قومی فٹ بال ٹیم کی ورلڈ کپ میں کامیابی کا موقع اس وقت ایران میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں کے سایے میں ہے۔ قومی ٹیم میں تقسیم کی افواہیں گردش میں ہیں، کچھ سوشل میڈیا پوسٹس پراسرار طور پر غائب ہوئیں اور سابق نامور کھلاڑی مظاہروں کی حمایت کر رہے ہیں۔
’ٹیم ملی‘ قطر میں ایک مسابقتی اور سیاسی طور پر بھرے ہوئے گروپ بی میں شامل دوسری ٹیموں سے مقابلے کی تیاری کر رہی ہے، جہاں وہ پہلی بار ناک آؤٹ راؤنڈ تک پہنچنے کی کوشش میں امریکہ، انگلینڈ اور ویلز کا سامنا کرے گی۔
لیکن ایک اخلاق سے عاری محکمے کے طور پر بدنام ایرانی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد 22 سالہ ’مہسا امینی‘ کی موت کے بعد سے ایران کو ہلا کر رکھ دینے والے مظاہروں نے اس ٹیم (جو فٹ بال کے دیوانے ملک کی حیثیت سے بہت زیادہ اثر رکھتی ہے) کے حوالے سے پریشان کن سوالات کو جنم دیا ہے۔
ٹیم کے اسٹار فارورڈ ’سردار ازمون‘ کی بہت زیادہ جانچ پڑتال کی گئی ہے، جو ’بائر لیورکوسن‘ کے لیے ’بنڈس لیگا‘ میں کھیلتے ہیں۔ ابتدائی طور پر انہوں نے حکام کی طرف سے کیے گئے سخت اقدامات کی مذمت کی اور الزام لگایا کہ ان کی جانب سے خاموشی اختیار کرنے کے احکامات دیے گیے ہیں لیکن بعد ازاں وہ پیچھے ہٹ گئے۔
دریں اثنا، ایرانی فٹ بال کے بڑے ناموں میں سے ایک، قومی ٹیم کے سابق اسٹار علی کریمی، حکومت کے حامی میڈیا میں ہونے والی تلخ تنقید کی مخالفت میں، سوشل میڈیا پر مظاہروں کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے ایران میں بہت سے مظاہرین کے لیے ہیرو بن گئے ہیں۔
مظاہروں کی بازگشت، منگل کو ویانا میں سینیگال کے خلاف ایران کے ورلڈ کپ سے پہلے کے دوستانہ میچ تک پہنچی، جہاں اسٹیڈیم کے باہر مظاہرین نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف نعرے لگائے اور کریمی اور ازمون کے نام پکارے۔
احتجاج کے منتظمین میں سے ایک ’مہران مستعد‘ نے کہا، “ہم یہاں صرف (ٹیم سے) بھیک مانگنے کے لیے آئے ہیں کہ براہ کرم ہمارے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے ہمارا ساتھ دیں۔‘‘
’’یقینی طور پر ایک فٹ بال کھلاڑی کو حمایت کا اظہار کرنے پر نتائج بھگتنا پڑیں گے کیونکہ ایران میں حکومت مخالف لوگوں کے لیے نتائج واقعی بہت سخت ہیں۔ لیکن یقینی طور پر انھیں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘
پر اسرار طور پر غائب ہو جانے والی سوشل میڈیا پوسٹ
کھیل کے آغاز پر ازمون میدان سے باہر بینچ پر تھے، جس سے ان افواہوں کو تقویت ملی کہ شاید انہیں اب نہیں کھلایا جائے گا۔ لیکن وہ دوسرے ہاف میں میدان میں اترے اور بہت مہارت سے ’ہیڈر‘ کے ذریعے گول اسکور کیا۔ اس لمحے ایران کے نئے پرتگالی کوچ کارلوس کوئروز کی خوشی دیدنی تھی۔
میچ شروع ہونے سے قبل ٹیموں کے قومی ترانوں کے دوران ازمون خاموش دکھائی دیے جبکہ کھلاڑی اپنی قومی جرسی پر کالے رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئے تھے۔
اسی ہفتے کے شروع میں، ایرانی فٹ بال پر بلاگز لکھنے والوں نے ازمون کی ایک انسٹاگرام پوسٹ کے ’اسکرین شاٹس‘ لیے جس میں کہا گیا تھا کہ “ٹیم ملی (ایرانی فٹبال ٹیم) پر پابندی کے قوانین کی وجہ سے، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔”
لیکن انہوں نے مزید کہا کہ وہ مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے خاموش نہیں رہ سکتے جس کے بارے میں مظاہرین کا کہنا ہے کہ 75 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس اسکرین شاٹ میں مزید لکھا تھا، “یہ ہمارے ہوش و حواس سے کبھی نہیں مٹ سکے گا۔ شرم آنی چاہیے!” بعد ازاں نہ صرف پوسٹ کو ختم کر دیا گیا بلکہ ازمون کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کا پورا مواد، جسے تقریباً 50 لاکھ لوگ فالو کرتے ہیں، کئی دنوں تک غائب رہا۔
ازمون کے جرمن کلب نے بھی ان کی حمایت کی۔ اس کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ نے ڈائریکٹر سائمن رولفس کے حوالے سے کہا۔ “یقیناً، ہم ایران کی خواتین کے ساتھ سردار کی یکجہتی کی حمایت کرتے ہیں۔”
سینیگال کے میچ کے بعد، ازمون کا انسٹاگرام اکاؤنٹ بحال کر دیا گیا، اور وہ اپنی سابقہ پوسٹ کے لیے معافی مانگتے نظر آئے۔
انہوں نے کہا، “مجھ پر انسٹاگرام پوسٹ لکھنے یا ختم کرنے کا کوئی دباؤ نہیں تھا،” انہوں نے مزید کہا کہ “ٹیم ملی میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔”
انہوں نے لکھا، “میں قومی ٹیم میں اپنے دوستوں سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ میری جلد بازی کی وجہ سے بلاگرز نے میری ٹیم کی توہین کی اور ٹیم کے سکون کو خراب کیا۔”
انہوں نے خواتین کے والی بال کلب کی حمایت کرتے ہوئے ایک اور پوسٹ شامل کی جسے انہوں نے خود بنایا تھا، اور کہا کہ امینی کی موت نے “قوم میں ایک ایسا درد چھوڑا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔”
سابقہ نامور ایرانی فٹبال کھلاڑی
ان کے تبصرے ان لوگوں کو مایوس کرنے کے لیے کافی ہیں جو ورلڈ کپ سے قبل ٹیم کی جانب سے ایک مضبوط سیاسی موقف کے خواہاں تھے، یہ یاد کرتے ہوئے کہ کس طرح کھلاڑیوں نے 2009ء میں نام نہاد گرین موومنٹ کی حمایت میں کلائیوں پر سبز رنگ کی پٹیاں باندھ رکھی تھیں جو متنازعہ انتخابات کے بعد پھوٹ پڑی تھیں۔
سابقہ کھلاڑیوں میں سے ایک، علی کریمی نے بارہا انسٹاگرام اور ٹویٹر پر مظاہروں کی حمایت میں اور امینی کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مقدس پانی بھی “اس بے عزتی کو دھو نہیں سکتا”۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی سرزمین کے عام لوگوں کی طرح کسی اعلیٰ عہدے یا مقام کی تلاش میں نہیں ہوں۔
میں صرف اپنے ملک کے تمام حصوں میں امن و سکون اور لوگوں کی فلاح و بہبود کا متلاشی ہوں۔
ان پوسٹس نے ایران میں فارس نیوز ایجنسی کو ایک تحریر شائع کرنے پر مجبور کیا جس میں ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، جبکہ ایسی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں کہ ایران میں ان کی جائیداد ضبط کی جا سکتی ہے۔
دیگر اعلی سابق کھلاڑیوں نے انسٹاگرام پوسٹس میں ان کے موقف کو دہرایا ہے۔
مہدی مہدویکیہ (جو برسوں سے بنڈس لیگا کی ایک خصوصیت رہے ہیں) نے حکام پر “لوگوں کو منحرف کرنے اور نظر انداز کرنے” کا الزام لگایا۔
ایک سابقہ نامور اسٹرائیکر اور 1998ء کے ورلڈ کپ سے شہرت حاصل کرنے والے علی دائی نے حکومت سے کہا کہ “جبر، تشدد اور گرفتاریوں کے بجائے ایرانی عوام کے مسائل حل کریں”۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News