Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

چین کے انسان بردار خلائی مشن میں عوام کی بھرپور دلچسپی

Now Reading:

چین کے انسان بردار خلائی مشن میں عوام کی بھرپور دلچسپی

(220323) — BEIJING, March 23, 2022 (Xinhua) — Students attend a livestreamed popular-science lecture given by Chinese astronauts from China’s space station Tiangong, at the China Science and Technology Museum in Beijing, capital of China, March 23, 2022. Chinese astronauts gave a livestreamed popular-science lecture, the second class from China’s space station, to students on Earth Wednesday afternoon. The Shenzhou-13 crew members Zhai Zhigang, Wang Yaping and Ye Guangfu conducted diverse scientific experiments in zero-gravity environment and introduced the space science facilities during the lecture. The primary ground classroom is at the China Science and Technology Museum. Classrooms are also set up in Lhasa of southwest China’s Tibet Autonomous Region, Urumqi of northwest China’s Xinjiang Uygur Autonomous Region. (Xinhua/Guo Zhongzheng)

چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتے سمرقند، ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں ایک اہم تقریر کی ہے، جس میں آگے بڑھتے ہوئے حالیہ شنگھائی  اجلاس کے رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔  صدر شی جن پنگ نے اس جانب نشاندہی کی ہےکہ نئے حالات میں شنگھائی تعاون تنظیم کو بین الاقوامی اور علاقائی امور میں ایک اہم تعمیری قوت کے طور پر بدلتی ہوئی  عالمی تحریک  کے تناظر میں خود کو اچھی پوزیشن میں رکھنا چاہیے۔ وقت کے  ساتھ  چلتے ہوئے ، یکجہتی اور تعاون کو مزید  مضبوط کرنا چاہیے اور مشترکہ مستقبل کی خاطر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کوایک دوسرے کے  قریب آنا چاہیے۔ چینی صدر کی تقریر کو اجلاس کے شرکا ءنے خوب سراہا ۔درحقیقت  چینی صدر کی تقریر کو سب سے زیادہ پسند کیا  گیا اور شنگھائی تعاون تنظیم  کے دیگر  اہم  نکات کی طرح یہ تقریر   اہمیت اختیار کرچکی ہے۔

سربراہی اجلاس میں، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے رہنماؤں نے سمرقند اعلامیہ پر دستخط کیے، جس میں موجودہ بین الاقوامی اور علاقائی ترقی کے مسائل کے لیے بلاک کو مسترد کرنے، نظریاتی طور پر الزام تراشی اور تصادم کے رویے کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی  باہمی احترام، مساوات اور مشترکہ سود  مند تعاون کے جذبے  اور  انسانوں کے روشن مستقبل کے لیے ایک برادری کی تعمیر میں نئے  عالمی تعلقات کی ترقی میں تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت  پر زور  دیا گیا ہے ۔  اس عمل میں چین کا کردار سب پرکھل کر واضح ہوچکا ہے ۔ اپنی تقریر کے دوران چینی رہنما نے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو(عالمی ترقیاتی اقدام) اور گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو (عالمی سیکیورٹی اقدام) کی صورت میں علاقائی ممالک کے خدشات کو دور کرنے کے لیے بہترین جواب دیئے ، جس کے باعث عالمی برادری میں تیزی سے وسیع اور پختہ اتفاق رائے سامنے گیا ۔  14 سے 16 ستمبر2022ء تک صرف تین روز میں، شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے علاوہ، صدر شی جن پنگ نے قازقستان اور ازبکستان کے سرکاری دورے بھی کیے، اس دوران روس سمیت متعدد ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، چین، روس اور منگولیا کے سربراہان مملکت کی جانب سے بلائے گئے چھٹے اجلاس میں شرکت  بھی کی۔ چینی صدر نے کئی بڑے اور اہم  تعاون کے منصوبوں میں سہولت کاری کے لیے دلچسپی ظاہر کی اور بیشتر منصوبوں اور دو طرفہ تعاون  کے  معاہدوں پر دستخط بھی  کیے ۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 20ویں قومی کانگریس کے موقع پر چینی سربراہ مملکت کے لیے یہ اہم ترین سفارتی تقریب مکمل طور پر کامیاب ثابت ہوئی ۔

ریاست کے سربراہ کی تازہ ترین سفارت کاری کی کوشش کے  نتیجے میں  چین اور وسطی ایشیا ئی ممالک کے  مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہوگئے ۔ 2013ء میں وسطی ایشیا کے  دورے کے دوران، صدر شی جن پنگ نے پہلی بار شاہراہ ریشم اقتصادی پٹی کی مشترکہ طور پر تعمیر کے اقدام کی تجویز پیش کی تھی ۔ 9 سال بعد، جب  چین  خطے کا دوبارہ جائزہ لیا، تب تک بیلٹ اینڈ روڈ اقدام پہلے ہی وسطی ایشیا میں نتیجہ خیزثابت ہوچکا تھا۔  چین اور یورپ کے درمیان” ایس سی او  ایکسپریس لائن” کے نام سے یوریشین مال بردارٹرین سروس کا آغاز ہوگیا۔ پاک چین  اقتصادی راہداری کی تعمیر میں تیزی لائی گئی، اور ازبکستان میں انگرین پاپ ریلوے لائن پر وسطی ایشیا کی سب سے لمبی سرنگ کھول دی گئی۔ یہ وہ چند بڑی کامیابیاں ہیں جنھیں سب ہی  نے دیکھا ۔

