Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سعودی عرب 2029ء کے ایشیائی سرمائی کھیلوں کی میزبانی کرے گا

Now Reading:

سعودی عرب 2029ء کے ایشیائی سرمائی کھیلوں کی میزبانی کرے گا

2029ء کے ایشیائی سرمائی کھیلوں (ایشین ونٹر گیمز) کی میزبانی سعودی عرب کو دینے کے فیصلے کا بھلے ہی حیرت سے خیرمقدم کیا گیا ہو تاہم اِس فیصلے میں دوہری منطق موجود ہے۔

صحرائے عرب میں برفانی طوفانوں کی نسبت سب سے بڑے مقابلوں کے لیے میزبان کی تلاش مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اِس کام کو انجام دینے کے خواہشمند ممالک کے لیے کھیلوں کے بڑے مقابلوں کی کشش بطور قومی نمائش ہے۔

1972ء کے سرمائی اولمپکس کے ساتھ ساتھ 1986ء میں ہونے والے اوّلین اور 2017ء میں حالیہ ترین ایشیائی سرمائی کھیلوں کے مقام جاپان کے شہر ساپورو کی سفوف نُما برف اور بحیرہ احمر کے ساحل سے 50 کلومیٹر دُور ٹروجینا کے پہاڑی صحرا کے درمیان شاندار فرق کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔

اولمپک ڈاؤن ہل سلور میڈلسٹ یواین کلیرے نے فرانسیسی ریڈیو کو بتایا، “یہ ہمارے کھیل کے لیے بُرا ہے۔”

انٹرنیشنل اسکی اینڈ سنو بورڈ فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل مشیل یون نے کہا کہ وہ اولمپک کونسل آف ایشیا (او سی اے) کے فیصلے سے “حیران” ہیں۔

Advertisement

خلیج میں ایسے مقابلے پہلی بار نہیں ہیں۔ 2021ء میں دبئی نے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے لیے کوالیفائنگ سلالمز کی میزبانی ایک بہت بڑے شاپنگ مال کے ریفریجیرٹڈ گنبد میں کی جس کا درجہ حرارت 30 ڈگری سیلسیس (86 فارن ہائیٹ) تھا۔

اس کے باوجود گلوبل وارمنگ کے دور میں سعودی منصوبہ متوقع درجہ حرارت سے لے کر توانائی کے اثرات تک، بشمول مقامی آبی وسائل کے طویل چکر اور مکمل طور پر مصنوعی اسکی ڈھلوانوں کی تعمیر تک بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔

سعودی عرب فارمولا ون، ڈاکار ریلی، سائیکلنگ ٹور، باکسنگ ٹائٹل فائٹس اور اسپینش سُپر کپ کی میزبانی کے ساتھ مختلف کھیلوں پر کافی سرمایہ کاری کرتا رہا ہے اور 2030ء ورلڈ کپ کی مشترکا میزبانی کے لیے بھی تیاری کر رہا ہے۔

سعودی سرمایہ کاروں نے انگلش فٹ بال کلب نیو کاسل خرید لیا ہے اور وہ ایل آئی وی گالف ٹور کے لیے بھی مالی اعانت کر رہے ہیں۔

قطری اور اماراتی پڑوسیوں جو خطے میں کھیلوں کی سفارت کاری کے علمبردار ہیں، سے عداوت پس منظر میں مُسلسل موجود رہتی ہے۔

’’اِس کے باوجود ایشین ونٹر گیمز کا مقصد “سب سے بڑھ کر معاشی” ہے”، ٹورز یونیورسٹی میں خلیجی ممالک کے کھیلوں کی جغرافیائی سیاست (جیو پولیٹکس) کے ماہر رافائیل لی میگوریسی نے اے ایف پی کو بتایا۔

Advertisement

وہ کہتے ہیں کہ ریاض حکومت بنیادی طور پر اپنے مُستقبل کے شہر نیوم (NEOM) کو فروغ دینا چاہتی ہے۔

نیوم نصف کھرب ڈالر مالیتی مُستقبل کے عظیم شہر (میگا سٹی) کا منصوبہ ہے۔ یہ گیمز اِس شہر کے تفریحی مقام ٹروجینا ریزورٹ میں منعقد ہوں گے۔

’’اِن مقابلوں کے لیے برف کے حوالے سے، حتیٰ کہ پورے منصوبے پر عمل درآمد کے بارے میں بھی کسی قسم کی کوئی معلومات دستیاب نہیں”، رافائیل لی میگوریسی نے خبردار کیا۔

رافائیل لی میگوریسی کا کہنا ہے، “سعودی اِس مرحلے پر پہلے ہی مقابلوں کے انعقاد کے “اعلان کے اثرات” سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔”

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب “یورپی عوام سے بات کرنے کی کوشش نہیں کر رہا” بلکہ وہ مشرقِ وُسطیٰ، روس، بھارت اور چین کے امراء سے بات کر رہا ہے جسے وہ ’’لبرل منطق” کہتے ہیں جو “ماحول یا انسانی حقوق کی تشویش سے آزاد ہے۔‘‘

گرین پیس کے علاقائی مہم کے مینیجر احمد الدروبی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’ترقی ان لوگوں کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے جن کے پاس پہلے سے ہی گھر ہیں۔‘‘

Advertisement

انہوں نے کہا کہ “اتنی بڑی مقدار میں پانی کو صاف کرنے کے لیے اتنی ہی بڑی مقدار میں توانائی استعمال ہو گی۔”

’’اِسے مُستقل طور پر پانی فراہم کرنا پڑے گا اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر توانائی کا استعمال طویل مُدتی بنیاد پر جاری رکھیں گے۔‘‘

’’انتہائی محتاط‘‘

ایک ایسے وقت میں جب اسپورٹس کی تنظیمیں اپنے کھیلوں کے سماجی اور ماحولیاتی اثرات کو تیزی سے فروغ دے رہی ہیں جن کی مُحققّین اور این جی اوز کی کڑی نگرانی میں جانچ پڑتال کی جاتی ہے، یہ صورتحال اولمپک کونسل آف ایشیا (او سی اے) کے فیصلے کو حیران کن بناتی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم دیگر امیدوار ممالک کے فقدان نے اُنہیں بہت کم انتخاب فراہم کیا۔

’’او سی اے زیادہ محتاط نہیں ہو سکتا تھا۔ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ کہیں نہ جانے کی بجائے سعودی عرب جانا ہی بہتر ہے”، رینس دوم یونیورسٹی میں کھیلوں کی جغرافیائی سیاست (جیو پولیٹکس) کے ماہر پِم ورشورین نے کہا۔

حالیہ موسم گرما اور سرما کے اولمپکس کی میزبانی کرنے والے جاپان اور چین پہلے آٹھ میں سے چھ گیمز کی میزبانی کرنے کے بعد ایشیائی سرمائی کھیلوں کی میزبانی سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔

Advertisement

پِم ورشورین کا کہنا ہے کہ اولمپک کونسل آف ایشیا (او سی اے) کو میزبان ممالک کی ’’سیاسی اور اقتصادی طور پر موجودگی کی ضرورت‘‘ ہے۔

ممکنہ میزبانوں کی عدم موجودگی محض ایشیائی مسئلہ نہیں ہے۔

بڑے مقابلوں کا حجم اور اخراجات، اور بہت سے ممالک میں عوام کے درمیان دشمنی ممکنہ میزبانوں کے آڑے آرہی ہے۔

پہلے سے ہی محدود جغرافیائی انتخاب کے علاوہ بھی سرمائی مقابلوں کے انعقاد کے لیے شدید مشکلات درپیش ہیں۔

ورشورین کے مطابق، “سوال یہ ہے کہ پائیداری کے معیار پر پورا اُترنے کے لیے کون سی تنظیم سب سے پہلے اپنے مقابلوں کے حجم اور اثرات کو کم کرے گی۔”

لیکن کھیلوں کی تنظیمیں “بڑے بحری جہازوں کی مانند ہیں جو راستہ بدلنے میں وقت لیتی ہیں”،۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کراچی میں دہشتگردی کابڑامنصوبہ ناکام، را کے 2 انتہائی خطرناک ملزمان گرفتار
سعودی عرب سرمایہ کاری کی صورت میں پاکستان کے ساتھ ہم قدم ہے، وزیراعظم
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کا ایجنڈا جاری
وزیراعظم سے اٹلی کی سفیر میریلینا ارملین کی ملاقات
مخصوص نشستیں نہ ملنے کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کافیصلہ معطل
پاک بحریہ کے افسران، سیلرز، سویلینز کو عسکری ایوارڈز تفویض کرنے کی تقریب
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر