Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ریڈیو کے مؤجد کی کمپنی کے سامنے

Now Reading:

ریڈیو کے مؤجد کی کمپنی کے سامنے

میں لندن کے مضافاتی شہر چیمسفرڈ (Chelmsford) میں واقع مارکونی وائرلیس ٹیلی گراف کمپنی کے سامنے کھڑا ہوں۔ یہ کمپنی 1897ء میں قائم کی گئی تھی اور ابتدائی طور پر اس کا نام وائرلیس ٹیلی گراف سگنل کمپنی تھا۔ مارچ 1897ء میں برطانیہ نے اس کمپنی کو حقِ ایجاد کی سند دی اور اس کی رجسٹریشن کر دی۔ کمپنی نے اِسی سال 20 جولائی سے اپنا کام شروع کر دیا۔ یہ کمپنی لندن کے شمال مشرق میں واقع اس شہر کی ہال اسٹریٹ میں عین اُسی عمارت میں قائم ہوئی جہاں میں اِس وقت موجود ہوں۔ اگلے سال اِسی عمارت میں صوتی لہروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچایا گیا اور یہاں پر ہی ریڈیو کی ایجاد ہوئی۔ یہاں جن اشیاء کی ایجاد سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا آغاز ممکن ہوا، اُن میں تھرمیونک ٹیوب (Thermionic Tube) بھی شامل ہے جسے تھرمیونک والو (Thermionic Valve) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے بنیادی الیکٹرانک افعال کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اس کے ذریعے سگنل کی ایمپلیفیکیشن اور گرم کیتھوڈ سے الیکٹران کا تھرمیونک اخراج ہوتا ہے۔ غیر تھرمیونک ویکیوم فوٹو ٹیوب، فوٹو الیکٹرک کے اثر سے الیکٹران کا اخراج حاصل کرتے ہیں۔ اِس کے ذریعے روشنی کی شدّت کا پتا بھی لگایا جاتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی دیگر اشیاء کی ایجاد بھی ہوئی جن کی مدد سے ناممکنات کو ممکنات میں بدل دیا گیا اور سائنس نے انسان کے اَن گنت خوابوں کو تعبیر کی حقیقت سے روشناس کرایا۔

گگلیمو مارکونی (Guglielmo Marconi) اطالوی باشندہ تھا۔ وہ 25 اپریل 1874ء کو اٹلی کے مقام ماریسکالکی (Marescalchi) میں پیدا ہوا۔ وہ ایک الیکٹریکل انجینئر اور ریڈیو کا بانی و مؤجد تھا۔ اُسے 1909ء میں فزکس کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس نوبل انعام میں جرمن سائنسدان کارل فرڈیننڈ برون (Karl Ferdinand Braun) بھی اُس کا شریک تھا۔ مارکونی اپنی محنت سے ایک کامیاب تاجر اور مؤجد بنا۔ نوبل انعام ملنے کے بیس برس بعد اُسے اٹلی کے بادشاہ وکٹر ایمانوئیل سوئم کی جانب سے شاہی اعزاز و انعام دیا گیا۔

میں وہاں کھڑا ہوں جہاں دنیا کی ایک لازوال ایجاد ریڈیو کا بانی مارکونی اپنے گھر کے باہر کھڑا ہوتا تھا۔ چیمسفرڈ شہر برطانوی کاؤنٹی ایسکس میں واقع ہے۔ میرا اس شہر سے 16 سال قدیم تعلّق ہے۔ یہاں میرے اُستاد، میرے رہبر اور میری انگلی پکڑ کر کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں بھوکے پیٹ چلنا سکھانے والے برکت بھائی کے بیٹے اور میرے شاگرد آفتاب علی رہتے ہیں۔ اِس کاؤنٹی کا ایک اور بڑا شہر ساحلِ سمندر پر واقع ساؤتھ اینڈ ہے جسے میں بیس برس پہلے دیکھ چکا ہوں۔ میں نے 2006ء میں چیمسفرڈ سے کیمبرج، آکسفرڈ اور لندن کے سفر کیے تھے۔

