جیسے جیسے ہم بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے 20 ویں ٹی20 عالمی کپ کے قریب پہنچ رہے ہیں، تیاریاں بھی عروج پرجاری ہیں،جیسا کہ ایشیا کپ میں پاکستان کے دوسرے نمبر پر رہنے کے بعد قومی ٹیم اب سات میچوں کی سیریز میں انگلینڈ کا سامنا کر رہی ہے۔
اس بین الاقوامی کیلنڈر کی بھیڑ بھاڑ میں ایک ٹورنامنٹ سب کی زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکا تھا اور وہ تھا قومی ٹی 20 کپ۔
پیر19ستمبرکوملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے مقابلے کے فائنل میں جس کے جیتنے کی امید کی جارہی تھی،خیبرپختونخواہ (کے پی) کو سندھ کے خلاف شکست ہوگئی۔
جب سے 2019ء میں مجموعی ڈومیسٹک ڈھانچے کو دوبارہ تبدیل کیا گیا تھا، یہ کسی بھی فارمیٹ میں سندھ نے پہلا بڑا ٹائٹل حاصل کیا تھا۔
صوبے سے مقابلہ جیتنے والی آخری ٹیم کراچی بلیوزتھی،جب اس نے 2016-17 کے فائنل میں کراچی وائٹس کو شکست دی۔
اس جیت نے دوسرے وائٹ بال فارمیٹ میں کے پی کی حکمرانی کا بھی خاتمہ کر دیا جب وہ اس سال کے شروع میں اپنے پاکستان کپ ٹائٹل کا دفاع کرنے میں ناکام رہے تھے اوراسی مقام پر فائنل میں انہیں بلوچستان نے کھیل سے باہر کردیا تھا۔
تاہم، یہ شکست کے پی کی ڈومیسٹک کرکٹ میں حالیہ کامیابی کو سبوتاژکرنے کے لیے کافی نہیں تھی، جس کا ہم نے طویل عرصے سے مشاہدہ نہیں کیا۔
حالیہ یادوں میں آخری بارایسا غلبہ سیالکوٹ اسٹالینزنے حاصل کیا تھا،جو کہ کم از کم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی حالیہ تاریخ کی سب سے کامیاب ٹیموں میں سے ایک ہے۔
تجربہ کارآل راؤنڈرشعیب ملک کی قیادت میں سیالکوٹ اسٹالینزنے چھ بارقومی ٹی ٹوئنٹی کپ جیتنے کا منفرد ریکارڈ قائم کیا، ان چھ میں سےانہوں نےاسے 2005-06 سے 2009-10 تک لگاتار پانچ سال جیتا تھا۔
کامیابی کا یہ دور لگاتار 25 فتوحات کے ساتھ جاری رہا – جو اب بھی اعلیٰ سطح کےٹی 20 مقابلے میں ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
انہیں آخری ٹائٹل جیت سال 2011-12 میں کراچی میں راولپنڈی ریمز کے خلاف ملی تھی۔ ان کے پاس قومی ٹی20 کپ فائنل میں کبھی نہ ہارنے کا ریکارڈ بھی ہے۔
سیالکوٹ اسٹالینزپاکستان کو پہلی ٹیم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جسے 2012ء میں جنوبی افریقہ میں منعقدہ ٹی20چیمپئنز لیگ مقابلے میں حصہ لینے کے لیے باضابطہ طور پر مدعو کیا گیا۔
کے پی سمیت کسی بھی فریق کے لیے ان اعدادوشمار یا کمیابیوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ اسٹالینز کی 2000ء سے 2010ء کی دہائی کی راہ پرگامزن ہیں۔
کے پی نے چارمیں سےتین قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے فائنلزنئےنظام کے تحت کھیلے ہیں اوران میں سے دو میں فتح حاصل کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ء2020-21 کے فائنل میں پلیئرآف دی میچ شعیب ملک تھے،جواسٹالینزکے ساتھ ٹورنامنٹ کے کامیاب ترین کپتان تھے، جہاں انہوں نےجنوبی پنجاب کے خلاف 22 گیندوں پر 56 رنزبنا کرناٹ آؤٹ رہے تھے۔
اگلے ہی سال خیبرپختونخوا نے فائنل میں وسطی پنجاب کو شکست دے کر ایک بار پھر انعام اپنے نام کر لیا۔
کئی برس سےاسٹالنز کوحاصل غلبے سے مماثل جس چیز نے کے پی کے کوغالب کیا وہ یہ حقیقت تھی کہ ٹیم میں بہت زیادہ سپر اسٹارز نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اجتماعی طور پر ہر طرف سے ہر ایک کے خلاف غالب ہیں۔
درحقیقت،اوربھی بہترطورپرجانا جائے تو پختونخوا دیگرفارمیٹس میں بھی غالب تھا جبکہ ٹی ٹوئنٹی میں شاندار دوڑ کے دوران اسٹالینز کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔
گزشتہ تین برس میں، ٹیم نے ڈومیسٹک کرکٹ پرملک کی کسی دوسری ٹیم کی طرح حکمرانی کی ہے اورخطےکے کئی قابل ذکر کھلاڑی پیدا کیے ہیں،جو پاکستان کے لیے بھی بین الاقوامی کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔
اکتوبر 2020ء میں خیبرپختونخوا کی پہلی فتح میں ان کے پاس فخرزمان،محمد رضوان،افتخار احمد،مصدق احمد،آصف آفریدی،عثمان شنواری،شاہین شاہ آفریدی اورعمران خان سینئر شامل تھے، جن کا تعلق صوبے سے تھا۔
صوبے سے لگاؤ کا احساس ہی کچھ اورہوتا ہے۔ ماضی میں ہم اسٹالینز کے ساتھ بھی ایسا ہی دیکھتے چلے آرہےتھے۔
شعیب ملک، شکیل انصار، شاہد یوسف، حارث سہیل، بلال آصف اورعمید آصف کا تعلق سیالکوٹ سے ہے جبکہ عمران نذیراوربلال وال بھٹی کا تعلق مریدکے سے ہے، جوکہ سیالکوٹ سے زیادہ دور نہیں،جو کھیلوں کے سامان کی تیاری کے لیے معروف ہے۔
کسی مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی اورفائنل میں اپنے علاقے کو بڑی کامیابی دلانا ہمیشہ ایک خاص احساس ہوتا ہے۔
دوسرے فارمیٹس میں خیبرپختونخوا کی ناقابل یقین کارکردگی کی طرف واپس آتے ہیں،انہوں نے 2019ء میں پاکستان کپ جیت کرپاکستان کرکٹ میں اپنے غلبے کا آغاز کیا۔
اسی سال،وہ قومی ٹی 20 کپ کے سیمی فائنل تک بھی پہنچے تھے،ایک ایسا ٹورنامنٹ جو انہوں نے آئندہ دو سال میں دو بار جیتا۔ انہوں نے اسی سال قائد اعظم ٹرافی میں بھی ایک بہترین سیزن کا آغاز کرنے کے لیے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
اگلے سال، انہوں نے اصلاح شدہ نظام میں پہلی بار قومی ٹی20 کپ کا ٹائٹل جیتا اورانہوں نے پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کی سب سے باوقارٹرافی، قائد اعظم ٹرافی،سنٹرل پنجاب کے ساتھ ساتھ اپنے نام کرلی کیونکہ فائنل مخالف ٹیم کے کپتان حسن علی کی جرأت مندانہ بلے بازی کی وجہ سے فائنل فیصلہ کن نہیں ہوسکا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دلکش مقابلہ ایف سی کرکٹ کے آغازسے لے کر اب تک کھیلے گئے 60ہزارسے زیادہ فرسٹ کلاس میچوں میں سے صرف 67 واں غیرفیصلہ کن کھیل تھا۔
سال 2021ء خیبرپختونخوا کی ٹیم کے لیے کامیاب ترین سال ثابت ہوا، کیونکہ ان کے پاس تمام بڑے ڈومیسٹک ٹائٹلز تھے۔ انہوں نے قومی ٹی 20 کپ، قائداعظم ٹرافی اور پاکستان کپ بھی جیتا تھا۔
2020ء اور 2021ء کے درمیان، انہوں نے لگاتار پانچ ڈومیسٹک ٹائٹل جیتے – یہ کارنامہ سیالکوٹ اسٹالینز نے صرف ٹی 20 فارمیٹ میں حاصل کیا۔
اس میں اضافہ کرنے کے لیے،خیبرپختونخوا کی پروڈکٹ محمد رضوان کی زیرقیادت اسی سال پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز ملتان سلطانز نے اپنا پہلا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
اس ٹیم کی پلیئنگ الیون میں خوشدل شاہ اورعمران خان سینئرجیسے کھلاڑی شامل تھے جن کا تعلق بھی کے پی کے صوبے سے ہے۔ملتان سلطانز کےکوچنگ سیٹ اپ میں عبدالرحمان بھی تھے جو سیالکوٹ اسٹالینز کا لازمی حصہ تھے۔
خیبرپختونخوا کے پانچ ملکی ٹائٹل:
– قائداعظم ٹرافی 2021/22 چیمپئنز
– قومی T20 کپ 2021ء چیمپئنز
– پاکستان کپ 2021ء چیمپئنز
– قائداعظم ٹرافی 2020/21 مشترکہ چیمپئنز
– قومی T20 کپ 2020ء چیمپئنز
2022 میں اب تک وہ پاکستان کپ کے ساتھ ساتھ نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں بھی رنر اپ رہے ہیں۔
اگرچہ بہت سے لوگ دعویٰ کریں گے کہ کے پی کے لیے صورتحال ایسی اچھی نہیں ہے جتنی کہ اسٹالینز کے لیے تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اس وقت ٹیمیں اسٹالینزسے ڈرتی تھیں بالکل اسی طرح اب پختونخوا کے خلاف ہیں۔
کے پی کی یہ ٹیم اپنے مقامی ٹیلنٹ کی کامیابی پرپروان چڑھی ہے، کچھ ایسا ہی معاملہ تھا جب اسٹالینز شو پرراج کررہے تھے۔
پختونخواہ کی کامیابی ستاروں کی رہین منت نہیں بلکہ ان کھلاڑیوں کی ربط سازی کی وجہ سے ہے جو ایک ہی علاقے سے سامنے آرہے ہیں، ایک ہی زبان بول رہے ہیں،جو کبھی اسٹالینز کے ساتھ بھی ہوا کرتا تھا۔
لہذا، کے پی میں،ہم شاید ایک اوردورکا آغازدیکھ رہے ہوں گے،جہاں ایک ٹیم راج کرے گی جب کہ دیگرٹیمیں اس کا تعاقب کررہی ہوں گی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News