
تنزلی کی جانب گامزن
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا 2022ء کا ایڈیشن فیصلہ کن مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں ٹیمیں آخری چار میں جگہ بنانے کے لیے اپنی بہترین پرفارمنس دے رہی ہیں۔
ٹورنامنٹ پہلے سے ہی سرد موسم، بارش اور غیر مساوی باؤنس سمیت کئی عوامل سے متاثر ہو رہا ہے کیونکہ آسٹریلیا میں عموماً کرکٹ سیزن کا آغاز اس موسم کے بعد ہوتا ہے۔
اس کے باوجود، متوقع ٹیموں میں سے چند اگلے راؤنڈ میں اپنی جگہ مضبوط کرنے کے راستے پر ہیں لیکن بہت سے لوگوں کی پیش گوئی کے برخلاف، ایک ٹیم ایسا کرنے میں ناکام رہی اور وہ پاکستان ٹیم تھی۔
گرین شرٹس کو پہلے دو میچوں میں بھارت اور زمبابوے کے خلاف پے در پے شکستوں کے بعد مقابلے سے جلد باہر ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
ان نتائج کی بدولت گرین شرٹس کا انحصار اب بہت سے دوسرے نتائج پر ہے کیونکہ اب اگر وہ باقی تین میچ جیت بھی لے تو زیادہ سے زیادہ چھ پوائنٹس حاصل کر سکتے ہیں۔
16 اکتوبر کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں، میں نے اس سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ سب سے زیادہ مایوسی کس ٹیم سے ہوگی:
’’سننے میں چاہے یہ جتنا مشکل لگے مگر، مجھے یقین ہے کہ پاکستان میگا ایونٹ میں سب سے بڑی ناکامیوں میں سے ایک ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان پر انحصار بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا شاہین شاہ آفریدی (جو سنگین انجری سے واپس آئے ہیں) بہت کم میچ پریکٹس کے ساتھ اپنی فارم میں واپس آسکیں گے۔‘‘
جو کچھ آپ نے پہلے لکھا ہو اس پر شیخی بھگارنا اچھی بات نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی غیر جانبدار ہو کر سوچے تو یہ پیش گوئی کرنا بہت آسان تھا۔
ہر گزرتے میچ کے ساتھ، میرے وہ الفاظ حقیقت بننے لگے ہیں، تو یہ وہ چیز ہے جس پر مجھے بالکل بھی فخر نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے دو ہفتے قبل یہ پیش گوئی کرنے پر کن عوامل نے اکسایا جب کہ ان ہی دنوں میں پاکستان نے نیوزی لینڈ میں سہ فریقی سیریز جیتی، اس عمل میں ہوم ٹیم اور بنگلہ دیش کو شکست دی، جس کی وجہ سے پاکستان ٹیم کے حالات بہت اچھے لگ رہے تھے۔
اس کا جواب اس تھنک ٹینک پر میرے اعتماد کی کمی ہے جس کے تحت ٹیم اس سال کے ورلڈ کپ میں حصہ لے رہی ہے۔
اتنے بڑے مقابلے کے حوالے سے بہت سارے خدشات تھے اور وہ بھی ایسے کنڈیشنز میں جہاں ہم نے پہلے کبھی 20 اوور کا میچ نہیں جیتا تھا۔
پاکستانی ٹیم مقابلے میں داخل ہوئی تو ہماری طاقت ٹاپ آرڈر تھی، جس کے بارے میں بار بار بات ہوتی رہی۔
سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ انتظامیہ اس یقین پر ڈٹی رہی کہ ٹاپ ٹو پلس نئے شامل ہونے والے شان مسعود ان کے لیے سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے لیے کافی ہوں گے، حالانکہ وہ یہ جانتے تھے کہ اس مقابلے میں کنڈیشنز پچھلے سال کے مقابلے میں بالکل مختلف ہوں گی۔
بابر اور رضوان کی اسٹار جوڑی بھارت کے خلاف اور خاص طور پر زمبابوے کے خلاف مشکل میں نظر آئی جہاں ٹیم کو پہلے چھ اوورز میں 25 ڈاٹ بالز کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ کبھی بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے چاہے آپ کسی بھی ہدف کا تعاقب کر رہے ہوں۔ اسی تناظر میں زمبابوے نے، پاکستان کی تیز گیند بازی کی طاقت کے خلاف 19 ڈاٹ بالز کھیلی، یعنی ان کے پاس رنز بنانے کے لیے ایک مکمل اوور اضافی رہا۔
اس کے بعد، گرین شرٹس زمبابوے کی ٹیم کے مقابلے میں اپنے پہلے چھ اوورز میں 19 رنز کم بنا پائے، اور یہی فرق اننگز کے آخری نصف میں پورا کرنے کے لیے بہت بڑا ثابت ہوا۔
اس شکست کے بعد پاکستان کے سابق کپتان شعیب ملک نے نجی ٹی وی چینل کے ایک شو میں دعویٰ کیا کہ بابر اعظم کی رضوان کے ساتھ اوسط صرف 32 ہے جب کہ رضوان کے بغیر 56 ہے۔
اس کی تحقیق میں، ہم نے ایک نظر ڈالی کہ کراچی کنگز کے کپتان نے ٹی ٹوئنٹی میں رضوان کے ساتھ اور ان کے بغیر اوپنر کے طور پر کیسی کارکردگی دکھائی ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ واضح ہے کہ ملتان سلطانز کے کپتان کے بغیر بابر زیادہ ٹھوس ہیں لیکن کم اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ لیکن اس کے ساتھ ان کی اوسط میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن اسٹرائیک ریٹ قدرے بہتر رہا۔