چیمسفرڈ ایک ہزار سال پُرانا شہر ہے۔ اِس شہر کے قریب کانسی کے دور (Bronze Age) کے آثار موجود ہیں۔ یہاں آپ کو پتھر کے دور (Stone Age) کے آثار بھی ملیں گے۔ ہمارے ہاں اسے پتھر کا آخری دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر کے قریب 3150 قبل مسیح کے آثار بھی موجود ہیں۔ گویا یہ آثار قدیم مصر، موہنجودڑو اور ہڑپّہ کے ہمعصر ہیں۔ پتھر کے جدید دور (Neolithic Age) کی اصطلاح یونانی لفظ “Neo” سے لی گئی اور اس شہر کے قریبی آثار پتھر کے دور کی یاد دلاتے ہیں۔

پتھر کے زمانے کو 9 ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے دور کو زرزیان کے دور کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا دورانیہ 12 ہزار سال قبلِ مسیح سے 10 ہزار سال قبلِ مسیح کا دور ہے۔ برتن سازی سے قبل کے دور کو 8 ہزار 6 سو قبلِ مسیح سے 6 ہزار 9 سو قبلِ مسیح تک شمار کیا جاتا ہے۔ برتن سازی کا دور 7 ہزار قبلِ مسیح سے شروع ہوتا ہے اور یہ دور 5 ہزار قبلِ مسیح تک چلتا ہے۔ عراق کے علاقے حسُونا کے نام سے ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اسے ہم نینوا کہتے ہیں۔ اس کا ہمعصر عراق کا ہی سامراء دور ہے، اس کی موجودہ حالت دریائے دجلہ کے کنارے صلاح الدین ایّوبی کے دور میں وجود میں آئی۔ یہ مقام بغداد سے 78 میل کے فاصلے پر ہے۔ نینوا اور سامراء کی ہمعصر شام کے مقام الحلف کی تہذیب ہے۔ اِن تہذیبوں کا دورانیہ 7 ہزار قبلِ مسیح سے 5 ہزار 6 قبلِ مسیح تک پھیلا ہوا ہے۔ چیمسفرڈ میں 7 ستمبر 1199ء کو شاہی فرمان کے ذریعے جدید شہر میں مارکیٹ کا قیام عمل میں آیا۔ چیمسفرڈ کی قدیم عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں ہمسفرڈ کی عمارت ایک روایتی شان لیے ہوئے ہے۔ یہاں انتظامی مرکز کی عمارت دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ سٹی کونسل کی عمارت ایک حد تک کراچی کے فریئر ہال کا منظر پیش کرتی ہے۔ اس کے اطراف میں فریئر ہال جیسا وسیع وعریض پارک ہے۔ اس شہر میں ملکہ ایلزبتھ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر2012ء میں پُرشکوہ شاپنگ سنٹر تعمیر کیا گیا۔ یہ عمارت اور ایسی دیگر عمارتیں چیمسفرڈ کو لندن کا ہم پلہ بناتی ہیں۔

Advertisement

چیمسفرڈ کا کیتھڈرل دیکھتے ہی آپ کو پیرس کے نوٹرے ڈم (Notre-Dame) اور کولون (Cologne)، جرمنی کے کیتھڈرل کی یاد آجاتی ہے۔ پیرس کے نوٹرے ڈم کے پس منظر میں لکھا گیا وکٹر ہیوگو کا ناول کُبڑا عاشق جیسا ناول چیمسفرڈ کے گرجا گھر کے پس منظر میں نہیں لکھا گیا اور نہ ہی اس گرجا گھر کے قریب کولون کے گرجا گھر کے زائرین جیسی موسیقی سننے کو ملتی ہے جیسی موسیقی کے بیتھوون (Beethoven) خود اور اُس کے باپ دادا وہاں کے شہریوں کو سنایا کرتے تھے لیکن یہ کیتھڈرل اپنی شان وشوکت میں ان دونوں گرجا گھروں سے کمتر نہیں۔ کیتھڈرل کی یہ عمارت 1223ء میں تعمیر ہوئی۔ یہ گرجا گھر پندرھویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اس گرجا گھر کی تعمیر کچھ صدیاں گزرنے کے بعد نئے نئے اضافے کئے جاتے رہے۔ اس گرجا گھر کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھر موسم کے اثرات قبول نہیں کرتے۔

