
بنگلہ دیشی ماہی گیر محمد حنیف اپنی6 دہائیوں کی زندگی میں 3 بار بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ وقفے وقفے سے آنے والا سیلاب دریا کے کناروں اور آس پاس کے علاقوں کو بہا لے جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ہر سال لاکھوں لوگ آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے کٹاؤ، سمندری طوفانوں اور ندیوں کے بہاؤ میں نمکیات کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ حنیف نے اپنا پہلا گھر اس وقت کھو دیا تھا جب وہ صرف 10 ماہ کا تھا۔ اس کے والدین نے بنگلہ دیش کے جنوب مغربی ضلع بھولا میں دریائے میگھنا کے کنارے سے 10 کلومیٹر دور ایک نیا گھر بنایا۔،لیکن وہ بھی کئی دہائیوں بعد صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ بڑے ہونے کے ساتھ ، 62 سالہ محمد حنیف نے ماہی گیری کو اپنا پیشہ بنا لیا ۔ ماہی گیروں کو دریا کے قریب رہنا پڑتا ہے۔ حنیف نے دریا کے کنارے ایک نیا گھر بنایا، بالآخر اسے تین بار کھونا پڑا۔ پہلی بار اس وقت جب 2007ء میں ایک تباہ کن طوفان نے ان کا سب کچھ تباہ و برباد کردیا۔
حنیف اپنے تین بھائیوں سمیت 11 دیگر لوگوں کے ساتھ خلیج بنگال کے قریب دریائے میگھنا کے کنارے مقیم تھا، جب انہیں معلوم ہوا کہ سمندری طوفان سیڈر بنگلہ دیش کے ساحل سے ٹکرانے والا ہے۔ وہ ماہی گیری کے جال کو چھوڑ کر کسی جزیرے پر پناہ لے سکتا تھا لیکن ایسا کرنا خود کومالی مشکلات میں ڈالنے سے ہرگز کم نہیں تھا۔ حنیف نے جال سمیت اپنا سب کچھ کشتی میں لگا دیا تھا۔ اس نےدیگر ماہی گیروں کے ساتھ پناہ کے لیے بھاگنے سے پہلے بڑی لہروں کو برداشت کرتے ہوئے صبر و تحمل سے جال واپس نکال لیا۔ حنیف نے بتایا کہ نقصان اس لیے ہوا کہ جال ناقابل استعمال ہوچکا تھا اور ان سالوں میں مچھلی کی بھی قلت پیدا ہو گئی تھی ۔ مجھے خود پر چڑھا ہوا قرض اتارنا تھا ۔ کلیان پور کی کچی آبادی میں مقیم حنیف نے بتایا کہ اسے طوفان کے ڈیڑھ سال بعد، قرض داروں سے دور بھاگ کر ڈھاکہ جانا پڑا۔
شہری ترقی کا پروگرام چلانے والی بنگلہ دیش بحالی امدادی کمیٹی(بی آر اےسی) کے مطابق 17 ایکڑ رقبے پر پھیلی کچی آبادی میں 2 ہزار 688 خاندانوں کے 9 ہزار 555 افراد رہائش پذیر تھے ۔
پروگرام کوآرڈینیٹر توہین عالم نے بتایا ہےکہ ان کے سروے کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی آفات کی وجہ سے کچی آبادیوں میں سے 21 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے ۔ کچی بستی کے زیادہ تر مکین، جو آتشزدگی اور بے دخلی کی کوششوں کے متعدد واقعات میں بچ گئے،وہ بنگلہ دیش کے دریائی جنوب مغربی اضلاع سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں۔
عائشہ بی بی تقریباً 30 سال قبل اپنی 7 چھوٹی بہنوں کے ساتھ پورے گاؤں کےمٹنے کے بعد یہاں پہنچی تھیں ، عائشہ بی بی اب پلاسٹک کا فضلہ اکٹھا کرنے کا کام کرتی ہے، جو کچی آبادیوں کے رہنے والوں کا اب عام پیشہ بن چکا ہے۔ عائشہ نے بتایا کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس آفت کے آنے کے بعد ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ کیا ہوا؟
مارچ 2018ء میں جاری ہونے والی عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلیوں سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 2050ء تک 13 اعشاریہ 3 ملین تک پہنچ سکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ ملک اسے داخلی طور پر نقل مکانی کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آجائے گا ۔ دریا کے کٹاؤ کو موجودہ بنگلہ دیش میں مستقل نقل مکانی کی سب سے اہم وجہ قرار دیا جارہا ہے ۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News