بابر، رضوان کے بغیر، تقریباً ہر دوسری اننگز میں 50 یا اس سے زیادہ اسکور کرتے ہیں، جو وہ ان کے ساتھ چار اننگز میں تقریباً ایک بار کر رہے ہیں۔
بابر اور رضوان دونوں کو ان کے پاور پلے کے سست کھیل پر شدید تنقید کا سامنا ہے، کچھ ایسا ہی معاملہ جمعرات کو بھی تھا۔
2022ء میں، ایک بار پھر اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہوئے، یہ واضح ہے کہ بابر نے اسے مسئلہ بنا لیا ہے، پہلے چھ اوورز میں کم تعداد میں ڈاٹ بالز کھیل رہے ہیں، جو وہ کراچی کنگز کے لیے کھیلتے ہوئے نہیں کرتے۔ پی ایس ایل میں وہ آخر تک جمے رہتے ہیں۔
اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ہماری ٹیم انتظامیہ نے بابر کو رضوان کو جگہ دینے کے لیے اپنا کھیل تبدیل کرنے پر مجبور کیا یا پھر انہوں نے خود ہی اسے بدل دیا کیونکہ جو کردار شرجیل خان، فخر زمان جیسے کھلاڑی ادا کرتے تھے، اب وہ ادا کر رہے ہیں۔ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ رضوان اپنا وقت لے اور آخر تک کھیلتا رہے۔
اس سارے تصور کے خلاف جو دلیلیں استعمال کی جا سکتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ باتیں صرف اس لیے نمایاں کی گئی ہیں کہ رضوان اور بابر دونوں اپنے اعلیٰ معیار کے مطابق کسی حد تک کمزور فارم کا شکار ہیں، لیکن ایسا بہرحال جلد یا بدیر ہونا ہی تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے دعووں کے برعکس بابر اور رضوان دونوں کی اوپننگ جوڑی اتنی کامیاب ثابت نہیں ہوئی کیونکہ جب وہ 25 یا اس سے کچھ زیادہ اسکور بنانے میں کامیاب ہوئے تو اس سال ٹیم کا اوسط اسکور 160 ہے اور جب یہ دونوں جوڑی کے طور پر 25 سے بھی کم اسکور پر آؤٹ ہوئے تو ٹیم نے اوسطاً 157 رنز اسکور کیے۔
یہ اعداد و شمار انتظامیہ کے لیے کافی اچھے ہونے چاہیے کہ وہ فخر زمان جیسے کسی کھلاڑی کو دوبارہ آرڈر کے ٹاپ پر لے آئیں جہاں انہوں نے لاہور قلندرز کے لیے پی ایس ایل میں کمالات دکھائے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے، اس لحاظ سے یہ وسائل کے خراب استعمال کا ایک مثالی معاملہ ہے۔
وسائل کو بری طرح استعمال کرنے کا ایک اور معاملہ حیدر علی ہے۔ پشاور زلمی کے بلے باز (جنہیں کسی نامعلوم وجہ سے پاکستان سپر لیگ میں پلاٹینم کیٹیگری میں ترقی دی گئی تھی) جمعرات کو پہلی گیند پر آؤٹ ہو گئے جو کہ پچھلی 10 اننگز میں ساتواں واقعہ تھا جہاں وہ ڈبل سکور کرنے میں ناکام رہے۔
کھلاڑی نے اعلیٰ سطح کے مقابلوں میں حصہ لینے کا مقوع ملنے سے پہلے کافی انتظار کیا، بالکل اسی طرح جیسے آصف علی اور خوشدل شاہ نے کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری انتظامیہ ان فارم کھلاڑیوں کے دستیاب ہونے کے باوجود ان تینوں کو ڈراپ کرنے کے لیے تیار نہ تھی، کم از کم کہنے کی حد تک، یہ اعلیٰ ترین عہدیداران کی مجرمانہ غفلت ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے منصوبہ بندی کا فقدان ایک بار پھر دیکھنے کو ملا جب انہوں نے مکمل فٹ نہ ہونے کے باوجود شاہین شاہ آفریدی کو جلد واپسی پر مجبور کیا۔ بائیں ہاتھ کے تیز گیند باز اچھی فارم میں دکھائی نہ دیے اور ان کی رفتار میں بھی نمایاں طور پر کمی نظر آئی۔مزید ستم ظریفی یہ کہ ڈریسنگ روم میں بیٹھے ہوئے کچھ ’باصلاحیت لوگوں‘ نے لاہور قلندرز کے کپتان کو بیٹنگ کے لیے بھیجنے کا اس وقت سوچا جب ٹیم کو زمبابوے کے خلاف آخری گیند پر تین رنز کی ضرورت تھی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ شاہین، مکمل فٹ نہ ہونے کی وجہ سے، دوسرا رن مکمل کرنے کے لیے بہت تیز نہ بھاگ سکے اور پاکستان صرف ایک رن سے میچ ہار گیا۔
یہ غلطیاں کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ وہی مینجمنٹ، وہی کوچنگ اسٹاف اور اسی کپتان نے 12 ماہ قبل ورلڈ کپ میں وہی کیا جو ایشیا کپ میں ایک بار پھر کیا اور اب میگا ایونٹ میں دوبارہ وہی کام کر رہے ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ محدود وسائل کا ہونا ایک مسئلہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ دستیاب وسائل کا صحیح استعمال ہے۔ جب تک ہم ایسا کرنا شروع نہیں کرتے، تب تک ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ورلڈ کپ سے جلد باہر ہوکر گھر واپسی کا راستہ۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News