چیمسفرڈ کی انجلیا رَسکن (Anglia Ruskin) یونیورسٹی ایک قابلِ توقیر ادارہ ہے۔ قبل ازیں اس کا نام کیمبرج اسکول آف آرٹ تھا۔ یہ ادارہ 1858ء میں ولیم جان بیمونٹ (William John Beamont) نے قائم کیا تھا۔ اِس وقت اس یونیورسٹی میں 39 ہزار 400 طالب علم زیرِتعلیم ہیں۔ برطانیہ کے اہم تعلیمی اداروں کے علاوہ برلن، بڈاپسٹ، ٹرنینڈڈ، ٹوباگو، سنگاپور اور کوالالمپور کی جامعات کے ساتھ اِس کا اشتراک اور الحاق ہے۔ یہاں آرٹس، سماجی سائنس، صحت، طب، سماجی خدمات کے علاوہ سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔

بات چلی تھی مارکونی کی ایجاد سے جس نے دنیا کو ایک تہذیب کی راہ دکھائی۔ ریڈیو کی ایجاد کے کئی برس بعد برطانوی مسافر بردار بحری جہاز ٹائیٹینک (Titanic) کے حادثے نے پوری دنیا کو لرزہ کر رکھ دیا تھا۔ اِس حادثے کے بعد برطانیہ کے پوسٹ ماسٹر جنرل نے جہاز کی تباہی کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلیے حادثے میں بچ جانے والوں کو طلب کیا۔ اِس حادثے میں بچ جانے والے تمام افراد نے ایک ہی بیان دیا کہ وہ سب صرف ایک شخص کی وجہ سے بچ پائے اور وہ مارکونی تھا اور اس کی بے مثال ایجاد تھی۔

مارکونی برطانیہ اور اٹلی کے درمیان سفر کرتا رہتا تھا۔ 1914ء میں اسے اٹلی کا سینیٹر بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے برطانیہ کے اعلیٰ ترین اعزاز وکٹوریہ کراس سے بھی نوازا گیا۔ جنگِ عظیم اوّل کے دوران اٹلی نے مارکونی کو ملٹری ریڈیو سروس کا انچارج بنا دیا۔ اطالوی شاہی فوج میں اسے لیفٹیننٹ کا عہدہ دیا گیا۔ جب مارکونی مائیکروویو ٹیکنالوجی پر کام کر رہا تھا تو اسے نو مرتبہ دل کا دورہ پڑا اور دسویں مرتبہ مارکونی کو اِس قدر شدید دورہ پڑا کہ وہ جانبر نہ ہو سکا اور 20 جولائی 1937ء کو 63 سال کی عمر میں اُس کا انتقال ہوگیا۔

میں 24 ستمبر 2024ء کو مارکونی وائرلیس ٹیلی گراف کمپنی کی عمارت پر الوداعی نظر ڈالتا ہوں اور چیمسفرڈ میں واقع آفتاب علی کے گھر کی جانب چل پڑتا ہوں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پہاڑوں میں چھپی ایک مقدس نشانی
بابا گرونانک کا 556 واں جنم دن، بھارتی سکھ یاتریوں کی ننکانہ صاحب آمد
مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار
متنازع ترین نائب امریکی صدر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
ایشیا کپ میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، آئی سی سی نے سزاؤں کا اعلان کر دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر