Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے

Now Reading:

پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے

اگر رنز جائز بھی ہوتے تب بھی فری ہٹ بالکل نہیں ہونی چاہئے تھی

یہ بات اب تک موضوع بحث ہے کہ آیا وہ نو بال تھی جس پر ویرات کوہلی نے چھکا لگایا تھا اور آیا وہ ڈیڈ بال تھی یا نہیں جس پر کوہلی بولڈ ہوئے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ 2019ء کے ون ڈے ورلڈ کپ کے فائنل میں جب تھرو کی گئی بال ڈائیو لگاتے ہوئے انگلش کھلاڑی بین اسٹوکس کو لگ کر لارڈز کی باؤنڈری پار کر گئی تھی تو چھ نہیں بلکہ پانچ رنز دیے گئے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ کوہلی کی ایک بہت شاندار اننگز تھی جو تعریف کے قبل ہے اور اسے ’دی ہایئسٹ‘ کی ایک قسط میں دکھایا جانا چاہیے۔

آئیے ایک بار پھر اسے غیر جانبداری سے دیکھیں۔ اور جدید دور میں ممکنہ طور پر سب سے زیادہ ذہانت، بہترین، نپی تلی اور حکمت عملی سے بھرپور اننگز سے لطف اندوز ہوں، ویرات کی یہ اننگز اُس اننگز سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے جو بین اسٹوکس نے ورلڈ کپ کے بعد موسم گرما کے دوران ہیڈنگلی ٹیسٹ میں کھیلی، فرق بس یہی ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم اُس اننگز سے اس لیے زیادہ لطف اندوز ہوئے کہ وہ ہمارے خلاف نہیں تھی۔

Advertisement

پاکستان سپر لیگ (PSL) میں اسلام آباد یونائیٹڈ فرنچائز کے جی ایم ریحان الحق  نے نشاندہی کی کہ کوہلی نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے آخری تین اوورز میں 54 اعشاریہ 25 کی اوسط سے 16 اننگز میں 217 رنز بنانے کا ایک غیر معمولی ریکارڈ بنایا ہے۔

میرا مطلب ہے، آپ کتنی بار آخری 18 گیندوں میں 48 یا 8 میں 28 یا یہاں تک کہ 6 میں 16 یا 3 میں 13 رنز بناتے ہوئے دیکھیں گے؟ آپ چند ہفتے قبل ایشیا کپ کے اپنے سب سے اچھے باؤلر کو کتنی بار پانچ گیندوں کے دوران دو وائیڈ اور ایک نو بال کرتے ہوئے دیکھیں گے؟

دیکھیے، ایسے معاملات بہترین ٹیموں کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ شارجہ میں میانداد کا چھکا یاد ہے؟ تقریباً 36 سال پہلے شارجہ کی اس دھندلی دوپہر میں پاکستان اس پوزیشن میں کیسے جیت سکتا تھا جس میں وہ ایک وقت پھنسے ہوئے تھے؟ ٹھیک ہے، اب ہم بھی جان چکے ہیں کہ اس وقت پورے ہندوستان نے کیسا محسوس کیا ہوگا۔

اس نکتے پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ آیا امپائرز کا فیصلہ اس آخری اوور میں بھارت کے حق میں جلد بازی میں لیا گیا تھا۔ ممکنہ طور پر انہوں نے غلطی کی کیونکہ اصول میں کہا گیا ہے کہ فل ٹاس بال کے بلے باز تک پہنچنے کے وقت بلے باز کا اپنی کریز کے اندر ہونا ضروری ہے اور کوہلی کے دونوں پاؤں کریز سے باہر تھے کیونکہ وہ آگے بڑھ کر کھیل رہے تھے۔

کرکٹ کے قوانین کی شق 1۔7۔41 میں کہا گیا ہے کہ، ’’کوئی بھی ڈیلیوری، جو کریز پر سیدھے کھڑے بلے باز کی کمر کی اونچائی سے اوپر پچ سے ٹکراے بغیر گزرے، اسے غیر منصفانہ سمجھا جائے گا۔‘‘

