روس یوکرین جنگ سے پہلے چین اور روس سیاست، سفارت اور تجارت کے شعبہ میں ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے تھے مگر اس جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں حیرت انگیز قربتیں بڑھی ہیں۔
گزشتہ برس 2021ء میں روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار چین ہی تھامگر چین کے تجارتی شراکت داروں میں روس 15 ویں نمبر پر تھا اس ایک سال کی کایا پلٹ میں چین اور روس کی تجارتی شراکت داری دُگنی سے بھی آگے چل گئی اور روس چین کے تجارتی شراکت داروں میں 15 ویں نمبر سے چوتھے نمبر پر آگیا۔ایک سال پہلے دونوں ملکوں کی دو طرفہ تجارت کا حجم 68 ارب ڈالر تھااور ایک سال میں دوطرفہ تجارت کا حجم بڑھ کر ایک کھرب 47 ارب 90کروڑ ڈالر تک چلا گیا۔اس طرح تجارتی توازن بھی روس کے حق میں چلا گیا۔چین روسی تیل، گیس، کوئلہ اور زرعی پیداوار کی سب سے بڑی منڈی بن گیا۔اس طرح چین کے ساتھ روسی تجارت سر پلس میں چلی گئی۔
روس چین تجارت میں اضافہ 2014ء میں شروع ہوا تھا۔ یہ اضافہ روس کی طرف سے کریمیا کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد شروع ہوا۔ یوکرین کریمیا پر اپنا حق جماتا تھا اور اسے اپنا حصہ سمجھتا تھااور یورپ یوکرین کے اس دعوے میں اس کا ہمنوا تھا۔ جب کہ جزیزہ نما کریمیا ایک خود مختار خطہ تھا اور یوکرین اسے اپنا حصہ سمجھ کر وہاں پر اپنی اتھارٹی قائم کرنا چاہتا تھا۔روس اس صورتحال کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا اس لیے روس نے کریمیا کو اپنی ریاستی حدود میں ضم کرلیا۔ روس کا موقف تھا کہ کریمیا اس کا نیا حصہ ہے مگر وہاں پر روسی حمایت یافتہ خود مختار حکومت بھی قائم کردی گئی اور اس کے ساتھ ہی امریکہ اور یورپ نے روس پر مختلف قسم کی پابندیاں لگا دیں۔
کریمیا کے واقعہ نے چین اور روس کو ایک دوسرے کے قریب کردیا اور 2014ء کے بعد چین کے ساتھ روس کی سب سے بڑی تجارتی شراکت داری قائم ہوئی جو اس سال روس یوکرین جنگ کے بعد بہت تیزی سے ترقی کرنے لگی۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دورہ بیجنگ کے دوران یہ طے پایا کہ دو طرفہ تجارت کا حجم ایک کھرب 47 ارب 90کروڑ ڈالر سے بڑھا کر ڈھائی کھرب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔اس وقت چین سب سے زیادہ تیل سعودی عرب سے حاصل کر رہا ہے اور دوسرے نمبر پر وہ سب سے زیادہ تیل روس سے ہی درآمد کررہا ہے۔ چین نے لگ بھگ دو عشرے پہلے یہ طے کیا تھا کہ وہ اپنے مشرقی، شمال مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں میں تیز رفتار ترقی کو برقرار رکھتے ہوئے وہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مغربی، شمال مغربی اور جنوب مغربی علاقوں میں منتقل کردےگا اور ان علاقوں میں جادوئی ترقی کے ذریعے جدید ترین انداز میں انفراسٹرکچر قائم کر کے پوری مغربی دنیا کو چندھیا دےگا۔اب چین کے مغرب، جنوب مغرب، شمال مغرب اور شمالی علاقوں میں برق رفتاری ترقی ہورہی ہے۔ چین روس سے 15 لاکھ 90ہزار بیرل تیل روزانہ کی بنیاد پر حاصل کررہا ہے۔ چین کو زیادہ تر روسی تیل مشرقی سائبیریا سے ملحق بحرالکاہل میں بچھائی گئی پائپ لائن سے حاصل ہورہا ہے اور یہ پائپ لائن چین کی طرف سے دیئے گئے 50 ارب ڈالرکے قرضوں سے بچھائی گئی ہے۔
