دریاؤں کی سرزمین تیزی سے سمندر بن رہی ہے، اور کوئی اسے بچانے کے لیے نہیں آ رہا ہے۔
جب میں اس ملک کو یاد کرتی ہوں جس میں، میں پیدا ہوئی تھی، تو وہاں گزارے ہوئے مختصر وقت کی یادیں ذہن میں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ مجھے چاولوں کے سرسبز کھیت، تالاب میں مینڈک اور کنول کے تیرتے ہوئے پتے اور پھلوں سے لدے درخت یاد آتے ہیں۔مجھ سمیت بنگلہ دیش 168 ملین افراد کا گھر ہے ،اس کے باوجوداس قوم نے حال ہی میں 50 سال پہلے عظیم قربانیوں اور سخت جدوجہد کے بعد جنم لیا تھا۔
اب بنگلہ دیش کو ایک بار پھر بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک کی اکثریت گنگا، جمنا اور میگھنا ندیوں کے سنگم پردنیا کے سب سے بڑے دریا ڈیلٹا (زمینی شکل جس کی شکل مثلث کی طرح ہوتی ہے) کے قریب آباد ہے۔یہ دریا بنگلہ دیش کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ وہ آبی گزرگاہیں ہیں جو زرعی مٹی پیدا کرتی ہیں جو قوم کو”دریاؤں کی سرزمین” کا نام دیتی ہے۔میرےذہن کے کونے میں بسی یادیں اب ختم ہوگئی ہیں ، جہاں کبھی چاول کے دھان ہوتے تھے، وہاں اب صرف پانی ہے۔جہاں کبھی زندگی سے بھرے تالاب تھے، اب وہ دھارے میں بہہ چکے ہیں،اور جہاں کبھی خوبصورت زرعی فصلیں ہوا کرتی تھی وہاں اب صرف کٹاؤ اور تباہی ہے۔
دریاؤں کی سرزمین تیزی سے سمندر بن رہی ہے، اور کوئی اسے بچانے کے لیے نہیں آ رہا ہے۔بنگلہ دیش کا دو تہائی حصہ سطح سمندر سے 15 فٹ سے بھی کم بلندی پر مشتمل ہے۔خدشہ ہےکہ 2050ء تک بنگلہ دیش میں ہر7 میں سے ایک شخص موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر ہو جائے گا۔گذشتہ موسم گرما میں آنے والا تباہ کن سیلاب ، بنگلہ دیش میں 100سالوں میں آنے والا بدترین سیلاب ثابت ہوا ۔سلہٹ کے شمال مشرقی علاقے سے گزرتے ہوئے سیلانی ریلے نے بیشتر شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ سیلاب نے تقریباً 7 اعشاریہ 2 ملین افراد کو متاثر کیا۔ بنگلہ دیش میں مون سون کے سیزن میں موسلادھار بارشوں کا ہونا عام سی بات ہے ۔ اس کے باوجود دنیا کی گرم آب و ہوا بارشوں اور سیلابوں کو تیزی سے طویل اور تیز تر کر رہی ہے، مستقل طور پر ملک کامنظر نامہ تبدیل ہورہا ہے ۔
بنگلہ دیش کا تقریباً 75 فیصد حصہ سطح سمندر سے نیچے کی جانب ہے۔ پدما، جمنا اور میگھنا کے کٹاؤ نے ایک لاکھ 60 ہزار ہیکٹر اراضی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،جس کی وجہ سے ہر سال 3 سے 4 لاکھ افراد کو دارالحکومت ڈھاکہ کی طرف جانا پڑ رہا ہے ۔ بنگلہ دیش، بہت سے ساحلی ممالک کی طرح، موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے زمینی طور پر صفر ہے ۔ عالمی سطح پر پرمحض صفر اعشاریہ 21 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے کے باوجو د غیر منصفانہ طور پر دولت مند ممالک کے کاربن کے اخراج کا نقصان بنگلہ دیش اٹھا رہا ہے۔چین میں یہ شرح 29 اعشاریہ 2 فیصدہے، امریکا میں 14 فیصد جبکہ جاپان میں 3 اعشاریہ 5 فیصد بتائی گئی ہے۔ بنگلہ دیش ان قوموں کے لیے اپنی زمینوں اور ذریعہ معاش کی قیمت ادا کر رہا ہے جسے حد درجے کی ماحولیاتی ناانصافی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
دولت مند قوموں کے لیے، مستقبل میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے رونما ہونے سے اتنا فرق نہیں پڑے گا ، لیکن بنگلہ دیش اور پاکستان جیسی دیگر اقوام کے لیے، موسمیاتی تبدیلی نے پہلے ہی ان کے لوگوں کی جانیں لے لی ہیں، ان کے گھر تباہ کر دیئے ہیں، اور غربت کی زندگی کو ان کے مقدر میں لکھ دیا ہے ۔رواں سال غیر معمولی سیلابی صورتحال کے باعث بنگلہ دیش کے سنم گنج قصبے کا 94 فیصد جبکہ سلہٹ کا 84 فیصد حصہ ڈوب گیا۔یہ سیلاب اس قدر خوفناک تھا جو اس سے پہلے یہاں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہاں کے لوگ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدید حل کے ساتھ منفرد انداز میں تیار ہیں۔ تاہم، ہمیں انہیں اکیلے اس لڑائی کا سامنا کرنے کےلئے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔
ہارورڈ کالج کو وقف کی گئی اربوں ڈالر کی امدادی رقم کے ساتھ، بنگلہ دیش میں عوامی سطح پر خطاب کے ساتھ وہاں سرمایہ کاری کا آغاز کرنا چاہیے۔ ہارورڈ کالج میں پاکستانی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے کارکنان پاکستان کے لیےپہلے ہی فنڈز اکٹھا کرنے کے لئے میدان میں ہیں ۔ہارورڈ کو بنگلہ دیش کے سیلاب متاثرین کی مالی مدد کےلئے بھی آگے بڑھانا چاہیے۔
اکیڈمی سیاسی نہیں لیکن ہارورڈ کالج کا نقصان دہ پالیسی میں عمل دخل رہا ہے ۔
جیواشم ایندھن سے انحراف اہمیت کا حامل ہے ۔ مو سمیاتی تبدیلی کے ساتھ ہارورڈ کے خراب تعلقات کے واضح اختتام کو نہیں دیکھا گیا ، جب کہ بنگلہ دیش اور پاکستان جیسی قومیں اب بھی کئی دہائیوں سے حیاتیاتی ایندھن کے استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی کے اثرات کا سامنا کر رہی ہیں۔ ہارورڈ کے طلبہ بلاشبہ آب و ہوا کے بحران اور یوکرین جیسے انسانی بحرانوں سے باخبر ہیں ۔ تاہم، یہ ایک واضح تعصب ہے جس کا ساتھ ہمیں بہر حال دینا ہے۔
سفید فام افراد کو مرکز میں منتخب کرنا انسانیت کے مغربی تصورات کا عکاس ہے، اور مغرب کے جغرافیائی سیاسی مفادات کی خدمت کے حق میں سیاہ اور بھورے رنگ کی حامل قوموں کو نظر انداز کرنے کے مغربی رجحان کی ایک وسیع علامت ظاہر کرتا ہے ۔ میں ذاتی طور پر تسلیم کرتی ہوں کہ مجھے تیرنا نہیں آتا ۔ ٹروپیکل(خطہ خط استوا کے دونوں طرف ) ملک میں پیدا ہونے والے کسی کے لیے یہ ایک عجیب بات ہے۔میں گھر واپس پہنچی تو ، میری دادی نے اپنے تمام پوتے پوتیوں کو تالاب میں لے جانے پر اصرار کیا، جب تک کہ میرے علاوہ ہر بچہ زندگی جینے کے ڈھنگ کو سیکھ نہ لے ، اور مجھے اس سرزمین پر لے جایا گیا، جہاں میں نے تیراکی کا طریقہ جاننے کی ضرورت محسوس کیے بغیر آرام سے زندگی گزار دی ۔ میں اب بھی تیرنا نہیں جانتی، یہ یہاں ایک قابل معافی استحقاق ہے۔ ہارورڈ کے طلباء تفریح، ورزش، یا دوسرے اسکولوں کے طلبہ سے مقابلے کےلئے تیراکی کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ،گھروں کو مٹانے والی لہروں سے دور نہیں بھاگتا۔ تیراکی سیکھنا ، بنگلہ دیش کے لوگوں کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے، انہیں ہماری کم علمی کی وجہ سے تباہ ہونے والی زمینوں سے دور اپنی زندگی کے لیے تیرنا سیکھنا چاہیے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News