پاکستانی شائقین میں جو چیز اضطراب کا باعث بن رہی ہے ( جس پر ایسا لگتا ہے کہ کھلاڑی اور کوچ اگلی گیند پر متفق ہو گئے تھے) وہ یہ ہے کہ امپائر ایراسمس نے پہلے چھکا لگتے ہوئے دیکھا پھر کوہلی کی اپیل پر ویسٹ ہائی نو بال دے دی۔

Advertisement

اس کے علاوہ، انہوں نے ٹی وی امپائر سے بھی رجوع نہیں کیا کہ آیا گیند واقعی کمر سے اوپر ہے یا نہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ وہ قواعد کے تحت ٹی وی امپائر سے رجوع کرنے کے پابند نہیں تھے، لیکن اگر کوہلی اس بال پر آؤٹ ہو گئے ہوتے تو یقیناً ٹی وی امپائر کی مدد لینا ضروری ہو جاتا۔ پھر بھی، مجھے نہیں لگتا کہ کرکٹ اصولوں میں کہیں ایسا ہے کہ وہ رجوع نہیں کر سکتے، ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو پھر ہمیشہ اسی عمل کو ترجیح دی جائے گی اور فیلڈنگ سائیڈ ہر اس ویسٹ ہائی بال پر ٹی وی امپائر کی مدد مانگے گی جس پر رنز بنے ہوں۔

کوہلی کے فری ہٹ ڈلیوری پر بولڈ ہونے کی صورت میں، قانون یہ کہتا ہے کہ فری ہٹ پر کھیل جاری رہے گا جب تک کہ بلے باز کو تین طریقوں سے آؤٹ نہیں کیا جاتا یعنی فیلڈ میں رکاوٹ پیدا کرے، گیند کو دو بار مارے یا پھر رن آؤٹ کر دیا جائے۔

تقریباً ایک ہفتہ قبل ویمنز بگ بیش میں اسی طرح کا واقعہ سننے میں آیا جب بلے باز کو فری ہٹ پر بولڈ کیا گیا اور گیند وکٹ سے ٹکرا کر باؤنڈری لائن پار کر گئی تھی۔ امپائرز  نے اسے بائیز کی مد میں چار رنز دیے تھے۔

بلاشبہ یہ سچ ہے کہ اگر نو بال نہ ہوتی (جو کچھ لوگوں کے خیال میں نہیں تھی) تو کوئی فری ہٹ نہ ہوتی اور اس کے بعد تین رنز بھی نہ بنے ہوتے۔

لہٰذا اگر رنز جائز بھی ہوتے تو وہ فری ہٹ بالکل نہیں ہونی چاہیے تھی۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آخری گیند پر 4 رنز کی ضرورت ہوتی۔ لیکن پھر یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ کوہلی 2 گیندوں پر 7 رنز کی ضرورت کے ساتھ پانچویں گیند کا سامنا کر رہے ہوتے اور تب بھی وہ ہندوستان کو فتح تک لے جا سکتے تھے۔

Advertisement

امپائرز کے فیصلوں کی بات ہو رہی ہے کہ وہ سب فیصلے بھارت کے حق میں آ رہے تھے تو اس رن آؤٹ کے بارے میں کیا رائے ہے جو پاکستان کے حق میں ہوا؟ جس طرح سے میں نے اسے دیکھا، گیند لگنے سے پہلے رضوان کے دستانے  اسٹمپ سے ٹکرائے۔ یہ میں  نے اسی لمحے محسوس کر لیا تھا جب رضوان رن آؤٹ کرنے کی کوشش میں خود کو ناکام سمجھ کر تڑپ اٹھے تھے۔

رضوان کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ انہیں لگا کہ انہوں  نے موقع گنوا دیا ہے۔ تمام زاویوں سے ری پلے غیر نتیجہ خیز لگ رہے تھے اور ایسی صورتوں میں شک کا فائدہ بلے باز کو جانا چاہیے۔ لیکن یہ پاکستان کے حق میں گیا۔

بابر کے اسپنرز کو لانے کے فیصلے پر بھی تنقید کی جارہی ہے جب ہندوستان چھ اوورز کے بعد 31 رنز پر 3 کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پر مچکل میں آچکا تھا۔

کہا جا رہا ہے کہ انہیں فاسٹ باؤلرز  کے ساتھ دباؤ جاری رکھنا چاہیے تھا۔ لیکن پاکستان کے پاس تین فاسٹ باؤلر تھے اور ان میں سے کسی کے مزید دو یا تین اوورز کا مطلب یہ ہوتا کہ 2 اسپنرز کو اگلے 6 یا 7 اوورز تک مل کر لگاتار بولنگ کرنا پڑتی یہاں تک کہ تیز باؤلرز کو پھر اننگز کے آخری اوورز سے پہلے واپس لانے کا موقع نہیں ملتا۔

جس طرح انہوں نے نواز کو کھیلا، اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ فاسٹ باؤلرز کی واپسی سے پہلے ہندوستان شاید اپنا رن ریٹ کافی بڑھا چکا ہوتا۔

اور جب اسپنرز پاور پلے کے بعد آئے تو انہوں نے ہندوستانی بلے بازوں پر دباؤ برقرار رکھا۔ شاداب کی جانب سے اننگ کے ساتویں اوور میں دو رنز اور ایک رن آؤٹ جب کہ آٹھویں اوور میں نواز نے پانچ اور مجموعی طور پر 4 اوورز میں 14 رنز دیے۔ اسپنرز نے 10ویں اوور تک باؤلنگ کی اور بھارت کا مجموعہ 4 کھلاڑیوں کے نقصان پر 45 رنز تھا۔

Advertisement

ہاں، یہ طے تھا کہ ہندوستان آخری اوورز میں تیز کھیلنے کی کوشش کرے گا مگر اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ فاسٹ باؤلرز کو اٹھارویں اور انیسویں اوورز میں مار نہیں پڑے گی؟

کیا خبر کہ اس مرحلے پر دو اوورز میں 30 رنز بن جائیں؟ یا یہ کہ دونوں بلے بازوں کو اسپنرز بھی آؤٹ کر سکتے تھے۔

دیکھیں کہ کس طرح نواز نے ہاردک پانڈیا کو اس آخری اوور کی پہلی گیند پر کور پر کیچ دینے کی غلطی پر مجبور کیا، جس میں انھوں نے پہلی تین گیندوں پر صرف تین رنز دیے تھے۔ ایسا تو 12ویں میں بھی ہو سکتا تھا جو نواز کا تیسرا اوور تھا اور جس میں بدقسمتی سے تین چھکوں سمیت 20 رنز بنے۔

تنقید کی جا رہی ہے کہ ان کا چوتھا اوور پہلے کروا لیا جانا چاہیے تھا اور تین چھکے کھانے والے اسپنر کو آخری اور ہائی پریشر اوور نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔

ویسے، موجودہ ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق ون ڈے میں اکثر آخری اوور کرایا کرتے تھے اور اسی طرح کچھ اور اسپنرز بھی۔

جی ہاں، اب آپ اس سے ان بلے بازوں کی وجہ سے پرہیز کرتے ہیں جن کے بعض بے تکے شاٹ بھی بائونڈری لائن کراس کر جاتے ہیں اور یہ کوئی حیرانی کی بات بھی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ بابر کو صورت حال کا زیادہ بہتر اندازہ تھا۔

Advertisement

وہ امید کر رہے تھے کہ آخری اوور آنے تک ان کے تیز گیند باز کوہلی یا پانڈیا یا دونوں کو آؤٹ کر دیں گے۔

یہاں تک کہ اگر نہیں، تو بابر کو یہ یقین کرنے کا پورا حق تھا کہ ان کے تیز باؤلر آخری اوور کے لیے 20-22 جیسے صرف اتنے رنز دیں گے جنہیں آخری اوور میں بنانا کسی بھی صورت میں مشکل کام ہوگا۔

