Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

بابر اعظم بطور اوپنر ایک پہیلی

Now Reading:

بابر اعظم بطور اوپنر ایک پہیلی

بابر اعظم بلاشبہ پاکستان میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے کرکٹر ہیں۔ ان کے کھیل کی تعریف کی جاتی ہے، لوگ یہ جان کر خوشگوار حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید ہمیں ہمارا سچن ٹنڈولکر یا ویرات کوہلی مل گیا ہے۔

لیکن ایک چیز جس کے حوالے سے وہ اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں وہ ہے ان کی نیت۔ لوگ ان کی بیٹنگ اور میدان میں ان کی کپتانی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔

اگرچہ میدان میں ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے ان کی نیت کا اندازہ لگانے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے، لیکن جب ان کے ہاتھ میں بلا ہو تو معاملہ مختلف ہے۔

لاہور میں پیدا ہونے والے دائیں ہاتھ کے اس بلے باز نے 2022ء میں بین الاقوامی کرکٹ میں 2000 سے زیادہ رنز بنائے ہیں جو کہ دنیا کے کسی بھی بلے باز سے زیادہ ہیں۔

ان اعداد و شمار کے باوجود، بہت سے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا ایک اوسط سال تھا جو کہ کم از کم کہنے میں بہت عجیب لگتا ہے۔

Advertisement

لیکن سوال یہ ہے کہ لوگوں میں یہ خیال کیوں ہے؟ اس کا جواب شاید بابر کے اپنے لیے طے کیے گئے اُن معیارات میں مضمر ہے، جو بہت اعلیٰ ہیں۔

اس سال 703 ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی رنز، 25 اننگز میں پانچ نصف سنچریاں اور ایک سنچری بنانے کے باوجود، ان کے بارے میں اب بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس کھیل کے مختصر ترین فارمیٹ میں یہ ان کا ایک کمزور کاکردگی کا سال ہے۔

ان کی کپتانی کے طریقوں، ان کی بیٹنگ پوزیشن اور ٹیم میں ان کی جگہ پر بھی کچھ سوالات ہیں۔ جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ انہیں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ٹیم کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔

پاکستان نے اس سال ایشیا کپ میں شرکت سے پہلے بہت زیادہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی تھی اور درحقیقت پاکستان نے جو واحد ٹی ٹوئنٹی انٹر نیشنل کھیلا تھا اس میں بابر نے 44 گیندوں پر 66 رنز بنائے تھے۔

پھر ایشیا کپ آیا اور متحدہ عرب امارات میں تمام توقعات کے برعکس ان کی فارم میں کمی نظر آئی۔ اس سے ایک سال پہلے یو اے ای میں کراچی کنگز کے بلے باز نے شاندار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلا تھا۔ وہ ایونٹ میں 303 رنز اور 60 سے زیادہ کی اوسط کے ساتھ سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے۔

پھر ایشیا کپ میں ان سے کیا غلطی ہوئی؟ انہوں نے چھ اننگز کھیلیں اور 11 اعشاریہ 33 کی اوسط اور 107 اعشاریہ 93 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ صرف 68 رنز ہی بنا سکے۔

Advertisement

بابر کا ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ اسکور 30 رنز تھا اور وہ سری لنکا کے خلاف فائنل میں اپنی فارم دوبارہ حاصل نہ کر سکے، جو بالآخر پاکستان کی شکست کی بھی کسی حد تک وجہ بنی۔

لیکن 28 سالہ کھلاڑی نے تمام میچوں میں اننگز کا آغاز جاری رکھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اننگز کے آغاز اور پاور پلے کے بھرپور استعمال کا موقع ملنے کے باوجود ٹورنامنٹ میں ایک بھی چھکا نہیں لگا سکے۔

پاکستان کا اگلا معرکہ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز تھی۔ بابر نے اس سیریز میں سنچری بنائی لیکن اس ایک اننگز کے علاوہ وہ باقی چھ اننگز میں کُل 175 رنز بنا سکے جس میں ایک ففٹی بھی شامل تھی۔

سیریز میں ان کے آٹھ چھکوں میں سے پانچ اسی ایک میچ میں تھے جس میں وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 200 یا اس سے زیادہ کے کامیاب تعاقب میں دو سنچریاں بنانے والے پہلے کھلاڑی بنے۔

انہوں نے 57 کی اوسط سے 285 رنز کے ساتھ سیریز ختم کی، صرف محمد رضوان ہی ایسے کھلاڑی تھے جو ان سے زیادہ رنز بنانے میں کامیاب ہوئے۔

گرین کیپس اس کے بعد بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے خلاف سہ فریقی سیریز میں شرکت کے لیے نیوزی لینڈ روانہ ہوئے۔ کپتان ایک بار پھر توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ وہ پانچ اننگز میں ایک بھی چھکا نہیں لگا سکے اور 48 کی اوسط اور 125 سے کم کے اسٹرائیک ریٹ سے 192 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔

Advertisement

کسی دوسرے ماہر بلے باز نے ٹورنامنٹ میں چھکا مارے بغیر پانچ اننگز نہیں کھیلی ہیں۔ بابر کے اعداد و شمار کے سب سے قریب پاکستان کے آصف علی تھے جنہوں نے نیوزی لینڈ میں خراب کارکردگی کے بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اسکواڈ میں اپنی جگہ خطرے میں ڈال دی تھی۔

پاور پلے میں بابر کے ارادے کی کمزوری پہلے ہی زیر غور تھی اور آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز سے ہی ان کے کم اسکور نے ان پر ہونے والی تنقید میں مزید اضافہ کر دیا۔

وہ پہلی ہی گیند پر بھارت کے خلاف ارشدیپ سنگھ کے ہاتھوں آؤٹ ہو گئے تھے، زمبابوے کے خلاف نو گیندوں پر صرف چار، ہالینڈ کے خلاف پانچ گیندوں پر چار اور جنوبی افریقہ کے خلاف 15 گیندوں پر چھ رنز بنا سکے۔

ان کا پہلا بہتر اسکور پاکستان کے ٹورنامنٹ کے پانچویں میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف تھا، لیکن اس میں بھی وہ 33 گیندوں پر صرف 25 رنز ہی بنا سکے۔

اس وقت بابر نے پانچ اننگز میں صرف 39 رنز بنائے تھے اور وہ محض 61 اعشاریہ 90 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ پاور پلے میں ان کا اسٹرائیک ریٹ 50 سے اوپر نہیں جا رہا تھا، ڈاٹ بال کھیلنے کا تناسب 70 فیصد سے زیادہ تھا اور وہ چوکا یا چھکا لگانے کے لیے 15 گیندیں لے رہے تھے۔

یہ اعداد و شمار کافی خوفناک تھے اور اس بات کا شاید ہی کوئی جواز بچا تھا کہ بابر کو بیٹنگ آرڈر میں ردوبدل پر غور کیوں نہیں کرنا چاہیے۔

Advertisement

ان اعداد و شمار نے سابق کرکٹرز، ماہرین، تجزیہ کاروں اور دیگر کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ بابر بیٹنگ آرڈر میں نمبر 3 یا نمبر 4 پر آ جائیں اور اوپنر کے طور پر کسی اور کھلاڑی کو آزمائیں، خاص طور پر محمد حارث کو بطور اوپنر کھلانے پر غور کریں۔

اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ محمد حارث کا نام بطور اوپنر کیوں آیا تو اس کی وجہ ٹورنامنٹ میں ان کی پہلی دو اننگز تھیں۔

جنوبی افریقہ کے خلاف ناک آؤٹ مقابلے میں، پشاور زلمی کے وکٹ کیپر بلے باز نے صرف 11 گیندوں پر 28 رنز بنائے، اس اننگز میں تین چھکے بھی شامل تھے۔

انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں 18 گیندوں پر 31 رنز بنائے۔ انہوں نے اپنی صرف دو اننگز میں ٹورنامنٹ میں بابر کی تمام اننگز کے مجموعے کو پیچھے چھوڑ دیا۔

یاد رہے کہ حارث کا زلمی کے ساتھ پاکستان سپر لیگ کا شاندار سیزن گزرا تھا جہاں وہ ٹاپ آرڈر بلے باز کے طور پر کھیلے۔

انہوں نے پانچ اننگز میں 186 اعشاریہ 51 کے زبردست اسٹرائیک ریٹ اور 70 کے اپنے بہترین اسکور کے ساتھ 166 رنز بنائے۔ انہوں نے اوپنر کی حیثیت سے اپنی صلاحیت کا ثبوت دیا اور بابر کی کارکردگی میں کمی سے ان کا کیس مزید مضبوط ہوا۔

Advertisement

تاہم، نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں بابر کی فارم میں واپسی کے آثار دکھائی دیے جہاں انہوں نے ٹورنامنٹ میں اپنی پہلی ففٹی بنائی۔

دوسرے سرے پر رضوان نے ان کا بہت اچھا ساتھ دیا، رضوان نے بھی ورلڈ کپ میں اپنی پہلی ففٹی اسکور کی۔

بابر نے 42 گیندوں پر 53 رنز بنائے جس میں سات چوکے شامل تھے اور پاکستان کو فائنل تک پہنچنے میں مدد کی۔ اگرچہ ان کی اننگز میں کوئی چھکا شامل نہیں تھا لیکن انہوں نے اپنی پرانی شخصیت کی ایک جھلک ضرور دکھائی۔

یہ بابر اور رضوان کی نویں اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیسری سنچری شراکت داری تھی۔ اس جوڑی کے یہ دونوں ریکارڈز دنیا کی کسی بھی جوڑی کے پاس نہیں۔

کپتان کی طرف سے اس مادی اننگز نے اب بھی جوابات سے زیادہ سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا بابر اعظم کو محمد حارث کی جگہ بنانے کے لیے اب بھی خود کو تنزلی کرکے نمبر 3 پر آنا چاہیے؟

آئیے اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں اوپنر کے طور پر کھیلنے کے علاوہ دیگر مقامات پر بابر کے ریکارڈ اور مجموعی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں انگز کے نصف اور ڈیتھ اوورز میں ان کی پوزیشنز پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

Advertisement

بابر اعظم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 19 مرتبہ نمبر 3 پر بیٹنگ کر چکے ہیں۔ ان 19 اننگز میں، ان کی اوسط 49 اعشاریہ 28 ہے اور ان کا اسٹرائیک ریٹ 123 اعشاریہ 65 ہے۔

نمبر 3 کے علاوہ، انہوں نے نمبر 4 اور نمبر 5 پر بھی ایک ایک اننگز کھیلی ہے، جس کی اوسط بالترتیب 43 اور 41 ہے۔ کسی بھی پوزیشن پر ٹی ٹوئنٹی میں بابر کی اوسط 35 سے کم نہیں ہے جو اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ اگر صرف بیٹنگ پوزیشن کو مدنظر رکھا جائے تو ان میں کوئی واضح کمزوری نہیں ہے۔

اگر ہم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے مختلف مراحل میں ان کے نمبروں کو دیکھیں تو وہ پاور پلے میں 116 اعشاریہ 68 کے اسٹرائیک ریٹ سے کھیلتے ہیں جو کہ اوپنر کی حیثیت میں غیر معمولی طور پر کم ہے۔

ان کا اسٹرائیک ریٹ درمیانے اوورز میں 133 اعشاریہ 96 اور ڈیتھ اوورز میں 146 اعشاریہ 85 تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بابر کریز پر سیٹ ہونے میں اپنا وقت لگاتے ہیں اور پھر فیلڈنگ کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ان کی رفتار بتدریج تیز ہوتی جاتی ہے۔

ایک مثالی صورت میں، ایک اوپنر کو پاور پلے کے اندر تیز ہونا چاہیے جب فیلڈرز دائرے کے اندر ہوں اور 30 گز کے دائرے سے باہر زیادہ خلا موجود ہو۔

دوسری جانب حارث نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاور پلے میں 184 اعشاریہ 21 کے اسٹرائیک ریٹ سے اسکور کیا۔ وہ تیز گیند بازوں کے خلاف اپنے ہوم گراؤنڈ پر بھی تیز کھیلتے ہیں اور اسپنرز کے خلاف ان کا اسٹرائیک ریٹ نمایاں طور پر کم ہے۔

Advertisement

وہ اپنے بلے پر آنے والی گیند کو پسند کرتے ہیں اور تیز رفتار باؤلرز کے خلاف 175 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ پاور پلے کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے جہاں مخالف کپتان کی جانب سے اسپن کی بجائے تیز گیند بازوں کو استعمال کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اپنے وسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے اور ٹیم کے اسکور میں اضافہ کرنے کے لیے ان کا بھرپور استعمال کرنے کا نام ہے۔ اس مقصد کے حصول میں آپ اکثر اس فارمیٹ میں بلے بازوں کو اپنی وکٹ داؤ پر لگاتے دیکھیں گے۔

اس فارمیٹ میں کسی مثالی اوپنر کے قریب ہونے کی ایک بہت اچھی مثال فن ایلن ہے، جبکہ سوریہ کمار یادیو ایسے ہیں جنہیں درمیانی اوورز میں ایک کیس اسٹڈی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ دونوں اپنی طاقت کے مطابق کھیلتے ہیں اور اکثر ایسے حالات میں بلے بازی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ٹیم کو ان کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

کھلاڑی بابر اعظم کے معیار پر کوئی شک نہیں لیکن اننگز کے آغاز کے لیے زیادہ موزوں کھلاڑی کو آزمانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

بابر کی حالیہ پریشانی ان کے اوپنر کے طور پر کھیلنے کی وجہ سے ہے اور اننگز کی ابتداء میں تیز کھیلنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ان مسائل کو بیٹنگ آرڈر میں ایک معمولی تبدیلی کر کے ختم کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
اپنی قوت پر اعتماد کریں کوئی تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتا، مولانا فضل الرحمن
کراچی، ٹائروں کے گودام میں خوفناک آتشزدگی، 19 گھنٹوں سے ریسکیو آپریشن جاری
کراچی: ای چالان سسٹم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر
فیلڈ مارشل کا دورہ پشاور، افغانستان کو واضح پیغام دے دیا
بھارتی بینک کی وائی فائی آئی ڈی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نام سے تبدیل، ہنگامہ برپا ہوگیا
پی آئی اے کی نجکاری ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر