بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑی ہندوستان نواز سیاسی جماعتیں اس بات سے پریشان ہیں کہ مستقبل کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں مقامی آبادی کو رائے دہی سے محروم کرکے باہر کے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے گی۔
2019ء میں بھارتی حکومت کی جانب سے خطے کی خودمختاری کو منسوخ کرنے کے بعد یہ پہلے انتخابات ہوں گے جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ مسلم اکثریتی آبادی بیرونی آبادی کے سیلاب میں اقلیت بن کر رہ جائے گی۔
اگست 2019ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے کی تنسیخ، آرٹیکل 370 کے لیے لازمی تھی، بنیادی شق جس نے بھارت اور بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے درمیان نیم خودمختار تعلق قائم کیا تھا۔ آرٹیکل 35 اے تاریخی طور پر اہم تھا کیونکہ اس نے غیر مقامی افراد کو بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد رکھنے یا سیاسی حقوق استعمال کرنے سے روکا ہوا تھا۔
اس سے قبل صرف “مستقل رہائشیوں” یا سابقہ ریاستِ کشمیر کے علاقوں کی ایک کروڑ 25 لاکھ آبادی کو ووٹ دینے، جائیداد رکھنے یا سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کی اجازت تھی۔
ریاست کا قانون بنانے اور یہ وضاحت کرنے کے لیے کہ اس کے”مستقل باشندے” کون ہیں، بھارتی آئین سے الگ اپنا آئین تھا۔ تاہم 2019ء میں متنازع اقدام کے بعد بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر بالکل بھارت کے کسی دوسرے مرکز کے زیر انتظام علاقے کی طرح ہے، جس پر ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے نئی دہلی حکومت کا راج چلتا ہے۔
اگر بھارتی حکومت بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اگلی قانون ساز اسمبلی کو مرکز کے زیرانتظام علاقے کے مقابلے میں قدرے زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے۔ دونوں صورتوں میں، یہ ان رہائشیوں کے لیے بہت اہم ہے جو بنیادی طور پر تبدیل شدہ خطے میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
باہر کے لوگ ووٹ دے سکتے ہیں
چیف الیکٹورل آفیسر ہردیش کمار نے ووٹر فہرستوں کی ترتیبِ نو پر پیشرفت کا اعلان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ خطے میں “عام طور پر رہائش پذیر” کوئی بھی شخص، جیسے “ملازم، طالب علم، مزدور یا کوئی بھی” ووٹ دینے کا اہل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 25 لاکھ لوگ ووٹ دینے کے اہل ہو جائیں گے۔
ان کے بیانات پر بھارت نواز بڑی کشمیری سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی جانب سے تنقید کی گئی جن کا کہنا تھا کہ باہر کے ووٹرز کا مقصد مقامی رہائشیوں کو “حق رائے دہی سے محروم” کرنا ہے۔
دیگر دو جماعتوں، اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس، جن کے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اچھے تعلقات ہیں، نے بھارتی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔
مقامی محکمہ اطلاعات کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 25 لاکھ نئے ووٹر ایسے رہائشی ہوں گے جو ووٹ ڈالنے کی قانونی عمر 18 سال کو پہنچنے والے تھے، اور ساتھ ہی وہ دیگر ووٹر جو منسوخی کے بعد اہل ہو گئے تھے۔ اس وضاحت سے اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس کی تو تسلی ہوئی لیکن باقی جماعتیں شکوک و شبہات کا شکار رہیں۔
حسنین مسعودی، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور بھارتی رکن پارلیمان نے انادولو ایجنسی کو بتایا کہ متنازع نکات پر وضاحت بھارت الیکشن کمیشن کی جانب سے آنی چاہیے تھی، نہ کہ مقامی محکمہ اطلاعات سے۔
مسعودی، جن کی پارٹی نیشنل کانفرنس ان پانچ جماعتوں میں سے ایک ہے جس نے ستمبر میں اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے بڑی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا ہے، نے کہا، “ابھی تک اس بارے میں کوئی بات واضح نہیں کہ یہ عام طور پر رہائش پذیر افراد کون ہیں۔”
ابھی جبکہ سپریم کورٹ نے بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی تقسیم کے لیے استعمال کیے جانے والے قوانین کی قانونی حیثیت کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے، حکومت ایسے قوانین کو “بہت تیز رفتاری سے” نافذ کر رہی ہے جو پہلے کشمیر پر لاگو نہیں ہوتے تھے”، حسنین مسعودی نے کہا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے مرکزی ترجمان سہیل بخاری نے بھی “عام طور پر رہائش پذیر ووٹرز” کے بارے میں مسعودی کے تحفظات کو دہرایا۔ “ہم ستمبر میں کُل جماعتی اجلاس کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔ ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔” انہوں نے کہا۔
حکمراں جماعت کی جانب سے نئے قوانین کا دفاع
بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں باہر سے آنے والے “ملازمین، طلباء اور مزدوروں” کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کے فیصلے کے دفاع میں، بی جے پی نے ایک بھارتی قانون کا حوالہ دیا جو کسی فرد کو اِس سہولت کے ساتھ ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں ووٹ کا حق ترک کر دے۔ “یہ قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ اگر ایک کشمیری، ریاست مہاراشٹر میں ووٹ دے سکتا ہے تو باہر والے یہاں ووٹ کیوں نہیں دے سکتے؟ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے بی جے پی ترجمان الطاف ٹھاکر نے انادولو ایجنسی کو بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حتمی ووٹر فہرست میں نئے ووٹرز کی تعداد 25 لاکھ سے زیادہ یا کم ہو سکتی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ دیگر سیاسی جماعتیں عوام کو گمراہ کرنے کے لیے غیر ضروری طور پر شور مچا رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابات جب بھی منعقد ہوں، اِن کے بارے میں فیصلہ اِنہیں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختار حیثیت سے یکطرفہ دستبرداری پر ایک طرح کے ریفرنڈم کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔
گزشتہ انتخابات کی طرح بی جے پی کی جموں صوبے کے اکثریتی حلقوں میں کامیابی کا امکان ہے، تاہم حکومت سازی کے لیے درکار نشستوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر وادی میں کافی نشستیں جیتنا مشکل ہوگا جہاں 2019ء کے فیصلے کے خلاف خاصی ناراضی پائی جاتی ہے۔
تب سے حکومت مخالف مظاہروں کی یا تو اجازت نہیں دی جاتی اور چند ایک مزاحمتی احتجاجوں کو امن و امان کے لیے خطرہ قرار دے کر پولیس نے ناکام بنا دیا تھا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ جموں اور سری نگر میں پی ڈی پی کے اراکین کی طرف سے صرف دو یا تین چھوٹے مظاہرے کیے گئے جہاں مظاہرین نے “درآمد شدہ ووٹر ناقابلِ قبول” اور “امتیازی سلوک بند کرو” کے پیغامات والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
ہندوؤں کو بھی بے اختیار ہونے کا خوف
بہت سے عام کشمیریوں کو، جنہوں نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انادولو ایجنسی سے بات کی، یقین ہے کہ باہر کے لوگوں کو ووٹ دینے کی اجازت کا مقصد اُنہیں مزید کمزور کرنا ہے۔
مقبوضہ سری نگر کے ایک طالب علم اور رہائشی عمران ملک نے کہا،”یہ نیا فیصلہ کشمیریوں کی اکثریت کے خاتمے کی جانب ایک اور منطقی قدم لگتا ہے۔”
جموں میں مقیم سیاسی مبصر ترون اُپادھئے کا کہنا ہے کہ جہاں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ناراضی قابلِ فہم ہے، جموں کے لوگ بھی اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔
اُپادھئے نے کہا، “جموں کے، خاص طور پر ہندو اکثریتی اضلاع میں رہائش پذیر لوگوں میں اس معاملے پر بے چینی کا احساس پایا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہیں،” اپادھئے نے مزید کہا،”وہ پہلے سے ہی ایک اقلیت ہیں جس کے باعث وہ ہمیشہ غیر محفوظ محسوس کرتے آئے ہیں اور یہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر خطے میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔”
انہوں نے کہا کہ کئی برسوں کے دوران نجی شعبوں میں ملازمت کے لیے باہر سے آنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہوئی جس سے بڑی سرمایہ کاری حاصل ہوئی ہے۔ “چونکہ عام طور پر رہائش پذیر افراد کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے، اس لیے یہ واضح نہیں کہ ایسے کتنے ملازمین کو رائے دہی کے حقوق ملیں گے۔ تاہم یہ یقینی ہے کہ انہیں یہ حق مل جائے گا، جس سے کشیدگی پیدا ہو گی کیونکہ ان باہر والوں کے چند ہزار ووٹ بھی انتخابی نتائج پر بڑا فرق ڈالیں گے”، انہوں نے کہا۔ “اور لوگ حیران ہوں گے کہ اگر کوئی امیدوار ایسے ووٹروں کی مدد سے منتخب ہوتا ہے، تو کیا وہ جموں کے باشندوں کی اُمنگوں کی نمائندگی کر پائے گا؟ کیا وہ اُن کے مسائل کی حساسیت سے واقف ہوگا؟” اُن کا کہنا تھا۔
اپادھئے نے کہا کہ باہر کے رائے دہندگان کے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے امکان نے جموں کے ہندوؤں میں “سیاسی بے اختیاری” کا خوف پیدا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “اُنہیں پہلے ہی معاشی بے اختیاری کے خدشات کا سامنا ہے کیونکہ بہت سے کھاتے پیتے بیرونی افراد مقامی کاروباروں کے لیے خطرات بن رہے ہیں۔”
بے بُنیاد خوف
ایک کشمیری سیاست دان غلام حسن میر ایسے خدشات کو “5 اگست 2019ء کی تبدیلیوں کی حقیقت کو نظرانداز کرنے کی علامت” کے طور پر مُسترد کرتے ہیں۔
کشمیر اب ایک الگ جگہ ہے۔ یہ بھارت کے کسی بھی دوسرے حصے کی طرح ہے اور تمام بھارتی قوانین یہاں لاگو ہوتے ہیں۔ لوگوں کو کام کرنے کی بجائے، مقامی سیاسی جماعتوں کو عملی طور پر کام کرنا چاہیے، نئی انتخابی فہرستوں پر نظر رکھنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا تبدیلیاں کی جا رہی ہیں”، انہوں نے انادولو ایجنسی کو بتایا۔ “اُنہیں نوجوانوں کو تنازعات میں مصروف رکھنے کی بجائے لوگوں کی امتیازی شناخت کی حفاظت کرنی چاہیے۔ کسی بھی صورت میں، اگر معاملات اعلان کے مطابق ہوتے ہیں تو ہمارے لیے کرنے کو کچھ زیادہ نہیں ہے،” میر نے کہا۔
بشکریہ: انادولو ایجنسی
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News