دراصل میچ کے بعد کوہلی نے جو کچھ کہا وہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ کوہلی نے انکشاف کیا کہ ہاردک اور میں مسلسل بات کر رہے تھے کہ ہم نواز کے باقی رہ جانے والے آخری اوور کو نشانہ بنائیں گے۔

ہاردک نے کہا کہ ہم ان کی بولنگ پر تین چار چھکے آسانی سے مار سکتے تھے لیکن پھر ہمیں احساس ہوا کہ پاکستان انہیں آخر تک بچا رہا ہے اور اس وقت ہمیں آؤٹ کرنا چاہ رہا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اپنے منصوبے بدلنے پڑے۔

ہاں، نواز کو نو بال اور وائیڈز کے لیے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے، جس کا بابر نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ پہلی تین گیندوں نے ظاہر کیا تھا کہ روایتی باؤلنگ بلے بازوں کو ہٹ کرنے کا موقع نہیں دے رہی تھی۔

نواز پہلے بھی وہ بال کرا سکتے تھے جس  نے کوہلی کو فری ہٹ پر بولڈ کیا۔ یقیناً نواز  نے مہینوں تک ایسی بال کروانے کی پریکٹس کی ہوگی۔

Advertisement

اسپنر کے لیے کمر سے اونچی فل ٹاس دینا کافی مایوس کن ہے۔ لیکن پھر بھی ایسا کرنا، جب کہ کسی تیز گیند باز کو بھی نو بال یا وائیڈ سے بچنے کے لیے رفتار کم کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، واقعی خوفناک ہے۔

اسی طرح، ایک اسپنر کے لیے آف سائیڈ وائیڈ گیند کرنا خوفناک ہے چاہے جتنا بھی دباؤ کیوں نہ ہو۔ یہی تو وہ وقت ہے جس کے لیے ان پیشہ ور کھلاڑیوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے اور بہت سے دوسرے کھلاڑیوں پر فوقیت دے کر منتخب کیا جاتا ہے۔

آخر میں، یہ جانتے ہوئے کہ آپ کو دو بال پر دو رنز کی ضرورت ہے، آپ وائیڈ کے خوف سے لیگ سائیڈ پر بال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن نواز بالکل وہی کیا۔

تو پھر باؤلنگ کی حکمت عملی کے لیے بابر کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔ یہ کوہلی کی ذہانت اور آخری تین اوورز میں ہمارے گیند بازوں کی کچھ بنیادی غلطیاں تھیں جس کی وجہ سے ہمیں میچ گنوانا پڑا۔

میں نے اپنے کالموں میں لکھا تھا کہ آسٹریلیا میں پاکستان کو چار تیز گیندبازوں کے ساتھ کھیلنے کی ضرورت ہے۔

یہ نہیں کہ انہیں شاداب یا نواز کی جگہ کھلایا جائے بلکہ ایک بلے باز کم کھلایا جائے۔ یہ پچوں کی نوعیت کی وجہ سے ہے جو اچھے باؤنس کی حامل ہوتی ہے اور اگر آپ مخصوص لینتھ پر بال کریں جو بلے باز کے کندھے کا رخ کرے تو بلے باز کے لیے اسے کھیلنا یا اکثر چھوڑ دینا بھی مشکل ہوتا ہے۔

Advertisement

مزید یہ کہ فاسٹ باؤلنگ پر بلے بازوں کو یہ فیصلہ کرنے میں کم وقت ملتا ہے کہ گیند کو کب اور کہاں کھیلنا ہے۔

ٹھیک ہے، ہمارے پاس اسکواڈ میں ایک تیز رفتار آل راؤنڈر کی کمی ہو ہے جیسا کہ ہندستان کے پاس پانڈیا اور آسٹریلیا میں مارکس اسٹونیس اور انگلینڈ میں بین اسٹوکس ہیں، حالانکہ ہم فہیم اشرف یا عامر جمال یا عماد بٹ کو منتخب کرسکتے تھے۔

