونا پڑا۔
ط
ایشیا کپ سے پہلے روہت شرما کا رواں سال پاور پلے میں 147 اعشاریہ 82 رنز کا اسٹرائیک ریٹ تھا جو بطور اوپنر اس فارمیٹ میں کم از کم 10 میچوں میں سب سے زیادہ ہے۔
ان اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور دیگر ٹیموں کی طرح بھارتی ٹیم کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ وکٹیں ہاتھ میں رکھ کر آخری لمحات میں جارحانہ کھیل پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا اور آخری اوورز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسی کمزور بیٹنگ لائن اپ کے لیے ضروری ہے کہ ایک اینڈ سے مسلسل جارحانہ کھیل پیش کیا جاتا رہے تاکہ بعد میں آنے والے کھلاڑی بھی اس سلسلے کو برقرار رکھ سکیں اور آخر میں بولرز کو دفاع کرنے کے لیے مناسب اسکور مل سکے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
 
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                 