ملکہ ایلزبتھ دوئم ونسٹن چرچل کے دوسرے دورسے لے کربورس جانسن تک برطانیہ کے 17 وزرائے اعظم کوبکنگھم پیلس میں اقتدارسنبھالنے کی رسمی کارروائی کی انجام دہی کے بعدوزیراعظم کے طورپرلزٹرس کوذمہ داریاں سونپ کربروز جمعرات انتقال کرگئی ہیں۔ قبل ازیں گزشتہ پیرکے روزلزٹرس اپنی پارٹی کے ارکان کے 81 ہزار326 ووٹ لے کراپنے حریف بھارتی نژاد رشی سونک کوشکست سے دوچارکرچکی ہیں۔ نومنتخب وزیراعظم لزٹرس تین سابق وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون، تھریسامے اوربورس جانسن کی کابینہ میں بطوروزیراپنی ذمہ داریاں انجام دے چکی ہیں۔ اپنے پیشروبورس جانسن کی کابینہ میں وہ برطانیہ کی وزیرخارجہ کے طورپرذمہ داریاں سنبھال رہی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لزٹرس ملکہ ایلزبتھ کی تاجپوشی کے 23 سال بعد 1975ء میں پیدا ہوئیں، جب ملکہ تخت نشین ہوئیں توکنزرویٹوپارٹی کے ونسٹن چرچل وزیراعظم تھے اورجب موجودہ وزیراعظم لزٹرس پیدا ہوئیں توبرطانیہ کے وزیراعظم لیبرپارٹی کے ہیرالڈ ولسن تھے۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ ملکہ کی تاجپوشی چرچل کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دورمیں ہوئی تھی اورلزٹرس ہیرالڈ ولسن کی وزرات عظمیٰ کے دوسرے دورمیں پیدا ہوئیں، اوران کی پیدائش سے دو سال قبل ملکہ ایلزبتھ کی اکلوتی صاحبزادی شہزادی این کی شادی ہوچکی تھی۔
لزٹرس نے اپنے انتخاب سے قبل کچھ وعدے کیے تھے اورایسے ہی بعض وعدے ان کی پارٹی میں ان کے حریف بھارتی نژاد رشی سونک نے بھی کیے تھے۔ لزٹرس نے ووٹرز یہ وعدہ کیا کہ وہ نیشنل انشورنس میں کیے جانے والے حالیہ اضافے کو واپس لے لیں گی۔ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کریں گی اورکارپوریشن ٹیکس کے منصوبے کوبھی ختم کردیں گی، اس ضمن میں منصوبہ یہ بنایا گیا تھا کہ کارپوریشن ٹیکس کو2023ء میں 19 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد تک کردیا جائے گا، گویا برطانوی شہریوں سے کارپوریشن ٹیکس میں اضافہ نہ کرنے کا وعدہ بھی کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ٹیکسوں میں کچھ ایسی تبدیلیاں لائیں گی جن کے نتیجے میں لوگوں کو یہ آسانی حاصل ہوکہ وہ اپنے بچوں اوربزرگوں کی نگہداشت کیلئے اپنے گھروں میں ہی رہ سکیں۔ لزٹرس نےایسا ماحول پیدا کرنے کا وعدہ بھی کیا کہ جس کے نتیجے میں نئی ایجادات اورنئے کاروبارکے مواقع میسرآئیں۔
نومنتخب وزیراعظم سے شکست کھانے والے سابق وزیرخزانہ رشی سونک نے بھی برطانوی عوام کواوراپنی پارٹی کے ووٹرزکوسہانے خواب دکھائے تھے۔ انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ ان کے برسراقتدار آنے کی صورت میں اگران کی حکومت نے افراط زرپر قابو پالیا تو ٹیکس کی شرح میں کمی لائی جائے گی۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ یکم اپریل 2024ء سے انکم ٹیکس پرایک فیصد کمی کردی جائے گی اورنئی پارلیمنٹ کے وجود میں آنے پرانکم ٹیکس میں مزید تین فیصد کمی کردی جائے گی۔ ان کا ایک اور اہم وعدہ یہ تھا کہ سرکاری شعبوں میں تنخواہوں کا تعین، اجرتوں، معاوضوں اور تنخواہوں پرنظرثانی کا کام آزاد ادارے کریں گے۔ انہوں نے کارپوریشن ٹیکس کواپریل 2023ء میں 19 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد تک لے جانے کا کہا تھا جبکہ لزٹرس نے اس ٹیکس کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ رشی سونک نے برطانیہ کے دفاعی بجٹ کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اخراجات کی موجودہ کم سے کم سطح جی ڈی پی کے 2 فیصد کو نچلی سطح پرشمارکرنا چاہئے، اسے بالائی سطح پرشمارنہیں کرنا چاہئے۔
لزٹرس کی کامیابی کویقینی سمجھا جارہا تھا لیکن رشی سونک نے بھی بہت زیادہ ووٹ لیے۔ نومنتخب وزیراعظم کے انتخاب کویکطرفہ نہیں کہا جاسکتا۔ رشی سونک نے لزٹرس سے خوب مقابلہ کیا اورانہوں نے 60 ہزار366 ووٹ حاصل کیے۔ برطانیہ میں وزیراعظم کی ناکامی یا ایوان میں اپنی پارٹی کی حمایت کھونے کی صورت میں نئے پارٹی سربراہ اورنئے وزیراعظم کا انتخاب وزیراعظم کی پارٹی کے تمام عام ارکان کرتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے نئے امیدوارکیلئے دارالعوام کا ممبرہونا ضروری ہے ، مگراس کے ووٹرزپارٹی کے تمام ارکان ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ کنزرویٹوپارٹی کے تمام ارکان اورکارکنان نے نئے امیدوار کے حق میں ووٹ دیا۔ یوں اصل طاقت افراد کے پاس نہیں بلکہ پارٹی کے پاس ہوتی ہے۔
لزٹرس کے انتخاب کے بعد برطانیہ کے عوام یہ دیکھیں گے کہ نئی حکومت ملکی مسائل کے حل کیلئے کون سی سمت اختیارکرتی ہے۔ رواں سال میں یورپ میں تاریخ کی بدترین خشک سالی دیکھنے میں آئی۔ یورپ میں اس سال درجہ حرارت بڑھنے کے ماضی کے سارے ریکارڈ توٹ گئے۔ یوکرین تنازع کے بعد یورپ توانائی کے سنگین بحران میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یورپ میں معاشی بدحالی کے مسائل سراٹھا رہے ہیں۔ ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح سے یورپ میں طرززندگی میں انحطاط کے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔ دیگربراعظموں کی طرح یورپ میں گزشتہ دو برسوں میں کووڈ 2019ء نے بھی طرززندگی کو بدل کررکھ دیا۔ برطانیہ اگرچہ یورپی یونین سے الگ ہوچکا ہے مگراس کے مسائل اورحالات یورپ کے مجموعی مسائل اورحالات سے الگ تھلگ نہیں ہیں۔ یوکرین جنگ کے باعث دیگریورپی ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی توانائی کا بحران پیدا ہوا ہے اور یہ بحران براہ راست شہریوں کی زندگیوں پراثرانداز ہوا۔ بجلی اورگیس کے بلوں نے برطانوی شہریوں کیلئے سنگین مسائل کھڑے کردیے ہیں۔
لزٹرس تادم تحریریہ واضح نہیں کرسکیں کہ وہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اوربجلی اورگیس کے بلوں میں ہوشربا اضافے سے کس طرح نبردآزما ہوں گی۔ مزید برآں برطانیہ میں افراط زربھی آسمان کی بلندیوں کوچھورہا ہے۔ برطانیہ میں محنت کشوں اور مزدوروں پربھی قیمتوں کے جواثرات مرتب ہورہے ہیں، اس سے ٹریڈ یونینوں کے تصادم کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اوراس ساری صورتحال کا ہیلتھ کیئرسسٹم پربھی دباؤ بڑھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برطانیہ کے ان فوری مسائل کے بارے میں وزیراعظم لز ٹرس کیا پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں اوران پالیسیوں پر کس طرح عملدرآمد ہوسکے گا۔
مسائل کے اس تناظرمیں ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ یوکرین تنازع، ماحولیاتی مسائل، افراط زر، مہنگائی اور بیروزگاری کے خطرات نے برطانیہ کے صنعتی اور تجارتی مراکزمیں بے چینی کی لہریں دوڑا دی ہیں۔ بندرگاہوں، ریلوے اورصنعتی مراکز میں محنت کشوں کی ہڑتالوں کے باعث اس دورکی یادیں تازہ ہورہی ہیں جب انیسویں اور بیسویں صدی میں مزدور تحریکیں عروج پرتھیں اوریورپ پرکمیونزم کا بھوت منڈلا رہا تھا۔ اب ایک کساد بازاری کے حالات سر اٹھا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پرانی تحریکیں اورپرانے نظریات نئی حقیقتوں کی معروضیت سے ہم آہنگ ہوکرنئے سرے سے سراٹھائیں گے۔
برطانیہ کے گھریلوصارفین کے بجلی کے بلوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم لزٹرس کا کہنا ہے کہ وہ موسم سرما میں گیس اوربجلی کی راشننگ کا نظام نہیں لائیں گی، وہ اس کے برعکس توانائی کی سپلائی کوبڑھانے پراپنی توجہ مرکوزرکھیں گی۔ دوسری طرف برطانوی حکومتی ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ اگربجلی اورگیس کی راشننگ نہیں کی جاتی تو 2023ء میں کئی روزکے بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ظاہرہے کہ اگرگیس کی فراہمی میں تعطل رہتا ہے تو بجلی کی پیداوارمیں بھی یقینا کمی رہے گی۔
اس طرح نومنتخب وزیراعظم نے نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے تصورکومسترد کردیا ہے۔ تاہم انہوں نے تیل اورگیس کی کمپنیوں پرٹیکسوں کے نفاذ کا عندیہ دیا ہے۔ کیونکہ اس سال ان کمپنیوں نے بے حساب منافع کمایا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم لزٹرس نے جن ٹیکسوں کی کٹوتی کا عندیہ دیا ہے ان کی مالیت 38 ارب پونڈ بنتی ہے، معاشی مارہین کہتے ہیں کہ ان کٹوتیوں کی مالیت 50 ارب پونڈ تک جا پہنچے گی۔
معاشی ماہرین یہ اندازہ لگارہے ہیں کہ اگروزیراعظم لزٹرس ٹیکسوں کے نفاذ کومسترد کرتی ہیں توپھریقینا ان کے پاس دو راستے باقی رہ جائیں گے، اول یہ کہ وہ قرضے حاصل کریں یا پھردوسری صورت میں وہ اخراجات میں کمی لائیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ لزٹرس کے اقدامات سے افراط زرمیں اضافہ ہوگا اوربینک آف انگلینڈ کو شرح سود میں بہت زیادہ اضافہ کرنا ہوگا۔
دوسری طرف برطانوی لیبرپارٹی نے مؤقف اختیارکیا ہے کہ ہم اس عمل کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہیں کہ توانائی کی بڑی کمپنیاں جس طرح خواہش کریں توان کی خواہشات کی تکمیل کیلئے محنت کش عوام پرقیمتوں اورٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جائے۔ لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ برطانوی عوام قومی معاشی ہنگامی حالات سے گزر رہے ہیں جبکہ حکمران کنزرویٹوپارٹی تیل اورگیس کمپنیوں کے منافع کا بوجھ عام شہریوں پرلاد رہی ہے۔ لیبر پارٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم اپنے برسراقتدارآنے پرتوانائی کی قیمتوں میں اضافہ فوری طورپرروک دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی تیل اورگیس کے بڑھتے ہوئے بے حساب منافع پر ٹیکس لگائے گی۔ لیبرپارٹی افراط زرکو4 فیصد تک نیچے لانے کا وعدہ کررہی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ ہم گھریلو صارفین اورکاروبارپربوجھ نہیں ڈالیں گے۔ لیبرپارٹی کا دعویٰ ہے کہ صرف یہی جماعت ہی لوگوں کو بلوں میں اضافے کی مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے۔
تیل اورگیس کے بحران سے نمٹنے کیلئے لزٹرس کے پاس ایک اور منصوبہ یہ ہے کہ شمالی سمندرمیں تیل کی تلاش کیلئے ڈرلنگ کی جائے۔ ان کے پالیسی مشیروں کا خٰیال ہے کہ وہ اس تجویز پرغور کررہی ہیں کہ وہ تیل کی تلاش کیلئے 130 نئے ڈرلنگ لائسنس جاری کریں۔ اگریہ لائسنس جاری ہوبھی گئے توان کے فوری نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق مجوزہ علاقوں میں تیل اور گیس کے نئے ذخائرتلاش کرنے میں بیس سے تیس سال لگ جائیں گے۔ دوسری طرف ماحولیات کیلئے مہم چلانے والوں کا یہ اعتراض ہے کہ تیل اورگیس کے نئے ذخائر کی تلاش موسمیاتی بحران کواورزیادہ شدید کردے گی۔
لزٹرس برطانیہ کے نئے عہدے کے نئے چیلنجوں کے مقابلے کیلئے نئے عزم کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے پیشروسابق وزیراعظم بورس جانسن سیاست میں اب کون سا نیا کردار ادا کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کے پاس دوہی کردارہوں گے کہ وہ آگے بڑھ کرنئی وزیراعظم کی حمایت کرکے ان کی مشکلات میں کمی کریں یا پھروہ دارالعوام کی پچھلی بنچوں پربیٹھ کر لزٹرس کی حکومت کو ناکام بنانے کیلئے نئی نوعیت کی سازش کریں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