چین روس بڑھتے ہوئے تعلقات کے اثرات سب سے پہلے یورپ پر ہی مرتب ہورہے ہیں۔اب روسی مارکیٹ میں یورپی مال سے زیادہ چینی مال کی کھپت بڑھ رہی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ روس اور چین کا اقتصادی تعاون یورپی برآمدات پر منفی اثرات مرتب کرر ہا ہے۔اب یورپی برآمدکنندگان کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ اگر روس اور چین نے ایک دوسرے کے تجارتی مال پر محصولات کا خاتمہ کردیا تو پھر یورپی برآمدات کا کیا حشر ہوگا۔ ہم نے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ امریکہ چین تجارتی جنگ میں امریکہ کی طرف سے محاصل کی شرح بڑھنے سے چینی تجارتی مال کی امریکہ میں آمد میں کمی ضرور واقع ہوئی مگر اب بھی کئی شعبوں میں امریکی تجارتی شعبہ چینی مصنوعات اور پیداوار کا محتاج ہے۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ اگر چین اور روس کے تجارتی روابط اسی طرح مزید فروغ پاتے ہیں تو الیکٹرانک مشینری، سازو سامان، مشینری اور ایٹمی ری ایکٹر کے شعبوں میں یورپی تجارت کو شدید دھچکا لگےگا۔
روس اور چین کے تجارتی روابط کو فروغ آج سے 33 سال قبل اس وقت حاصل ہوا تھا جب چینی کمیونسٹ پارٹی نے کمیونسٹ نظریہ میں چینی خصوصیات کا انضمام کیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ چین اپنی پیداواری قوتوں کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرکے کمیونزم کی ترقی کی نئی منزلیں طے کرےگا جب کہ دوسری جانب روسی کمیونسٹ پارٹی گورباچوف کی سربراہی میں ریاستی اور نظریاتی پسپائی اختیار کرچکی تھی اور تیزی سے نظریاتی اور ریاستی انہدام کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ چین میں ڈینگ ژپاؤ پنگ ترقی کی نئی راہیں تلاش کررہے تھے جب کہ روس ( سابق سویت یونین) میں میخائل گورباچوف زوال اور انہدام کے نئے راستے ڈھونڈ رہے تھے۔ سوویت یونین میں گلا سنوٹ اور پریسترئیکا کی نئی موسیقی پر نئے ترانے لکھےجارہے تھے جب کہ چین اپنے ریاستی، تنظیمی اور نظریاتی شعبوں میں چینی خصوصیات کا تڑکہ لگا کر نئی جہتوں اورنئی منزلوں کی کھوج لگارہا تھا۔
یورپی اور مغربی ممالک چین میں کمیونسٹ پارٹی کی تنظیمی آمریت اور روس میں ولادیمیر پیوتن کی شخصی آمریت کا ڈھول پیٹ کر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کے عوام کو انسانی حقوق کی نگہبانی کی خواب آور گولیاں دے کر ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے اربوں انسانوں سے زندگی کی حقیقی مسرتوں کے سب خواب چھین لیتے ہیں۔
چین اور روس کی قومی زندگیوں کے دوسرے مراحل میں ان دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کے قریب آنا مغرب اور یورپ کے لیے معمول کی بات تھی مگر یہ معمول کی بات ثابت نہیں ہوئی۔ چین اور روس کا مجموعی دوطرفہ تجارتی حجم کئی گنا بڑھ گیا۔دونوں ممالک نے امریکہ اور یورپ میں منڈیاں تلاش کرنے کے عمل میں دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ 2014ء میں، میں اپنے ایک سادہ لوح پاکستانی دوست کے ساتھ پیرس کےبازار میں چہل قدمی کررہا تھا۔اس نے کمال سادگی سے بتایا کہ چند سال پہلے اس بازار کا سارا کاروبار یہودیوں کے قبضے میں تھا۔اس بازار میں سالانہ اربوں کھربوں یورو کا کاروبار ہوتا ہے۔ مگر گزشتہ سال سے اس بازار پر چینوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ آپ یورپ میں سفر کر رہے ہوں۔ آپ اچانک نظر اٹھائیں تو آپ کی نظر جہاں دوسرے لوگوں پر پڑے گی وہاں کوئی نہ کوئی چینی بھی ضرور نظر آئے گا۔ بلکہ کہیں کہیں تو چینی کافی بڑی تعداد میں نظر آئیں گے۔ آپ ایفل ٹاور جائیں۔ آپ قدیم روم کے کلوزیم کے قریب جائیں، آپ پیسا ٹاور دیکھیں یا ٓآپ برطانیہ کے وارک کیسل جائیں یا ایڈنبرا کیسل کی سیر کریں، یہاں پر آپ کو اُن مقامات کے سووینیئر چینی ساخت کے ملیں گے۔ اسی طرح یورپ میں توانائی کے شعبوں میں روسی کمپنیوں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ جن دنوں یوکرین جنگ کے بادل منڈلارہے تھے انہی دنوں برطانیہ نے اپنے سرکاری اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ روسی توانائی کمپنیوں کے ساتھ اپنے معاہدوں پر نظر ثانی کریں برطانوی حکومت کو اچانک یہ خیال آیا کہ برطانیہ جنگ کے آغاز میں روس پر پابندیاں لگا کر اُسے چاروں خانے چت کرنا چاہتا تھا۔ مگر توانائی کے بغیر تو برطانیہ کا گزارا بھی نہیں ہوسکتا۔ لہذا پابندیوں کا عمل موخر کرنا پڑا۔
چین اور روس کی تجارت کا ایک بڑا شعبہ گولہ بارود اور اسلحہ کی خرید و فروخت کا ہے مگر کئی ممالک بشمول روس اور چین اسلحہ کی تجارت کے اعداد و شمار کبھی منظر عام پر نہیں لاتےہیں اسی طرح جب ان ممالک کی تجارت کے اعداد و شمار عوام کی معلومات کے لیے ظاہر کیے جاتے ہیں تو اسلحہ کے کاروبار کے اعداد و شمار سامنے نہیں لائے جاتے۔ اس لیے معاشی تجزیہ نگاروں کو کبھی یہ علم نہیں ہوپاتا کہ امریکہ ، یورپی ممالک ، ترقی یافتہ ممالک روس اور چین یا دیگر ترقی پذیر ممالک اسلحہ اور گولہ بارود کے کاروبار میں کتنا منافع کماتے ہیں یا کتنا نقصان اٹھاتے ہیں یا اس کاروبار میں کک بیکس کیسے لیے جاتے ہیں۔ جب 1990ء کے عشرے کے آغاز میں سوویت یونین کا انہدام ہوا اور کمیونزم کے خلاف لڑی جانے والی طویل سرد جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تو روسی اسلحہ سازی کی صنعت نے روس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دی اور چین روسی اسلحہ کا ایک اہم خریدار بن گیا یوں 1990ء سے لے کر 2001ء تک روس کی طرف سے چین کے لیے برآمدات کا 17 فیصد حصہ اسلحہ اور گولہ بارود تھا، اور یوں بھی اگر یورپی یونین روس کے لیے تجارت کے دروازے بند کردیتا ہے تب بھی روس اور چین کی تجارت روس کے لیے کاروباری خلا پیدا نہیں ہونے دے گی۔
دونوں ممالک کے لیے ایک مخصوص صورت حال مشرق بعید میں چین کی طرف سے روس کی جانب چینی لیبر کی نقل مکانی تھی۔ مگر اب ایسی صورت حال نہیں رہی۔ مشرق بعید میں چینی ورک فورس کے لیے روس میں اتنے مواقع نہیں ہیں جتنے زیادہ مواقع خود ان کے اپنے ملک چین میں ہیں۔ یوکرین جنگ سے پہلے ہی روس اور چین کی دو طرفہ تجارت کو اولیت مل چکی تھی مگر جنگ سے پہلے 2021ء کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ روس کے تجارتی شراکت داروں میں دوسرا نمبر ہالینڈ کا تھا۔ روس اور ہالینڈ کا گزشتہ سال کی دو طرفہ تجارت کا حجم 42 ارب 20 کروڑ ڈالر تھا۔
یوکرین جنگ سے پہلے روس کا تیسرابڑا تجارتی شراکت دار جرمنی تھا۔ جرمنی اور روس کی دو طرفہ تجارت کا حجم 29 ارب 60 کروڑ ڈالر تھا۔ روس کا چوتھابڑا شراکت دار ترکی ہے اور ان دونوں ممالک کی تجارت کا حجم 26 ارب 50 کروڑ ڈالر ہے۔ نئے حالات میں روس اور ترکی کے مابین قربتیں بڑھی ہیں۔ پچھلے دنوں روسی صدر پیوتن اور ترک صدر رجب طیب اردوان کی حالیہ ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے قریبی مراسم میں مزید گرمجوشی پیدا ہوئی ہے۔ دونوں لیڈروں کے تازہ ترین چار گھنٹے طویل بند کمرے میں ہونے والی ملاقات کے بعد ایک معاہدہ عمل میں آیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک معیشت اور توانائی کے شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید فروغ دیں گے۔
روس اور ترکی کے فروغ پذیر تعاون پر مغرب کے حکمرانوں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے تو ترکی کو کھلم کھلا پابندیوں اور سنگین نتائج کی دھمکی دے ڈالی۔ مغرب کے لیے روس اور ترکی کے تعلقات میں گرمجوشی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ اردوان کے لیے ایک مسئلہ ترک معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے نئے مواقع پیدا کرنا اور قومی معیشت کو فروغ دینا ہے جب کہ پیوتن یورپی پابندیوں کی صورت میں اپنے ملک کے لیے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں۔
روس اور چین کا معاملہ بالکل دوسرا ہے، روس ماضی کی ایک سپر پاور رہاہے جب کہ چین تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی سپر پاور کا درجہ حاصل کرنے جارہا ہے۔ بلاشبہ چین دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بن چکا ہے گویا دونوں ممالک مل کر دنیا کو یک ستونی نیو ورلڈ آرڈر کے گرداب سے نکالنے میں بڑی حد تک کام یاب ہوچکے ہیں چین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دنیا یک ستونی نہیں رہی اور اب ساری دنیا کو واشنگٹن کے فرمان سے ہانکا نہیں جاسکتا۔ اب دونوں ممالک کے لیے اصل چیلنج یہی ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن کیسے پیدا کیا جائے۔ واشنگٹن امریکی ڈالر کے ذریعے عالمی بینک کاری کے نظام پر براہ راست بالا دستی رکھتا ہے اور وہ ڈالر کو تجارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور روس امریکی معاشی بالادستی پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن یک ستونی سپر پاور ہونے کا زعم رکھنے والے امریکہ کی بالادستی کے لیے یہی دھچکا ہی بہت ہے کہ عالمی سطح پر دنیا کے 146 ممالک نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام پر دستخط کیے ہیں۔ جب چین دنیا میں 146 ممالک میں مواصلاتی نیٹ ورک قائم کرچکا ہوگا تو وہ درحقیقت معاشی سپر پاور بن چکا ہوگا روس بطور سابق سپر پاور اس کے ساتھ کھڑا ہوگا اور دنیا کے مفادات میں ایک بڑی یکجہتی پیدا ہوچکی ہوگی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