لیکن اس ٹیم میں بھی انہیں محمد وسیم جونیئر کو کھلانا چاہیے تھا۔ جو کچھ لمبے چھکے بھی مار سکتے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے آصف علی اور حیدر علی اور خوشدل کے کھیل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کی جانب سے کھیلی جانے والی چند گیندوں پر ہم زیادہ سے زیادہ دو چھکوں کی ہی امیدلگا پاتے ہیں تو وسیم سے بھی یہی توقع رکھنا مناسب ہو گا جبکہ وہ باؤلنگ کا اپنا کوٹہ بھی مکمل کر سکتے ہیں۔

وائٹ بال کرکٹ میں ہر ٹاپ ٹیم چھ باؤلرز کے ساتھ جاتی ہے، سوائے پاکستان کے۔ اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ افتخار احمد چھٹے باؤلر کے طور پر موجود ہیں، کم از کم آسٹریلوی پچوں پر نہیں۔ یہاں تک کہ ایشیائی پچوں پر بھی وہ مشکل سے استعمال ہوتے ہیں۔

اور ایک ورلڈ کپ میں جہاں ہر کھیل اہم ہے، یہاں تک کہ ایک کمزور سائیڈ کے خلاف بھی، آپ انہیں کم اسکور میں آؤٹ کر کے اپنا نیٹ رن ریٹ بڑھانا چاہتے ہیں۔ آپ کو چھ باؤلرز کی ضرورت ہے کیون کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے ایک کھیل کے دوران چوٹ کی وجہ سے باہر ہو جائے۔

Advertisement

میرا مطلب ہے تصور کریں کہ اگر شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ میں سے کوئی ایک اپنے پہلے اوور کے بعد بولنگ کرنے سے قاصر ہوتا۔ کیا ہم شاداب اور نواز کے علاوہ 3 اوورز کرانے کے لیے افتخار کی طرف رجوع کرتے؟

پاکستان کو چھٹے باؤلر اور چوتھے تیز گیند باز کو بھی کھلانے کی ضرورت تھی کیونکہ جولائی میں گال میں سری لنکا کے خلاف شکست کے بعد شاہین شاہ آفریدی کا یہ پہلا میچ تھا۔ اگرچہ وہ دو وارم اپ گیمز میں نظر آئے تھے لیکن ایک باقائدہ میچ سے 12 ہفتے دور رہنے کے بعد ان سے ہائی پریشر مقابلے میں باؤلنگ کروانا ایک رسک ہوگا۔ درحقیقت، یہ واضح تھا کہ شاہین اپنی واپسی کا راستہ تلاش کر رہے تھے اور اگرچہ وہ میچ کھیلنے کے لیے کافی فٹ دکھائی دیتے ہیں لیکن ان سے فوری طور پر اپنی تباہ کن فارم میں ہونے کی توقع رکھنا انتہائی ناانصافی ہوگی۔

مجھے یاد نہیں ہے کہ انہوں  نے آخری بار ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں چار اوور کے کوٹہ میں 34 رنز کب دیے تھے۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس ہر گیم میں بیک اپ ہونا چاہیے کیونکہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ آنے والے گیمز میں اپنا پرانا عروج دوبارہ حاصل کر لے گا۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں مجھے لگتا ہے کہ پاکستان بھارت کے خلاف ہارا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، ہمارا مڈل آرڈر یا تو ڈاٹ بالز کھیلتا ہے یا چھکوں کی کوشش میں نظر آتا ہے اور اس سے ہٹ کر کسی بھی چیز کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

افتخار سے کوئی شکوہ نہیں لیکن وہ آئندہ میچوں میں مخالف ٹاپ ٹیموں میں دو اسپنرز کا سامنا نہیں کر پائیں گے یہ فرض کرتے ہوئے کہ پاکستان فائنل میں پہنچ جائے گا –

شان نے اچھی اور صورتحال کے مطابق بیٹنگ کی لیکن مستقبل میں ہمیں تیز رفتاری کی ضرورت ہوگی چاہے وکٹیں گر رہی ہوں۔