بہت سے شریک ممالک کی مشترکہ کوششوں کے ساتھ چین کی طرف سے شروعات کو مؤثر طریقے سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور دو طرفہ اور کثیر جہتی باہمی فائدہ مند تعاون کی توسیع  میں تبدیل کیا گیا ہے جس سے عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو فائدہ پہنچا ہے۔ یہ کسی حدتک  بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک کمیونٹی کی تعمیر کا ایک حقیقی معاملہ ہے۔ وسط ایشیائی ممالک کی جانب سے چینی صدر شی جن پنگ کا پرتپاک استقبال چین کی سفارت کاری کے اعلیٰ اعتراف اور چین کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کی مخلصانہ کوششوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ وسط ایشیا، اپنی غیر متوازن ترقی، کمزور بنیاد وں اور پیچیدہ نسلی اور مذہبی تعلقات کے ساتھ، ایک ایسا خطہ ہے جس میں” کلرڈ ریوولوشن “(یہ اصطلاح 2004 ءکے بعد سے دنیا بھر کے میڈیا کے ذریعے مختلف حکومت مخالف احتجاجی تحریکوں اور حکومت کی تبدیلیوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی) اور سماجی اور سیاسی بدامنی کا زیادہ خطرہ موجود ہے۔

Advertisement

گزشتہ چند سالوں میں چین اس خطے میں اُمید افزا تبدیلیاں لے کر آیا اور  شنگھائی تعاون تنظیم نے ایک حد تک تضادات اور اختلافات کو تقسیم اور تصادم میں بدلنے کی کوشش کو ناکام بنایا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک کے تحت، تمام ممالک نے “تصادم کے بجائے مذاکرات اور اتحاد کے بجائے شراکت داری کی تعمیر” کے نئے راستے پر گامزن ہونے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔ ممالک نے  ایک دوسرے کے بنیادی مفادات اور اہم خدشات سے متعلق مسائل پر ایک دوسرے کی مضبوطی سے حمایت کی ہے، مثبت اثرات کو شامل کیا ہے جبکہ یوریشیائی براعظم میں امن اور ترقی کو برقرار رکھنے میں جاندار قوت پیدا کی ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امن اور ترقی اب بھی زمانے کے موضوعات ہیں، لیکن اسے شدید چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ دنیا نہ توپُرامن ہے اور نہ ہی پر سکون ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ چینی رہنما جہاں بھی جائیں، وہ ایک ایسی کمیونٹی پر زوردیتے  ہیں جس میں عام انسان کے مشترکہ مستقبل، گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو(عالمی ترقیاتی اقدام) اور گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو (عالمی سیکیورٹی اقدام)اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو شامل ہوں۔ چین ترقی اور تعاون پر توجہ مرکوزرکھتا ہے، اور مشترکہ اقدار، مفادات، ترقی اور سلامتی کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ تبدیلی اور خرابی کی دنیا میں تہذیب کی ایک نئی سمت، تصور اور شکل کی نمائندگی کرنے کی ایک بہترین  کوشش ہے۔

چین  نہ صرف  اس حوالے سے بات کر رہا ہے بلکہ  وہ اس سلسلے میں کارروائی بھی کر رہا ہے، اور بلاشبہ چین  کثیرالجہتی کی شدید مشکل  مشق کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ امن اور ترقی کے لیے چین جیسے ذمہ دار بڑے ملک کی ثابت قدمی کے بغیر دنیا کیسی ہو گی؟

دنیا جتنی زیادہ ہنگامہ خیز ہے، اسے لوگوں کے دلوں کو مستحکم کرنے کے لیے اتنی ہی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک صدی میں نظر نہ آنے والی بڑی تبدیلیوں کے درمیان جس میں “گرے گینڈے” (زیادہ  موثر    لیکن  اکثر نظرانداز کیا جانے والا  خطرہ )  اور “کالے ہنس” (انتہائی نایاب واقعہ  جس کے سنگین نتائج  سامنے آسکتے ہیں)

 ایک نہ ختم ہونے والی ندی میں  بار باراُبھر  رہے ہیں ۔  چین خود ایک قسم کے استحکام کی نمائندگی کرتا ہے۔ ریاستی سفارتکاری کے سربراہ کی رہنمائی میں یہ مسلسل طوفانوں سے مقابلہ کررہا ہے ۔ صدر شی جن پنگ  کا وسطی ایشیا کا دورہ عالمی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بحرانوں اور تبدیلیوں کے درمیان خطے میں اعتماد اور امید لاتا ہے، اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ کمیونٹی کی تعمیر کو فروغ دینے کے لیے قوتوں کو جمع کرتا رہے گا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ کے چار روزہ دورے پر لندن پہنچ گئے
گزشتہ سال محروم رہ جانے والے عازمین حج کی رجسٹریشن کا آج آخری دن
ملکی معیشت کیلیے اچھی خبر، زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ
ریکوڈک معاہدوں میں بڑی پیش رفت، ای سی سی نے حتمی منظوری دے دی
امریکا اور برطانیہ کے درمیان تاریخی تجارتی معاہدہ، دوطرفہ تعلقات میں نئی جہت
اسرائیل کھیلے گا تو فیفا ورلڈ کپ ہم نہیں کھیلیں گے، اسپین کا بڑا اعلان
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر