
صرف مثبت ہونے اور ٹیم کو سپورٹ کرنے کی خاطر ہر چیز کو نظرانداز کرنے کے تصور کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے
کرکٹ ایک ظالمانہ کھیل ہے۔ یہ ظالمانہ اس لیے نہیں کہ کوئی دوسرا کھیل ظالمانہ نہیں ہوتا، یہ ظالمانہ اس لیے ہے کہ زیادہ تر چیزیں اعداد و شمار کی مدد سے دیکھی جاسکتی ہیں۔
کرکٹ شاید ان چند کھیلوں میں سے ایک اور شاید سب سے اوپر بھی ہے جہاں اعداد و شمار کا استعمال کسی دوسرے کے کھیل کے مقابلے میں بے مثال ہے۔
کوئی بھی اعداد کی بنیاد پر معاملات کو سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہ آپ کو بتاتے ہیں کہ کیا ہوا، کیوں ہوا اور کبھی کبھی بحران کا حل نکالنے میں بھی مددگار ہوتے ہیں۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اعداد و شمار کا اب چرچا ہے اور وہ لوگ جو کرکٹ شوق سے دیکھتے ہیں(جیسے پاکستان میں بھی) اپنی بات ثابت کرنے کے لیے نمبروں کا استعمال کرتے ہیں اور یہ رویہ بالکل صحیح بھی ہے۔
ان اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے، اس سال کے شروع میں پاکستان کی بیٹنگ لائن کے بارے میں ایک خود شناسی کا آغاز ہوا جہاں بہت سے لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان ٹیم کو گزشتہ چند سالوں میں ٹی ٹوئنٹی میں اصل مسئلہ جس کا سامنا ہے وہ اوپنرز کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کا اسٹرائیک ریٹ ہے۔
یہ تنقید یقینی طور پر کچھ درست بھی تھی کیونکہ جب سے بابر اور رضوان نے ٹی ٹوئنٹی میں گرین کیپس کے لیے کھلنا شروع کیا ہے، وہ اسکور کرنے کی رفتار کے حوالے سے پاور پلے میں بیٹنگ کرنے والے تمام کھلاڑیوں کے درمیان سب سے سست رہے ہیں، پہلے چھ اوورز میں صرف سات سے کچھ زیادہ کا رن ریٹ رکھ پائے ہیں۔
لیکن ایک چیز جس کا اس ٹیبل میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اسی دورانیے میں پاکستان نے پاور پلے میں 41 اننگز میں صرف 45 وکٹیں گنوائیں، جس کی وجہ سے اس دورانیے میں وکٹیں گنوانے کی اوسط بھی دنیا میں سب سے کم رہی۔
چارٹ میں دیے گئے اعداد بتا سکتے ہیں کہ زیادہ فرق نہیں ہے، اسے آسانی سے سمجھنے کے لیے، ۔ اسی دورانیے میں پاکستان پاور پلے میں 10 اننگز میں 11 وکٹیں گنوا چکا ہوتا، دوسرے نمبر پر بھارت 13 کے ساتھ ہوتا جب کہ زمبابوے تقریباً 20 وکٹیں گنوا دیتا۔
لیکن جیسا کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی میں وکٹ کیپنگ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کم از کم اب سوال یہ ہے کہ کیا گرین کیپس کے طریقہ کار پر بھی اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے؟
2021ء کے آغاز سے، پاکستان ٹی ٹوئنٹی میں اس کے 3 سے 8 نمبر کے بلے بازوں کی اوسط صرف 17 سے کچھ زیادہ اور 127 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ہے لیکن اس میں ایک انتباہ ضرور ہے۔
پچھلے 22 مہینوں میں، ٹیم میں دو سینئر کھلاڑی تھے (محمد حفیظ اور شعیب ملک) جو درمیانی مرحلے میں بیٹنگ کرتے تھے اور کچھ قیمتی شراکتیں کرتے تھے.
لیکن دونوں 2022ء میں ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا حصہ نہیں رہے ہیں اور اس سال، اسی مدت میں، ان پوزیشنوں پر گرین کیپس کی اوسط 14 اعشاریہ 77 ہے اور اسٹرائیک ریٹ 119 اعشاریہ 7 ہے، جو صرف سری لنکا اور افغانستان سے بہتر ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ اس پر اتنی توجہ کیوں دی جاتی ہے کہ رضوان اور بابر کیا کر رہے ہیں، جب کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ کرکٹ کے لیے بہترین ہے۔ اس کا جواب ابھی معلوم ہونا باقی ہے لیکن ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی توانائیاں وہاں نہیں لگا رہے جہاں ہونی چاہئیں۔
اور یہ صرف میدان میں موجود کرکٹرز تک ہی محدود نہیں ہے جہاں توجہ تیزی سے رنز بنانے پر ہوتی ہے جبکہ توجہ صورتحال کے مطابق کھیلنے پر ہونی چاہیے کیونکہ ہر کوئی ایک جیسے انداز میں نہیں کھیل سکتا، یہ اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شائقین سوشل میڈیا پر کیا کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، لوگ اس بارے میں زیادہ پریشان تھے کہ خوشدل شاہ مقامی ہجوم کی طرف سے طنز کے بعد روئے یا نہیں، بجائے اس کے کہ سیریز میں انہوں نے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جہاں ان کی چار اننگز میں اوسط 21 تھی اور ان کا اسٹرائیک ریٹ صرف 112 اعشاریہ 50 تھا۔
سوشل میڈیا پر بہت ساری پوسٹس سامنے آئی ہیں کہ کس طرح ہجوم کی طرف سے ’پرچی‘ کے نعرے لگانے کے بعد (مبینہ طور پر) بلے باز جذباتی طور پر ٹوٹ گئے جو کافی حیران کن ہے کیونکہ ایک کھلاڑی کو سخت جان ہونا چاہیے۔
ہجوم کی طرف سے آج بھی طعنے ملے ہیں اور ہمیشہ ہی ملتے رہیں گے چاہے کبھی اپنے ہم وطن تماشائیوں کی طرف سے اور کبھی کبھی اپوزیشن کے پرستاروں کی طرف سے۔ لیکن اس سے یہ ظاہر نہیں ہونا چاہئے کہ ایک میچ ختم کرنے والے کی حیثیت سے کھیلنے والے کھلاڑی کی کمزور کارکردگی کے بعد، انہیں آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔
اسی طرح، افتخار احمد کی باؤلنگ کے بارے میں اتنی خوشی ہوئی کہ وہ 6 اعشاریہ 8 کے اکانومی ریٹ کے ساتھ پاکستان کے تمام باؤلرز میں سب سے زیادہ کفایتی بالر رہے کہ لوگ تقریباً بھول گئے کہ جب ٹیم کو بلےباز کے طور پر ان کی ضرورت ہوتی تھی تو انھوں نے کبھی پرفارم نہیں کیا۔
19 اعشاریہ 80 کی اوسط، 132 کا اسٹرائیک ریٹ اور 32 کا ہائی اسکور کسی ایسے کرکٹر کے لیے اچھا نہیں ہے جو جدید دور کی کرکٹ میں چار یا پانچ نمبر کی پوزیشن پر بیٹنگ کر رہا ہو۔
اس کا موازنہ انگلینڈ کے بین ڈکٹ اور ہیری بروک سے کیا جائے، جو دونوں سیریز میں چار اور پانچ پر آئے تھے، تو معلوم ہوتا ہے کہ افتخار کی کارکردگی کس قدر ناقص تھی۔
بائیں ہاتھ کے کھلاڑی نے 159 اعشاریہ 50 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 46 اعشاریہ 60 کی اوسط سے 233 رنز بنائے جب کہ بروک نے 78 اعشاریہ 33 کی اوسط اور 160 اعشاریہ 96 کے اسٹرائیک ریٹ سے 235 رنز بنائے۔
اس سارے معاملے میں لوگ ایک بار پھر آصف علی کو بھول گئے تھے۔ اپنے حملہ آور انداز کے لیے مشہور دائیں ہاتھ کے بلے باز نے 136 کے اسٹرائیک ریٹ سے چار اننگز میں 34 رنز بنائے جس میں ریس ٹوپلی کی گیند پر ایک ہی اوور میں لگے دو چھکے بھی شامل تھے۔
اسی طرح حیدر علی، ایک اور تیز کھیلنے والے بلے باز اور شاید وہ واحد شخص ہیں جو فخر زمان کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے ڈراپ کیے جانے کے بعد ٹاپ آرڈر میں ان کی جگہ بیٹنگ کر سکتا ہے، نے 94 اعشاریہ 74 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ چار اننگز میں نو کی اوسط سے 36 رنز بنائے۔
سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ شاید کسی نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز نے پاکستان کو وہ فائدہ نہیں دیا جس کی وہ تلاش کر رہے تھے۔
سیریز شروع ہونے سے پہلے، ممکنہ طور پر چھ کھلاڑی پلیئنگ الیون میں یقینی تھے اور سیریز کے بعد بھی وہی چھ کھلاڑی ٹیم میں ضروری ہیں۔
باقی پانچ یقینی کھلاڑیوں کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے اور ہم روایتی حریف بھارت کے خلاف پہلے میچ سے صرف دو ہفتے دور ہیں۔
اپنے ملک میں کھیلنے والی ٹیم کے لیے ایک حقیقی احساس یہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہونے کے بعد یہ ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود صرف مثبت ہونے اور ٹیم کو سپورٹ کرنے کی خاطر ہر چیز کو نظرانداز کرنے کے تصور کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے اور سوالات پوچھے جاتے رہنے چاہئیں۔
چاہے ہم اسے تسلیم کرنا چاہیں یا نہ کریں، ایک طوفان ہمارا انتظار کر رہا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ نہ تو ہم تیار ہیں اور نہ ہی اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا اندازہ ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News