 
                                                                              مڈل آرڈر بلے بازوں کی غیرمستقل مزاجی اور کھیل کا آغاز کرنے والے بلے بازوں پر زیادہ انحصار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایشیا کپ، انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز اور نیوزی لینڈ میں جاری سہ فریقی سیریز نے میگا ایونٹ سے قبل پاکستان کے نقطہ نظر اور تیاری پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔
شان مسعود اور حیدر علی کو بیٹنگ آرڈر میں متعارف کرایا گیا تاکہ بحران کو حل کیا جا سکے لیکن یہ دونوں اب تک کوئی خاص تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اپنی واپسی کے بعد سے شان مسعود نے پاکستان کے لیے 9 اننگز کھیلی ہیں، 25 کی اوسط سے 201 رنز بنائے اور ان کا اسٹرائیک ریٹ 130 تک پہنچ گیا۔
انہوں نے دونوں نصف سنچریاں انگلینڈ کے خلاف بنائیں اور ہارنے کے اسباب میں جب گرین شرٹس 2سو سے زیادہ کے ٹوٹل کا تعاقب کر رہے تھے۔
دوسری طرف حیدرعلی کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی، کم از کم 8 اننگز میں انہوں نے صرف 6اعشاریہ67 کی اوسط سے صرف 60 رنز کا اضافہ کیا۔ اس دوران ان کا سب سے زیادہ اسکور 18 رہا اور وہ صرف 100 کے اسٹرائیک ریٹ کے قریب پہنچ سکے۔
ایشیا کپ کے بعد مین گرین شرٹس کی جانب سے افتخار احمد، خوشدل شاہ اور آصف علی جیسے دیگر آپشنز کی اازمانے کی کوشش کی گئی۔
ان تینوں کا اوسط بالترتیب 22اعشاریہ2تا 25، 17اعشاریہ3 اور 11اعشاریہ6 سے کم ہے۔ ہانگ کانگ کے خلاف خوشدل شاہ کی بہترین کوشش کے ساتھ ان میں سے کسی کا بھی اسکور 35 سے زیادہ نہیں ہے۔
پاکستان نے روٹین سے ہٹ کر شاداب خان کو اپنے کیریئر میں پہلی بار نمبر 4 پر آزمایا، ایک ایسا اقدام جس نے کرائسٹ چرچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف فائدہ پہنچایا، اور ایک ایسا اقدام جو محمد نواز کو بھارت کے خلاف نمبر 4 پر لے جانے سے متاثر تھا۔ اور شاداب خود افغانستان کے خلاف نمبر 5 پر کھیلے۔
ایشیا کپ کے دوران ان دو چالوں نے ٹیم کو فائدہ پہنچایا لیکن انگلینڈ کے خلاف کسی بھی میچ میں ان کا استفادہ نہیں ہوا۔
پاکستان کو درپیش ایک اور مسئلہ باؤنڈری کے ذریعے بنائے جانے والے رنز ہیں۔ اسلام آبادیونائیٹڈ کے جنرل مینیجر ریحان الحق کی جانب سے حال ہی میں شیئر کیے گئے اعدادوشمار میں پاکستان کی باؤنڈریز کی تلاش میں جدوجہد کی نشاندہی کی گئی تھی۔
تاہم، ٹاپ چھ ٹیموں کا ڈاٹ بال(جس بال پر کوئی رن نہ بنے) کا فیصد کافی حد تک یکساں تھا۔ 2020ء کے بعد سے پاور پلے کے دوران باؤنڈری میں پاکستان کے رنز کا فیصد T20 کرکٹ کی ٹاپ چھ میں شامل ٹیموں میں سب سے کم ہے۔
پاکستان نے باؤنڈریز کی مدد سے 57اعشاریہ66 فیصد رنز بنائے،جب کہ ٹاپ چھ ٹیموں میں انگلینڈ کے 65اعشاریہ44 فیصد سب سے زیادہ ہیں۔
ان کے بعد بھارت کے 64اعشاریہ45فیصد، آسٹریلیا کے 63اعشاریہ90، نیوزی لینڈ کے 63اعشاریہ41 فیصد اور جنوبی افریقہ کے 63اعشاریہ25 فیصد ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ڈاٹ بال کا تناسب کافی مماثل ہے۔ نیوزی لینڈ کے 6اعشاریہ46فیصد کے تناسب کے علاوہ باقی تمام ٹیمیں اوسطاً پاور پلے کے اندر 43سے45 فیصد ڈاٹ بال کھیلتی ہیں۔
اس مرحلے میں پاکستان کا درست تناسب 44اعشاریہ06 فیصد ہے جو ان چھ ٹیموں میں چوتھے نمبر پر ہے۔
اننگز کےدرمیانی اوورز میں پاکستان نے اپنے 46اعشاریہ98 فیصد رنز باؤنڈریز پر بنائے۔ صرف آسٹریلیا کا تناسب 45اعشاریہ43 فیصدپاکستان سے کم ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے 2021ء کے T20 ورلڈ کپ سے پہلے زیادہ تر کرکٹ اپنے ملک میں کھیلی،جس کے باعث وہ بڑا اسکور نہیں بناسکے۔
اس مرحلے میں انگلینڈ کا تناسب 53اعشاریہ84 فیصدایک بار پھر سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد نیوزی لینڈ کا 51اعشاریہ47فیصد، بھارت کا 50اعشاریہ83فیصد اور جنوبی افریقہ کا 48اعشاریہ54فیصد ہے۔
آسٹریلیا نے اس مرحلے میں بھی سب سے زیادہ ڈاٹ بال کا استعمال کیا ہے، بنیادی طور پر اسی وجہ سے کہ وہ باؤنڈریز میں زیادہ رنز نہیں بنا سکے۔
ان کا ڈاٹ بال کا تناسب 31اعشاریہ03 فیصد ہے، نیوزی لینڈ 29اعشاریہ17 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، اس کے بعد انگلینڈ کا 28اعشاریہ22 فیصد ہے۔ پاکستان، بھارت اور جنوبی افریقہ تینوں نے 28 فیصد کے ساتھ کم ڈاٹ بال کھیلیں ، پاکستان کا تناسب 27اعشاریہ18 فیصد کے ساتھ تمام ٹیموں میں سب سے کم ہے۔
ڈیتھ اوورز(اننگز کے آخری اورز) میں پاکستان نے 60اعشاریہ31 فیصد رنز باؤنڈری کی مدد سے بنائے ہیں۔اس فہرست میں صرف انگلینڈ 64اعشاریہ14فیصد اور بھارت 62اعشاریہ57فیصد کے ساتھ گرین شرٹس سے اوپر ہیں۔
آسٹریلیا گزشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش میں اپنے میچوں کی وجہ سے سب سے آگے ہے اور اس نے آخری چاراوورزمیں صرف 52اعشاریہ52 فیصدرنزباؤنڈریز کی مدد سے بنائے۔
جہاں انگلینڈ نے باؤنڈریز پر سب سے زیادہ رنز بنائے، وہیں ان کا ڈاٹ بال کا 30اعشاریہ07فیصد بھی سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان 28اعشاریہ72 فیصد ڈاٹ بال کھیلتا ہے، جب کہ بھارت کا تناسب 25اعشاریہ70 فیصد فارمیٹ میں ٹاپ چھ رینکنگ ٹیموں میں سب سے کم ہے۔
مجموعی طور پر، باؤنڈریز میں پاکستان کے رنز کا تناسب 52اعشاریہ91فیصد ہے – جو دوبارہ آسٹریلیا کے 52اعشاریہ72فیصدسے زیادہ ہے۔ انگلینڈ وہ ٹیم ہے جس کا باؤنڈریز میں سب سے بہتر تناسب ہے جو کہ 59اعشاریہ29 فیصد ہے، بھارت 57اعشاریہ57 فیصد کے ساتھ اگلے اور نیوزی لینڈ 56اعشاریہ60 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان کا ڈاٹ بال کا تناسب 32اعشاریہ61 فیصد ہے جو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سے بہتر ہے۔ کم ڈاٹ بالز شرح کے ساتھ پاکستان سے اوپر کی ٹیمیں 32اعشاریہ28فیصد کے ساتھ بھارت اور 32اعشاریہ32فیصد کے ساتھ جنوبی افریقہ ہیں۔
آسٹریلیا کا پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اسکور زیادہ نہیں ہیں اور ٹیمیں عام طور پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 2سو کا ہدف نہیں بناتی ہیں، پاکستان کو جو فائدہ ہو سکتا ہے وہ اسکور بورڈ کو متحرک رکھنے کے لیے سنگلز اور ڈبلز کی تلاش میں ہے۔
بشرطیکہ کوئی بڑی تبدیلیاں نہ ہوں، پاکستان بابراعظم ، محمدرضوان اور شان مسعود کو اپنے ٹاپ تھری کے طور پر دیکھے گا ،جس میں شاداب خان نمبر 4 پر آئیں گے، خاص طور پر جب ہدف کا تعاقب کرنا ہو۔
پہلے کھیلنے والی ٹیم کا اسکور جتنا کم ہوگا، خاص طور پر آخری اوورز میں نمایاں طور پر بہتر بولنگ نمبر کے ساتھ پاکستان کے جیتنے کے اتنے ہی بہتر امکانات ہوں گے۔
2020ء کے بعد سے پاکستان نے پاور پلے میں صرف سات سے زائد ،درمیانی اوورز میں 8 سے زائد اور ڈیتھ اوورز میں 11 کے قریب کا رن ریٹ برقرار رکھا ہے ۔
ٹیمپلیٹ میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان عام طور پر اننگز کے آخری مراحل میں فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے مڈل اور لوئر آرڈر کے لیے وکٹیں ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اوپنرز کو درمیان میں کتنا وقت لگانا چاہیے کہ وہ بعد میں آنے والے بلے بازوں کیلئے ہدف کا تعین کرسکیں ، خاص طور پر جب وہ گیم میں پہلے بیٹنگ کر رہے ہوں۔
گزشتہ دو سال میں پہلی اننگز میں پاکستان کا اوسط اسکور 167 رہا ہے جو کہ زیادہ تر مقامات پر کم لگ سکتا ہے لیکن وسائل کے ساتھ آسٹریلیا کے بڑے میدانوں میں چیلنجنگ ثابت ہو سکتا ہے اور بابراعظم کے پاس باؤلنگ کا شعبہ ہے۔
لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ مڈل آرڈر ایک تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے اور اس بحران کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مڈل آرڈر میں کھیلنے کے لیے منتخب کیے گئے بلے بازوں میں سے کوئی بھی ٹیم کی جیت میں حصہ ڈالنے کے لیے اچھی فارم میں نہیں ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا شاداب خان اور محمدنواز کو آرڈر میں لانے کا اقدام ورلڈ کپ میں بھی جاری رہے گا یا کوچنگ اسٹاف کوئی اور فیصلہ کرتا ہے۔
لیکن اس طرح کی غیر یقینی صورتحال کے ساتھ کہ کون کہاں اور کون سا کردار ادا کرے گا، انتظامیہ کو امید ضرور ہے کہ میگا ایونٹ میں محمد رضوان اور بابراعظم کی آزمائشی اوپننگ جوڑی کھلاڑیوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جس سے مڈل اور لوئر مڈل آرڈرز تیز کھیلتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
 
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                 