Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

مغربی منافقت پھر بے نقاب

Now Reading:

مغربی منافقت پھر بے نقاب

زبان اظہار کی ایک شکل ہے۔ یہ بیان کرنے کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی دوسرے شخص یا صورت حال کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ بات کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ بوڑھے ہیں یا جوان، زبان اس میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں بنتی۔

زبانوں کے لحاظ سے، کھیل دنیا میں سب سے زیادہ عام ہیں۔ مختلف حصوں میں رہنے کے باوجود لوگوں کو ایک چھتری تلے متحد کرنے کے لیے کھیلوں کو نسل، مذہب یا کسی اور چیز کی پرواہ نہیں۔

کھیل کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں بلکہ یہ لوگوں کو غم، خوشی، جوش اور اس کے ساتھ آنے والی ہر چیز میں متحد کر دے گا۔

کھیلوں کی دنیا میں، فٹ بال عالمی سطح پر اب تک سب سے زیادہ مقبول ہے جہاں اربوں لوگ اس کے مداح ہیں اور مختلف براعظموں اور ٹائم زونز کی ٹیموں کو پسند کرتے ہیں۔

Advertisement

ورلڈ کپ ہر کھیل میں خاص ہوتا ہے لیکن فٹ بال میں ورلڈ کپ کچھ اور ہے۔ اربوں لوگ اپنی اسکرینوں پر چپکے رہتے ہیں حالانکہ ان میں سے اکثریت کا اپنا ملک اس میں حصہ نہیں لے رہا ہوتا۔

کھیلوں کی دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ صرف حصہ لینے والی ٹیموں کے لیے خاص نہیں ہے۔ یہ ان ممالک کے لیے بھی خاص ہے جو مستقبل میں اس تماشے کی میزبانی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ صرف ایک کھیلوں کی تقریب نہیں ہے، بلکہ دنیا میں کسی بھی دوسری تقریب سے بہتر میلہ ہے۔

دوسرے اراکین کو مقابلے کے میزبانی کے حقوق کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے لیے راضی کرنے کے لیے کئی سال لابنگ کی جاتی ہے۔ آخر کار یہ ایونٹ کسی ملک کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ بھی بہت مختصر عرصے میں۔

2 دسمبر 2010ء کو مشرق وسطیٰ کے ایک چھوٹے مگر امیر ملک قطر کو 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق سے نوازا گیا۔

یہ ٹورنامنٹ اب قطر میں جاری ہے اور ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچ چکا ہے لیکن متعدد مسائل کی وجہ سے انتہائی متنازعہ بھی رہا ہے، جن میں سے سب سے قابل ذکر تنازع ملک کے ہم جنس پرستی یا ایل جی بی ٹی کیو برادری کی توثیق نہ کرنے کے فیصلے کے حوالے سے تھا۔

Advertisement

تنازعہ

قطر اب بھی ایک قدامت پسند معاشرہ ہے۔ ملک کی شماریات کی اتھارٹی کے مطابق، اس چھوٹے سے ملک میں مقیم آبادی کاتقریباً 65 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

جیسے ہی مقابلے کی میزبانی کرنے والے پہلے مسلمان اور عرب ملک کو میزبانی کا حق دینے کا فیصلہ سامنے آیا، پورے بورڈ میں شکوک و شبہات کی لہر دوڑ گئی۔

تاہم، قطر نے صرف ایک مسئلے پر سخت پابندی لگائی اور وہ تھا قوس قزح کے رنگ والے جھنڈے کے استعمال یا بازو بند باندھنے کے بارے میں جو ایل جی پی ٹی کیو برادری یا آسان الفاظ میں ہم جنس پرست افراد کی حمایت کا مظہر ہے۔

اس فیصلے کو مغرب کے میڈیا ہاؤسز، سیاست دانوں اور مختلف ممالک بالخصوص یورپ کے کھلاڑیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

انگلینڈ کے کپتان ہیری کین نے اس مقصد کی قیادت کی اور کمیونٹی کے لیے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے ’ون لو‘ بازو باندھنے پر اصرار کیا۔

Advertisement

اسٹرائیکر نے ٹیلی گراف کے حوالے سے کہا ’’ہم نے ایک ٹیم اور عملے اور تنظیم کے طور پر واضح کر دیا ہے کہ ہم بازو بند باندھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم اسے پہننا چاہتے ہیں۔‘‘

نیدرلینڈ کے کپتان نے بھی اس مقصد میں شامل ہونے کے لیے یہ کہتے ہوئے آواز بلند کی، ’’میں ون لو کا بازو بند پہنوں گا۔ ہمارے نقطہ نظر سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔‘‘

انگلینڈ کے منیجر گیرتھ ساؤتھ گیٹ ایک اور قابل ذکر شخص تھے جنہوں نے یہ کہتے ہوئے اس مقصد کی حمایت کی، ’’ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک مضبوط بیان ہے جو پوری دنیا میں جائے گا، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے، کہ ان کی شمولیت اہم ہے۔‘‘

تاہم، قطری حکام اور فیفا دونوں نے ان کے ارادے کو ٹھکرا دیا جنہوں نے متعلقہ فیڈریشنز کو پیغام دیا کہ اگر کپتان ایسے بازو بند باندھیں گے تو انہیں میچ کے آغاز سے قبل پیلا کارڈ دیا جائے گا۔

یہ فیصلہ اچھا نہیں ہوا، خاص طور پر جرمن وزیر خارجہ نینسی فیسر کے ساتھ جو اس کے بارے میں انتہائی آواز اٹھا رہی تھیں۔

دوحہ میں جرمن فٹ بال ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام کے دورے کے دوران فیسر نے کہا، ’’آج کے دور میں، یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ فیفا نہیں چاہتا کہ لوگ کھل کر رواداری اور امتیازی سلوک کے خلاف کھڑے ہوں۔‘‘

Advertisement

انہوں نے ایک ٹویٹ میں اپنے بیان کو مزید دوگنا کرتے ہوئے کہا، ’’یہ سیاسی بیان دینے کے بارے میں نہیں تھا۔ انسانی حقوق پر سمجھوتہ ممکن نہیں۔ ہمیں بازو بند باندھنے سے روکنا ہماری آواز کو دبانے کے مترادف ہے۔ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں۔‘‘

دوہرا معیار

ہمیں اکثر بتایا جاتا ہے کہ ہر انسان موقع کا مستحق ہے اور یہ کہ ہر ایک کے ساتھ یکساں احترام کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہئے لیکن اس ورلڈ کپ نے ایسے چہرے بے نقاب کیے ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں تھے۔

جیسے ہی قطر کو میزبانی کے حقوق دینے کے فیصلے کا اعلان کیا گیا، ملک میں ہونے والی ہر چیز کو لے کر شکوک و شبہات کی لہر دوڑ گئی۔

یہ سب ووٹ حاصل کرنے کے لیے ارکان کو رشوت دینے کی افواہوں سے شروع ہوا، اگلا اعتراض اس بات پر تھا کہ ٹورنامنٹ کب منعقد کیا جائے گا کیونکہ ملک میں انتہائی گرم موسم کی وجہ سے گرمیوں میں اس کا انعقاد ممکن نہیں اور سردیوں میں اس کے انعقاد کی وجہ سے یورپی کلب فٹ بال سیزن میں خلل پڑ جائے گا۔

Advertisement

پھر ملک میں شراب پر پابندی کے بارے میں بحث ہوئی۔ پھر ملک کے چھوٹے ہونے کے بارے میں کہ کیا وہ اپنی ٹیموں کی حمایت کے لیے آنے والے لاکھوں شائقین کے ساتھ ایسے ایونٹ کی میزبانی کر سکے گا۔

ان تمام مسائل کو صرف 29 لاکھ آبادی والے ملک نے بہت اچھے طریقے سے سنبھالا لیکن ایسا لگتا تھا کہ کچھ لوگوں کو یہ پسند نہیں آیا۔

خطہ میں نہ صرف قطر انتہائی سخت لیبر قوانین کا حامل ہے بلکہ بعض عجیب و غریب وجوہات کی بنا پر مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے ساتھ سیکڑوں ارب ڈالر کی تجارت میں ملوث ہونے کے باوجود قطر کے لیبر قوانین توجہ کا مرکز بنے رہے۔

اس کی تشہیر کے لیے برطانوی اخبار دی گارجیئن نے ایک کہانی بنائی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جب سے اسے میزبانی کے حقوق سے نوازا گیا تھا تب سے ملک میں ساڑھے چھ ہزار تارکین وطن مزدوروں کی موت ہوئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر اموات تعمیراتی مزدوروں کی تھیں۔

حقیقت یہ تھی، جیسا کہ رپورٹ میں بہت خاموشی سے ذکر کیا گیا ہے، یہ 2011ء کے بعد سے ملک میں تارکین وطن کی اموات کی کل تعداد ہے، جن میں وہ تمام کارکن بھی شامل ہیں جو متعدد وجوہات کی بنا پر وہاں رہ رہے ہیں۔ اس کے باوجود مغرب کے مختلف میڈیا ہاؤسز یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ قطر میں ورلڈ کپ کی میزبانی کیوں ایک برا خیال ہے۔

ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں یو اے فا (یورپی فٹبال لیگ) نے کھلاڑیوں پر مختلف سیاسی وجوہات کی بنیاد پر فلسطین کاز کی حمایت اور اسرائیل کی بربریت کے خلاف بولنے پر جرمانہ بھی کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کھیلوں کے ساتھ سیاست کو کبھی بھی شامل نہیں کرنا چاہیے۔

Advertisement

لیکن وہی ممالک اب قطر پر ناراض ہیں کہ وہ بالکل وہی کر رہا ہے جو وہ اپنے ممالک میں کرنا چاہتے تھے یعنی سیاست کو کھیلوں کے ساتھ شامل نہ ہونے دینا۔

وہ ایل جی بی ٹی کیو برادری کو ملک میں اپنی موجودگی ظاہر کرنے کی اجازت نہ دے کر بالکل درست کام کر رہے ہیں جہاں ایک بڑی اکثریت ان چیزوں کو قبول کرنے کا تصور نہیں رکھتی۔

وہ اتنے پریشان ہیں کہ اب وہ فیفا کو چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ اس نے مقامی اداروں کا ساتھ دیا، ان کے اپنے قوانین اور ثقافتی اقدار کو نافذ کرنے میں ان کی مدد کی۔ اگر منافقت کا کوئی چہرہ ہے تو وہ آج ان ممالک کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔

فیفا کے صدر جیانی انفنٹینو نے بھی یورپی ممالک کی جانب سے قطر سے 28 روزہ ایونٹ کے لیے اپنے قوانین میں تبدیلی کے لیے کہا تھا۔

انہوں نے ورلڈ کپ کے آغاز سے عین قبل کہا، ’’ہمیں مغربی دنیا کی جانب سے کچھ یورپی ممالک سے بہت سے سبق سیکھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ میں یورپی ہوں، مجھے لگتا ہے کہ ہم یورپی دنیا بھر میں تین ہزار سالوں سے کیا کر رہے ہیں۔ ہمیں لوگوں کو اخلاقی سبق دینا شروع کرنے سے پہلے پچھلے تین ہزار سالوں کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔ ان میں سے کتنی یورپی کمپنیاں جو قطر یا خطے کے دیگر ممالک سے لاکھوں اور کروڑوں کماتی ہیں (ہر سال اربوں ڈالر) ان میں سے کتنی کمنیوں نے تارکین وطن کارکنوں کے حقوق پر توجہ دی ہے؟ میرے پاس جواب ہے، ان میں سے کوئی بھی نہیں!کیونکہ اگر وہ قانوں بدل دیتے ہیں تو مطلب ہوگا منافع میں کمی۔‘‘

یہ الفاظ، ہر لحاظ سے درست ہیں کیونکہ ایک وقت تھا جب مغرب کے پاس باقی دنیا کی قیادت کرنے کے لیے اخلاقی بنیاد موجود تھی، لیکن یہ گزشتہ تین دہائیوں میں بدل چکا ہے۔

Advertisement

جنگی جرائم کے ارتکاب سے لے کر ہر غلط کام کو محض اپنے فائدے کے لیے جائز قرار دینے نے مغرب کو بے نقاب کر دیا ہے اور اگر کوئی کثر رہ گئی تھی تو اس ورلڈ کپ نے وہ بھی پوری کر دی ہے۔

مغربی ممالک جب اپنے فائدے کے معاملے میں منافق ہیں اور ایک بار پھر بدصورت انداز میں ان کا پردہ فاش ہوا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کیا دوران حمل ماں کی آنکھوں کا رنگ بدلنے کا اثر بچے کی آنکھوں پر بھی پڑتا ہے؟
شہید ملت لیاقت علی خان کی 74ویں برسی
یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، اسرائیلی وزیراعظم
ایس آئی ایف سی کی معاونت سے پاکستان کی دواساز صنعت عالمی سطح پر مستحکم
پاکستان کا خلائی میدان میں ایک اور انقلابی قدم؛ جدید سیٹلائٹ لانچ کیلئے تیار
حماس معاہدےپرعمل نہیں کرتی تواسرائیل دوبارہ لڑائی شروع کرسکتاہے،ڈونلڈٹرمپ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر