
پاکستان دنیائے ہاکی میں کبھی ایک اعلیٰ مقام رکھتا تھا۔ تاہم، گزشتہ دو دہائیوں میں منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ ہاکی ٹیم اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی اور گزشتہ پانچ سالوں میں اس کھیل میں کوئی اہم کامیابی بھی نہیں سمیٹ سکی۔
ہاکی ٹیم کے مسلسل زوال کی وجہ سے، جو نسل اپنی جوانی میں ہاکی کو پسند کرتی تھی اس نے کھیل دیکھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اپنی ٹیم کو میدان میں جدوجہد کرتے ہوئے دیکھ کر یہ ان کے لیے صرف دل دہلا دینے والا ہوتا ہے، دریں اثنا، نوجوان نسل اس کھیل سے منسلک نہیں ہو سکتی کیونکہ انہوں نے ہاکی کے میدان میں جشن منانے کے لیے شاید ہی کچھ دیکھا ہو اور نہ ہی ان کے پاس کوئی سپر اسٹار ہے۔
بلاشبہ، قومی کھیل کے زوال کی ایک وجہ کراچی کے ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کی کمی ہے، جس نے اس ملک کو سہیل عباس، حنیف خان، اصلاح الدین صدیق اور بہت سے دوسرے بہترین کھلاڑی دیے ہیں۔
اس مایوس کن صورت حال کے باوجود، محمد شاہ زیب خان، ایک متاثر کن نوجوان، روشنیوں کے شہر سے ابھرا ہے۔
شاہ زیب 14 سال کے طویل عرصے کے بعد ہاکی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ فی الحال، وہ سلطان اذلان شاہ کپ میں اسکواڈ کے ساتھ ہیں، جہاں مین ان گرین نے جنوبی افریقہ کے خلاف 4-1 سے شکست کے ساتھ اپنی مہم کا آغاز کیا۔
ٹورنامنٹ کے لیے ملائیشیا روانگی سے قبل بول نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ زیب نے کہا کہ یہ کراچی اور میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ شہر کا ایک کھلاڑی 14 سال کے عرصے کے بعد مین ان گرین کی نمائندگی کر رہا ہے۔
والد کا سہارا
یہ نوجوان اپنے شوق کو آگے بڑھانا چاہتا تھا اور اس کے لیے انہیں اپنے والد کی بھرپور مددحاصل تھی، کیوں کہ ان کا آبائی خاندان اس کھیل کا بہت شوقین ہے۔ان کے چچا اور والد پیشہ ورانہ طور پر ہاکی کھیلتے رہے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر ذیشان کو اس شوق کو چھوڑنا پڑا۔ تاہم، ان کی والدہ چاہتی تھی کہ وہ میدان میں کھیلنے کے بجائے پہلے اپنی پڑھائی پر توجہ دے۔
اپنی دلی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ذیشان نے کراچی ہاکی ایسوسی ایشن میں شمولیت اور بالآخر جونیئر ٹیم کے کیمپوں میں شرکت کی۔ انہوں نے حال ہی میں سوئٹزرلینڈ میں فائیو اے سائیڈ ہاکی ٹورنامنٹ میں حصہ لیا جس کی وجہ سے انہیں قومی ٹیم میں جگہ ملی۔
اس سے قبل وہ صوبائی اور قومی سطح پر بھی ٹیموں کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ دریں اثنا، حال ہی میں انہوں نے لاہور میں چیف آف آرمی اسٹاف (COAS) ہاکی ٹورنامنٹ میں کراچی کی ٹیم کی قیادت کی، جہاں وہ رنر اپ رہے۔
انہوں نے کراچی میں ہاکی کے کھیل میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی کی ممکنہ وجہ مالی فوائد کا نہ ہونا قرار دیا۔
کراچی یونیورسٹی میں میرین سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والے شاہ زیب نے کہا، ” ہاکی میں سب کو مالی فوائد کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔” اور جب کوئی نتیجہ خیز مستقبل نظر نہیں آتا تو بچے اور والدین اپنی اس میدان میں کوششں کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
کراچی میں یہ کھیل اتنا مقبول نہیں جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔ سندھ کے اندرونی حصوں کا سفر کریں تو کوئی بھی ہاکی نہیں کھیلتا۔ مزید برآں، کوئی بھی اس کھیل کو فروغ یا اسپانسر نہیں کرتا، تو ان بحرانوں میں ایک کھلاڑی کیسے ترقی کر سکتا ہے۔”
باصلاحیت نوجوان ہاکی کھلاڑی نے انکشاف کیا کہ ہاکی کھیلنے کے لیے ہمیشہ ان کے والد نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ذیشان نے امید ظاہر کی کہ وہ جلد ہی اپنی پسند کے کھیل سے کچھ پیسہ کمانا شروع کر دیں گے، جس سے انہیں مزید محنت کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
انہوں نے کہا ’’وزیراعظم نے ڈیپارٹمنٹل ہاکی کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جسے گزشتہ دور حکومت میں بند کر دیا گیا تھا اور ہر کوئی اس پر دباؤ ڈال رہا تھا۔‘‘ [ہاکی کے کھیل میں] کوئی نوکری یا آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے لیکن میں ہاکی میں مزید مہارت کے لیے اسے کھیلنے کا منتظر ہوں۔
حوصلہ افزائی
شاہ زیب نے ہمیشہ پاکستان کے سرکردہ گول اسکور کرنے والوں کی طرف دیکھا ہے اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ خود بھی دائیں جانب ایک اسٹرائیکر کے طور پر کھیلتے ہیں۔
ذیشان نے کہا کہ ’’گول اسکور کرنے کی صلاحیت اور طاقت نے پاکستان کی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے جو ٹورنامنٹ جیتے ہیں وہ گول کرنے کی عادت کی وجہ سے ہیں۔ سمیع اللہ، اڑنے والا تیز رفتار گھوڑا تھا اور لیفٹ ونگر کے طور پر کھیلتا تھا۔ میں نے اسے اپنا آئیڈیل بنایا۔ میری توجہ اپنے لیے نام کمانا ہے جیسا کہ انہوں نے اور دوسرے اولمپینز نے کیا تھا،‘‘
تاہم، ان کا ماننا ہے کہ جدید ہاکی میں تمام کھلاڑیوں کو حملہ اور دفاع دونوں کے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں اور یہی کامیابی کا راز ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ’’جدید ہاکی میں، ہر کھلاڑی اٹیکر اور ڈیفنڈر ہے۔ کوچز کی ضروریات کے مطابق کھیلنا ضروری ہے۔ پوزیشن ایک جیسی ہے لیکن خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔”
باصلاحیت اسٹرائیکر اپنا نام کمانے اور اپنی آنے والی نسلوں کو ہاکی اسٹک اٹھا کر گراؤنڈ میں جانے کی ترغیب دینے کے درپے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ’’میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہوں۔ میں ابھی بھی جوان ہوں لیکن میں اپنے جونیئرز کی مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے اپنے کیریئر میں اب تک جو چیزیں سیکھی ہیں، میں انہیں آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
’’ہر کوئی پاکستان کے لیے نہیں کھیل سکتا۔ یہ ہر بچے کا خواب ہوتا ہے لیکن صرف چند ہی اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ میں انہیں ایسی کثرت اور مشقیں بتاتا ہوں جو انہیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد دے سکتی ہیں۔‘‘
ہاکی کا بہترین کھلاڑی روزانہ تقریباً تین سے چار گھنٹے تربیت کے لیے وقف کرتا ہے کیونکہ اس کے روزانہ دو سیشن ہوتے ہیں۔ میں ’’صبح کے وقت جسمانی کثرت، جب کہ شام کے وقت ماپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور میدان میں کھیل کے لحاظ سے درپیش مشکلات پر قابو پانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
دریں اثنا، شاہ زیب نے نئی پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری حیدر حسین کی کوششوں کو سراہا، جو ہاکی کے میدان میں کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ملک میں اسے فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس بابت ان کا کہنا ہے کہ ’’حیدر حسین کافی پرجوش اور جذبے سے سرشار ہیں۔ وہ ہر کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں،چاہے وہ سینئر ہو یا جونیئر، امید ہے کہ حیدر حسین پاکستان میں کھیل کے لیے بہترین ثابت ہوں گے۔‘‘
ہاکی کے اس ابھرتے ستارے بول نیوز کو یہ بھی بتایا کہ ٹیم کو کوچ سیگ فرائیڈ ایکمین، کی موجودگی سے فائدہ ہورہا ہے، جو ہمیں اس کھیل کی جدید تکنیک سے روشناس کراتے ہیں جن کا اس وقت پاکستانی کھلاڑیوں میں فقدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیگ فرائیڈ ایکمین ہمیں نئی ٹیکنالوجیز، پریشر ہینڈلنگ، اور اسٹرکچر تربیت کے ساتھ ساتھ کیمپ میں جدید ہاکی کے بارے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں،
دریں اثنا، وہ تربیت اور کھیل کے مغربی طریقہ کار کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کے خیال میں اگر پاکستانی کھلاڑی بھی اسی پر عمل کریں تو وہ اپنے مغربی ہم عصروں کی طرح کامیاب نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا ’’اگر ہم مغربی تربیت کی پیروی کرتے ہیں تو ہم پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ دونوں کے کھیلنے کا انداز مختلف ہے، ہمیں ڈرائبل اور ڈاج کرنا پسند ہے، ان میں یہ صلاحیتیں نہیں ہیں لیکن وہ گیند کو اچھی طرح سے پاس کرنے اور اسکور کرنے کے لیے پُر جوش نظر آتے ہیں۔
’’اگر ہم ان کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے تو ہم ناکام ہو جائیں گے لیکن اگر ہم انہیں اپنی رفتار سے کھیلنے پر مجبور کریں گے تو ہم صحیح اختتام پر پہنچیں گے۔‘‘
خواب
ہاکی کے کسی دوسرے کھلاڑی کی طرح شازیب بھی اولمپیئن کہلانا چاہتے ہیں جو ملک کے لیے عالمی مقابلے میں سونے کا تمغہ لاسکیں اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا مقصد پاکستان کو اولمپک میں گولڈ میڈل دلوانا ہے، ہم اس وقت بہت پیچھے ہیں لیکن گولڈ میڈل کے ساتھ اولمپک پوڈیم پر کھڑا ہونا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News