
دوسرے ون ڈے میں پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف شکست نے ارادے اور تخیل کے حوالے سے وہی پرانے سوالات اٹھا دیے ہیں
نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ون میں پاکستان کی شکست کے بیٹنگ میں جارحیت اور تخیل کی کمی کے بارے میں ایک بار پھر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ بیٹنگ کا یہ اندااز 90 ء کی دہائی کا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اس پچ پر بیٹنگ کرنا مشکل تھا۔ بابر کے لیے یہ سمجھنا اہم تھا کہ یہ پچ کم تجربہ کار اور کم ہنر مند بلے بازوں کے لیے بہت مشکل ہوجائے گی۔
منصوبہ یہ تھا، جیسا کہ بابر نے میچ کے بعد کہا، کہ وہ اور رضوان اننگز کو آخری اوورز تک لے جانے کی کوشش کریں گے، مگر پھر انہوں نے فرض کرلیا وکٹیں نہیں گریں گی۔ یہ رنز کے تعاقب میں پاکستانی حکمت عملی کی غلط فہمی رہی ہے ۔ یہ حکمت عملی اس وقت مزید بدتر ہوجاتی ہے جب دونوں بلے باز رنز نہ بناپارہے ہوں۔
بابر نے آخری اوورز میں جو شاٹ کھیلتے ہوئے سیدھی گیند پر چھکا لگایا تھا، انہیں محمد رضوان کے ساتھ مل کر یہ انداز 15 ویں اوور ہی میں اختیار کرلینا چاہیے تھا۔
وکٹیں گرنے کے بعد جرات مندانہ شاٹ کھیلنے کی پالیسی 90ء کی دہائی میں اپناتا رہا۔ سرفراز احمد نے اس انداز کو تبدیل کرنے کے لیے کسی حد تک کوشش کی تھی جب وہ کپتان تھے۔
کرکٹ کی جدید دنیا میں جہاں اعدادوشمار راج کرتے ہیں، یہ کھیل پیشگی یا فوری منصوبہ بندی کے بارے میں ہے ، اسے ہر فرد کی صوابدید پر چھوڑنا حیران کن ہوتا ہے۔
اور یہی بات اس وقت دیکھنے میں ۔ 250 سے زیادہ رنز کے ہدف کے ساتھ ٹرننگ پچ پر رن ریٹ تین رنز فی اوور سے بہتر ہونا چاہیے تھا۔
امام الحق کے آؤٹ ہونے کے بعد ایک ایسا بلے باز آنا چاہیے تھا جو ایک ایک دو دو رنز لیتے ہوئے اسکور میں اضافہ کرسکتا ہو۔ رضوان میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔ اس کا مطلب کہ خامی نہ صرف دوران کھیل بلکہ پیشگی منصوبہ بندی میں بھی ہے۔ آپ کے پاس صرف فخرزمان کی صورت میں دورحاضر کا ون ڈے کرکٹ کا بلے باز ہے۔
امام الحق، محمد رضوان اور حارث سہیل دوسرے درجے کی باؤلنگ کے سامنے جراتمند ہوجاتے ہیں جیسے کہ مارچ میں انہوں نے آسٹریلیا کے دوسرے درجے کے باؤلروں کا سامنا کرتے ہوئے ساڑھے تین سو رنز کا ہدف حاصل کرلیا تھا، مگر بہترین باؤلروں کے مدمقابل آنے پر وہ دفاعی انداز اختیار کرلیتے ہیں اور سست روی سے رنز بناتے ہیں۔
کہا جارہا تھا کہ پاکستانی ٹیم نے پچ کو نہیں سمجھا اور تین فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اتری جب کہ نیوزی لینڈ نے ایک فاسٹ باؤلر کو ڈراپ کرکے دو کے ساتھ میچ کھیلا۔
درحقیقت یہ بھی کہا جارہا تھا کہ حارث سہیل کو بالکل واپس نہیں بلایا جانا چاہیے تھا اور کامران یا طیب کو شروع سے ہی فرسٹ الیون کی پلاننگ میں ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ پاکستان کپ (قومی ون ڈے مقابلے) میں چار میچوں میں 129 رنز کارکردگی ایسی نہیں تھی کہ انہیں ٹیم کا حصہ بنایا جاتا۔
مجھے یہ بھی امید ہے کہ حارث رؤف کو تیسرے ون ڈے میں آرام دیاجائے گا۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے لگتا ہے کہ وہ پوری طرح فٹ نہیں ہے۔ اس پورے دوسرے میچ کے دوران اس نے 145 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو عبور نہیں کیا۔
ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم زخمی کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں کھیلنے کے لیے کہے بغیر ہی کیوں انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس لے آتے ہیں۔ اور اگر وہ کھیلنے کے قابل نہیں تھا تو پھر اسے ون ڈے میں نہ آزمائیں۔
وہ جیسا فائٹر کھلاڑی ہے اور جس طرح سے اس نے فیلڈنگ کرتے ہوئے ڈائیونگ اور دوڑنا جاری رکھا ، اگر اسے کھلایا جاتا تو وہ جمعہ کو بھی پانچ وکٹیں لے سکتا تھا۔ لیکن اگر شاہنواز دھانی یا حسنین میں سے کوئی ایک کھیلے تو یہ اس کے اور پاکستان دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔ یا اگر پچ دوبارہ ٹرن لینے والی سمجھی جائے تو ابرار کو کھلانے میں کیا حرج ہے؟
میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ ہوم سیریز کے لیے ہم پہلے سے اسکواڈ کا اعلان کیوں کردیتے ہیں۔ ہم اپنے ملک میں کھیلنے سے حاصل ہوسکنے والی برتری سے محروم رہ جاتے ہیں۔
صہیب علوی 40 سال سے زائد عرصے سے کالم نگار، ایڈیٹر، تجزیہ کار، ٹی وی ماہر/میزبان کے طور پر اندرون اور بیرون ملک کرکٹ کو کور کر رہے ہیں۔ انہوں آئی بی اے سے ایم بی اے کیا ہے۔ وہ کارپوریٹ سیکٹر میں 35 سال تک اعلی عہدوں پر ذمے داریاں انجام دیتے رہے ہیں۔ اب وہ لیڈرشپ، کاروباری حکمت عملی، مارکیٹنگ اور تنظیمی منصوبہ بندی کے بارے میں مشورے دیتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News