
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ فرانس کے ذریعے چھوٹی کشتیوں میں غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ کے مطابق 22 اگست کو تقریباً ایک ہزار 295 لوگ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے جس سے ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ایک ہزار 185 مہاجرین کی آمد کا پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا جو گزشتہ سال 11 نومبر کو قائم ہوا تھا۔
رواں سال ابھی تک اس مقام سے تقریباً 22 ہزار670 تاریک وطن غیرقانونی طور پر داخل ہوچکے ہیں جب کہ گزشتہ سال اسی مقام سے تقریباً 12 ہزار 500 افراد کو برطانیہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے۔
گزشتہ سال، برطانوی حکام مجموعی طور پر 28 ہزار526 افراد کو ساحل پرلائے، جب انہوں نے مصروف ترین شپنگ لائن کو عبور کرنے کی کوشش کی۔
برطانوی حکومت نے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد سرحدی کنٹرول کی سخت نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم تارکین وطن کا مسئلہ برطانوی حکام کے لیے درد سربنا ہوا ہے۔
اس حوالے سے برطانیہ اور فرانس کے تعلقات میں شدید تناؤ پایا جاتا ہے کیوں کہ برطانوی حکومت نے فرانس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ تارکین وطن کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کررہا ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے امیگریشن کے قوانین کو مزید سخت کردیا گیا ہے تاکہ انسانی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ اپنے آبائی علاقوں میں تشدد اور ظلم و ستم سے پناہ حاصل کرنے والے تارکین وطن کو اس قانون سازی کے ذریعے مجرم قرار دینے کا خطرہ ہے۔
برطانیہ نے رواں سال کے آغاز میں روانڈا کے ساتھ شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے تاکہ کچھ تارکین وطن کو دوبارہ آبادکاری کے لیے افریقی ملک بھیجا جاسکے۔
تاہم برطانیہ کی عدالتوں اور انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں کئی قانونی چیلنجز کی وجہ سے تارکین وطن کی ملک بدری کی پروازیں روک دی گئی ہیں۔
جون میں پہلی پرواز کے ذریعے تقریباً 130 پناہ کے متلاشیوں کو روانڈا کے دارالحکومت کیگالی بھیجا جانا تھا تاہم عدالتی کارروائی کے باعث اب تک کسی کو بھی نہیں بھیجا جاسکا ہے۔
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی نمائندگی کرنے والے گروپ اگلے ماہ سے اس پالیسی کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کرنے والے ہیں۔
برطانیہ کی حکومت کی جانب سے اس پالیسی کا دفاع کیا گیا ہے کیونکہ سیاسی پناہ کے دعووں پر کارروائی اور تارکین وطن کی رہائش کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔
انسانی حقوق کے قوانین کو تبدیل کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے تاکہ ایسے پناہ گزینوں کو آسانی کے ساتھ ملک بدر کیا جاسکے جو غیرقانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوئے ہیں۔
سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے مستعفیٰ ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل لز ٹرس اور رشی سونگ، دونوں نے روانڈا اسکیم کی حمایت کی ہے۔
اس سال تقریباً 60 ہزار افراد کی ملک میں داخل ہونے کی پیش گوئیوں کے ساتھ، لز ٹرس نے کہا کہ وہ اس منصوبے کو آگے بڑھائیں گی۔
رشی سونگ نے کہا کہ وہ اس کو ممکن بنانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔
لیکن برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے ملک بدری کے منصوبے کے مؤثر ہونے پر سوال اٹھایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے کہ اس عمل سے کراسنگ کا یہ سلسلہ رک جائے گا۔
چار ماہ قبل، ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل کی جانب سے روانڈا کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد اب تک 17 ہزار400 سے زائد لوگ چھوٹی کشتیوں میں سمندری راستے کے ذریعے داخل ہوچکے ہیں۔
قانون سازوں نے اس معاملے کے بجائے جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کے یورپی پڑوسی ممالک کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت قریبی تعاون پر زور دیا ہے۔
پارلیمنٹ کی ہوم افیئرز کمیٹی نے کہا کہ 2014 کے بعد سے ہر سال کی طرح 2021 میں بھی سیاسی پناہ کے لیے کل 48 ہزار450 درخواستیں دی گئی ہیں۔
برطانوی ارکان اسمبلی نے ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد کیسز کے بیک لاگ کا ذمہ دار پرانے آئی ٹی سسٹمز اور کم عملے کو قرار دیا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News