Advertisement

پھر بھی، انہوں  نے بہترین طریقے سے کھیلا اور ان کی اننگز کے ساتھ ساتھ افتخار نے ہمیں ایک مضبوط پوزیشن میں پہنچا دیا۔ لیکن افتخار کے بعد پاکستان نے اگلی 24 گیندوں پر 30 رنز پر چار وکٹیں گنوا دیں۔

عام طور پر افتخار بھی اسی گروپ میں شامل ہوتے ہیں جس میں ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ تین یا چار ایسے بلے باز ہوتے ہیں جن میں سے کسی ایک کے علاوہ باقی ضرور گڑبڑ کرتے ہیں۔

تقریباً ایک سال اور ان گنت میچ ہو گئے لیکن نہ تو محمد یوسف اور نہ ہی کوئی اور مڈل آرڈر کو یہ سکھا سکے کہ کوہلی کی طرح اننگز کیسے پروان چڑہائی جائے۔

خاص طور پر پہلی اننگز میں جس جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ رن ریٹ صرف چکھا مار کر ہی بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ بڑے میدان ہیں اور ہر اوور میں کم از کم دو مرتبہ ڈبل رن اور کبھی ایک تین رن کا موقع ضرور ملتا رہتا ہے۔ بس رفتار کا اندازہ لگا کے ایک اچھا شاٹ کھیلنے کی ضرورت ہے۔

نیز، بابر اور رضوان کو تیز کھیلنا چاہیے۔ جی ہاں، پچ جاندار تھی اور یہاں تک کہ روہت شرما اور کے ایل راہول نے احتیاط سے بلے بازی کی لیکن ہندوستانی جوڑی اس ہدف کا تعاقب کر رہی تھی جو ہر لحاظ سے ایک قابل رسائی ہدف تھا اور وہ وکٹیں ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔

پہلی اننگز میں آپ کو رفتار کا تعین کرنا ہوگا۔ یہ ایک نفسیاتی اقدام بھی ہے کیونکہ یہ باؤلر کو دباؤ میں لیتا ہے۔

Advertisement

صرف ایک دن پہلے، فن ایلن نے اس کا عملی مظاہرہ کیا تھا کہ جب انہوں نے ہوم کنڈیشنز میں بولنگ کرنے والے آسٹریلوی تیز گیند بازوں پر حملہ کیا جو اس وقت اپنی بہترین فارم میں ہیں۔

پاکستان اپنی باؤلنگ سے تو ضرور اٹیک کر رہا ہے لیکن بیٹنگ میں، خاص طور پر جب وہ ہدف دینے کے لیے میدان میں اترتے ہیں، تو وہ بہت محتاط اور فکرمند ہوتے ہیں۔

یہاں بابر کو قصور وار نہیں ٹہرا سکتے کیونکہ وہ پہلی گیند پر آؤٹ ہوئے لیکن رضوان نے اپنی ایشیا کپ آخری اننگز کا انداز اپنایا۔ وہ باہر کی گیندیں کھیلتے ہوئے گر رہے تھے اور توازن برقرار نہیں رکھ پا رہے تھے۔

واضح طور پر سب سے بہر طریقہ یہی ہونا چاہیے کہ گیند کو گیپ میں چلا کر دوڑیں لیکن جب وہ ایسا کرتے ہوئے بال مس کر جائیں یا شاٹ صحیح نہ کھیل پائیں تو ان پر دباؤ بڑھ جاتا ہے خاص طور پر جب آف سائیڈ پر کھڑے تین یا چار فیلڈرز رن لینے کا موقع نہ دے رہے ہوں۔

تجزیہ کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ آف سائیڈ پر اس کا اسٹرائیک ریٹ 100 سے بھی کم ہے اور وہ وہاں اسے بولنگ کریں گے۔

انہوں نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ بابر کو آؤٹ کرنے کے لیے، صرف درمیانی اسٹمپ کی لائن میں اچھی لینتھ کے ساتھ بولنگ کریں کیونکہ وہ اکثر یہاں سے بال کو ترچھا کھیلتے ہیں۔

Advertisement

وہ بہت زیادہ قابل قیاس ہو گئے ہیں، یہاں تک کہ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ ان کے پاس ابتدائی جوڑی کے طور پر سب سے اچھی اوسط ہے۔

لیکن اب وہ دنیا کی ٹاپ ٹیموں کے خلاف کھیل رہے ہیں جہاں شاید ہی کوئی کمزور کڑی ہو۔ دو آسان میچوں کے بعد (حالانکہ افغانستان اور آئرلینڈ نے کم از کم انگلینڈ پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ نچلے رینک کی ٹیموں کو کھیلنے کے بعد بھی زندگی مشکل ہو سکتی ہے) پاکستان کا مقابلہ آئندہ جمعرات کو جنوبی افریقہ سے ہوگا۔

پروٹیز جیتنے کے لیے دباؤ میں ہوں گے کیونکہ وہ زمبابوے کے خلاف صرف ایک پوائنٹ کے ساتھ میچ ختم کر پائے۔

انہوں نے (یا کوئنٹن ڈی کاک) نے چار اوورز میں کس طرح بلے بازی کی جہاں وہ پہلے سے ہی میلوں آگے تھے جہاں انہیں پانچ اوورز تک ہونے کی ضرورت تھی، جو کہ میچ کے لیے دوسری اننگز میں کم از کم درکار ہے۔

اس لیے جنوبی افریقہ ان کا بھرپور مقابلہ کرے گا خاص طور پر اگر وہ اتوار 30 اکتوبر کو بھارت سے ہار گئے۔ ریلی روسو اور ڈیوڈ ملر نے بھارت میں یہ دکھایا کہ میچ کا رخ اپنی جانب پلٹ سکتے ہیں اور بابر کو چھٹے ماہر باؤلر کو میدان میں اتارنے کے لیے تیار ہونا چاہیے جس میں چار تیز باؤلر شامل ہوں۔

یہ بڑے میدان ہیں اور اسپنرز کی بال پر بڑے شاٹس پر لگام لگائی جا سکتی ہے لیکن ڈی کاک، ملر اور روسو گیند کو باؤنڈری لائن پار کرانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

Advertisement

اسی طرح، کاہسو رابدا، انرخ نوکیا اور اینگڈی تیز رفتار کے ساتھ اچھی لینتھ سے گیند کو اٹھا رہے ہوں گے خاص طور پر جب گیند نئی ہو۔

یہ وہ وقت ہے جب بابر اور رضوان کو کھڑے ہو کر باؤلرز پر اٹیک کرنا چاہیے کیونکہ وہ اچھی طرح سے ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ گیند کو روک کر بھاگتے رہیں گے تو پاکستان کے لیے جیتنا دشوار ہوگا۔

صہیب علوی 40 سال سے زائد عرصے سے کالم نگار، ایڈیٹر، تجزیہ کار، ٹی وی ماہر/میزبان کے طور پر اندرون اور بیرون ملک کرکٹ کو کور کر رہے ہیں۔ آئی بی اے سے ایم بی اے کیا، ان کا بیک وقت کارپوریٹ سیکٹر میں 35 سالہ کیرئیر ہے، انہوں  نے سی سوٹ کے عہدوں پر کام کیا ہے۔ اب وہ کلائینٹس کو قیادت، کاروباری حکمت عملی، مارکیٹنگ اور تنظیمی منصوبہ بندی کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
غرور میں مبتلا دشمن کو ذلت آمیز شکست دی ، آبی جارحیت قطعی برداشت نہیں کرینگے،شہبازشریف
بگرام ایئر بیس، جہاں سامراج ہارتے ہیں اور تاریخ جیت جاتی ہے
پاکستان اورروسی افواج کے درمیان مشترکہ مشق دروزبہ ہشتم کا انعقاد
ملک کے اندرونی امن کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل پر بھی نظر ہے ، ڈی جی آئی ایس پی آر
حارث رؤف اور صاحبزادہ فرحان کی پیشی؛ آئی سی سی کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
بھارتی کپتان کو سیاسی بیان بازی مہنگی پڑگئی، آئی سی سی کا بڑا ایکشن
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر