
موسمیاتی تبدیلی کے سبب دنیا بھر کے جنگلات میں لگنے والی طاقتور آگ 20 سال قبل کی آگ سے دگنا زیادہ جلا رہی ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق یہ آگ ہر منٹ میں فٹ بال کے 16 میدانوں کے برابر رقبے پر پھیلے جنگلات کو کھا رہی ہے۔
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2001ء کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اِس بے قابو آگ کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کے شعلے ہر سال تقریباً 30 لاکھ ہیکٹر رقبے سے زیادہ، بیلجیئم کے رقبے کے برابر، جنگلات برباد کر دیتے ہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر نقصان بوریل (شمالی خطوں) کے جنگلات میں ہو رہا ہے جن سے روس، کینیڈا اور الاسکا کا زیادہ تر حصہ ڈھکا ہوا ہے۔ بوریل کے جنگلات اُن جنگلات میں سے ایک ہیں جو زمین پر کاربن کا سب سے بڑا ذخیرہ جمع کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے محققین نے سیٹلائٹ امیجری کا استعمال کرتے ہوئے درختوں سے ڈھکے اُن علاقوں کا نقشہ بنایا ہے جو آتشزدگی کے باعث ختم ہوگئے تھے، اس میں اسٹینڈ ری پلیسنگ فاریسٹ فائر (وہ آگ جس سے درخت مکمل طور پر جل جائیں اور اس کے نتیجے میں وہاں کی زمین، پانی، جنگلی حیات وغیرہ متاثر ہوں) سے متاثرہ علاقے بھی شامل ہیں۔
ایسی آگ جنگلات کے تمام یا زیادہ تر پھیلاؤ کو ختم کر دیتی ہے اور جنگلات کے ڈھانچے اور زمین پر طویل المیعاد اثرات کا سبب بنتی ہے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدلتی صدی میں 2021ء کا سال جنگلات میں لگنے والی آگ کے حوالے سے بدترین برسوں میں سے ایک تھا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر 93 لاکھ ہیکٹر رقبے پر موجود درختوں کو نقصان پہنچا ہے۔
گلوبل فاریسٹ واچ اور ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ ریسرچ گروپ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگلات کے مجموعی نقصانات کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ تھا۔ گلوبل فاریسٹ واچ کے تحقیقی تجزیہ کار جیمز میکارتھی نے اے ایف پی کو بتایا کہ، “دنیا بھر میں جنگلوں میں لگنے والی آگ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔”
گزشتہ ہفتے یورپی یونین کی سیٹلائٹ مانیٹرنگ سروس نے کہا تھا کہ فرانس، اسپین اور پرتگال میں دس ہزار ہیکٹر رقبے پر مُحیط جنگلات کی تباہی کے ساتھ 2022ء میں مغربی یورپ میں اب تک کی ریکارڈ آتشزدگی دیکھی گئی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ممکنہ طور پر بڑھتی ہوئی آتشزدگی کے واقعات کا “اہم محرک” ہے، شدید گرمی کی لہروں نے آگ کی شدت میں ڈیڑھ صدی پہلے کے مقابلے میں آج پانچ گنا زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خشک صورتحال آگ کی شدت میں اضافے کا باعث بنتی ہے جو ’’فائر کلائمیٹ فیڈ بیک لوپ‘‘ کے حصے کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کو مزید بدتر بناتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تقریباً 70 فیصد آتشزدگی کے واقعات درختوں سے ڈھکے بوریل کے خطوں میں پیش آئے کیوںکہ بلندی پر واقع یہ علاقے باقی سیارے کی نسبت زیادہ تیزی سے گرم ہو رہے ہیں۔
گزشتہ برس روس کو آتشزدگی کے باعث درختوں سے ڈھکے 54 لاکھ ہیکٹر رقبے کا نقصان ہوا جو 2020ء تک 31 فیصد اضافے کے ساتھ سب سے زیادہ ریکارڈ نقصان ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ ریکارڈ توڑ نقصان طویل گرمی کی لہروں کی وجہ سے ہوا جو انسانی غفلت کے سبب ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے بغیر عملی طور پر ناممکن ہوتا۔
ٹیم نے خبردار کیا کہ موسمیاتی اور آتشزدگی کے بڑھتے واقعات بالآخر بوریل کے جنگلات کو کاربن جذب کرنے والے ذریعے کی بجائے کاربن کے اخراج کے ذریعے میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ “ان بوریل کے علاقوں میں سینکڑوں برسوں کے دوران کاربن مٹی میں سرایت کر چکی ہے جس پر ایک نم حفاظتی پرت موجود ہے،” میک کارتھی نے کہا۔ “یہ زیادہ مسلسل اور سنگین آگ اس اوپری تہہ کو جلا رہی ہے اور مٹی میں موجود کاربن کو اوپر کر رہی ہے۔”
تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ موجودہ صدی کے دوران ان علاقوں میں آتشزدگی سے درختوں کے نقصان میں ہونے والا اضافہ تقریباً پانچ فیصد، یعنی 36 ہزار ہیکٹر رقبے کا ہے۔
آگ ان خطوں میں جنگلات کے نقصان کی اصل وجہ نہیں ہے، اس کے بنیادی محرکات جنگلات کی کٹائی اور نئے جنگلات نہ لگانا ہیں۔
تاہم محققین نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی سے جنگلات کا نقصان اس بات کا زیادہ امکان پیدا کر رہا ہے کہ جنگلات آگ کی لپیٹ میں آ جائیں گے کیونکہ اس عمل سے علاقائی درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے اور پودے خشک ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگلات کی کٹائی کو ختم کرکے اور جنگلات کے مقامی انتظامات کو محدود کرکے، جن میں انہیں جلانا بھی شامل ہے، جنگلات کی مزاحمت کو بہتر بنائیں جو خاص طور پر خشک موسم کے دوران آسانی سے بےقابو آگ کا شکار بن سکتے ہیں۔”جنگل موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف ہمارے پاس موجود بہترین دفاعی ہتھیاروں میں سے ایک ہیں،” جیمز میکارتھی کا کہنا تھا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News