Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

چین امریکا تعلّقات میں پگھلتی برف

Now Reading:

چین امریکا تعلّقات میں پگھلتی برف

امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ نے بطور قومی رہنما پہلی بالمشافہ ملاقات میں عالمی چیلنجوں پر تعاون کرنے کا وعدہ اور کشیدہ تعلّقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

دونوں صدور کے دفاتر سے جاری ہونے والے الگ الگ بیانات کے مطابق، بالی (انڈونیشیا) میں 14 نومبر کو جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں تائیوان، تجارت اور یوکرین پر روسی حملے سمیت متعدد مسائل پر “واضح” گفتگو ہوئی۔

تین گھنٹے طویل بات چیت کے بعد صدر بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ “ایک نئی سرد جنگ کی کوئی ضرورت نہیں”، جبکہ دونوں جانب کے صدارتی دفاتر سے کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔

وائٹ ہاؤس کہا، “صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا اور چین کو بین الاقوامی چیلنجوں جیسے موسمیاتی تبدیلی، عالمی میکرو اکنامک استحکام بشمول قرضوں میں آسانی، صحت کی سہولیات اور عالمی غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے کیونکہ بین الاقوامی برادری یہی توقع رکھتی ہے”۔

سرکاری چینی خبر رساں ایجنسی شنہوا نے بھی صدر شی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “دونوں فریقوں کو تمام ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ عالمی امن کی مزید امیدیں، عالمی استحکام میں زیادہ اعتماد اور مشترکا ترقی کے لیے مضبوط محرکات تخلیق کیے جا سکیں”۔

Advertisement

یہ ملاقات دونوں ممالک کے مابین تناؤ میں اضافے کے بعد ہوئی ہے جب اس سال کے شروع میں امریکی قانون ساز نینسی پیلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تھا اور صدر بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خود مختار جزیرے، جس پر بیجنگ اپنا دعویٰ کرتا ہے، کا دفاع کریں گے اگر چین اس پر حملہ کرتا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ، “تائیوان کے بارے میں (صدر بائیڈن) نے تفصیل سے بتایا کہ ہماری ایک چائنا پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، امریکا دونوں جانب سے جمود میں یک طرفہ تبدیلیوں کی مخالفت کرتا ہے، اور دنیا آبنائے تائیوان میں امن و استحکام برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے”۔

’’ایک چائنا پالیسی‘‘ کے تحت امریکا نے بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کو تائی پے میں جمہوریہ چین (آر او سی) پر چین کی واحد اور قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ تاہم واشنگٹن اِس مؤقف کے ساتھ کہ تائیوان کے مستقبل کا تعین پرامن ذرائع سے ہونا چاہیے اس کی خودمختاری کے بارے میں کوئی مؤقف اختیار نہیں کرتا۔

یہ پالیسی عوامی جمہوریہ چین کے “ایک چائنا اُصول” سے مختلف ہے جس کے تحت بیجنگ کا اصرار ہے کہ تائیوان اس کی سرزمین کا ایک ناقابلِ تقسیم حصہ ہے۔

اُدھر چینی وزارت خارجہ کے اجلاس کے بعد ایک بیان کے مطابق، صدر شی نے اس بات پر زور دیا کہ “تائیوان کا معاملہ چین کے بنیادی مفادات کا مرکز ہے، چین امریکا تعلّقات کی سیاسی بنیاد کی بنیاد ہے، اور پہلی حد ہے جسے چین امریکا تعلّقات میں عبور نہیں کیا جانا چاہیے”۔ اس مسئلے کو حل کرنا چین کا اندرونی معاملہ ہے اور امریکا کو چین کے ساتھ مقابلے میں فائدے حاصل کرنے کے لیے تائیوان کو ایک آلے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے”۔

ملاقات ختم ہونے کے بعد صدر بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن کو یقین نہیں کہ تائیوان پر چینی حملے کا فوری خطرہ ہے۔

Advertisement

صدر بائیڈن نے کہا کہ، “مجھے یقین ہے کہ کسی نئی سرد جنگ کی ضرورت نہیں۔ میں صدر شی جن پنگ سے کئی بار ملا ہوں اور ہم اِس دوران تمام وقت ایک دوسرے کے ساتھ صاف اور واضح رہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ چین کی جانب سے تائیوان پر حملے کی کوئی فوری کوشش ہوگی۔

’’کوئی بے سُود کھیل نہیں‘‘

تائیوان سے قطع نظر، حالیہ برسوں میں بیجنگ اور واشنگٹن کے تعلّقات میں متعدد دیگر نکات پر بھی کشیدگی بڑھی ہے جن میں تجارتی مسائل، انسانی حقوق، بحیرہ جنوبی چین کے دعوے اور ہند بحرالکاہل میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے جاری امریکی کوشش شامل ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر بائیڈن نے صدر شی سے چین کے ’’سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ میں طرزِعمل اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کے معاملے‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔ امریکا نے چین پر سنکیانگ کے مغربی علاقے میں آباد مسلم ایغور اقلیت کی نسل کشی کا الزام لگایا ہے جس کی بیجنگ سختی سے تردید کرتا ہے۔

صدر بائیڈن نے “چین کے غیر معاشی اقدامات” کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بیجنگ کی جانب سے زیرِحراست امریکی شہریوں کے معاملات کو حل کرنا واشنگٹن کی ترجیح ہے۔

بائیڈن نے پیر (14 نومبر) کو صحافیوں کو بتایا، “ہم بھرپور طریقے سے مقابلہ کرنے جا رہے ہیں، تاہم میں تنازع کی وجہ نہیں ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں یہ مقابلہ ذمے داری سے کرنا چاہتا ہوں اور میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہر ملک بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرے”۔

Advertisement

دوسری جانب صدر شی نے کہا کہ وہ ” دونوں ممالک اور پوری دنیا کے فائدے کے لیے چین امریکا تعلقات کو اچھی اور مستحکم ترقی کی راہ پر واپس لانے کے لیے صدر بائیڈن کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں”۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے لیے ایک دوسرے کے اختلافات کو تسلیم کرنا اور ان کا احترام کرنا چاہیے، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ “جس طرح امریکا میں امریکی طرز کی جمہوریت ہے، اسی طرح چین میں چینی طرز کی جمہوریت ہے”۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فریق کو دوسرے کے تصور میں تبدیلی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی دوسرے کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

صدر شی نے اس بات پر زور دیا کہ “مقابلہ ایک دوسرے سے سیکھنے میں ہونا چاہیے تاکہ خود کو بہتر بنایا جائے اور مل کر ترقّی کی جائے، نہ کہ بے سُود کھیل میں دوسروں کو نیچا دکھانے میں”۔

صدر شی کے حوالے سے کہا گیا کہ، ’’چینی قوم اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے کی قابلِ فخر روایت رکھتی ہے۔ دباؤ اور رکاوٹ صرف قوت ارادی کو مضبوط کرے گی اور چینی عوام کے حوصلے بلند کرے گی‘‘۔

’’تجارتی یا ٹیکنالوجی کی جنگ شروع کرنا، رکاوٹیں ڈالنا اور رسد فراہمی (سپلائی چین) کو الگ اور منقطع کرنے پر زور دینا منڈیوں کے اقتصادی اُصولوں کے خلاف ہے اور اِس سے عالمی تجارتی قوانین کمزور ہوتے ہیں۔ ایسی کوششیں کسی کے مفاد میں نہیں۔ ہم اقتصادی اور تجارتی تعلّقات کو سیاسی بنانے اور بطور ہتھیار استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے تبادلے کی مخالفت کرتے ہیں”۔

صدر بائیڈن اور صدر شی کے مابین گفتگو میں یوکرین پر روسی حملے کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔

Advertisement

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے “اپنے معاہدے کا اعادہ کیا کہ جوہری جنگ کبھی نہیں ہونی چاہیے جو کبھی نہیں جیتی جا سکتی”۔ انہوں نے “یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال یا ان کے استعمال کے خطرے کی مخالفت کو بھی اجاگر کیا”۔

چین کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر شی نے صدر بائیڈن کو بتایا کہ چین کو “یوکرین کی موجودہ صورتحال پر کافی تشویش ہے”۔

چینی بیان کے مطابق، “چین ہمیشہ امن کے ساتھ ہے اور امن مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا۔ ہم روس اور یوکرین کے مابین امن مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی بحالی کے منتظر ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں امید ہے کہ امریکا، نیٹو اور یورپی یونین روس سے جامع مذاکرات کریں گے۔

فریقین نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اپنی ٹیموں کو اپنی بات چیت کے سلسلے پر نظر رکھنے اور مزید مسائل کو حل کرنے کے لیے باقاعدہ رابطہ برقرار رکھنے کا کام سونپا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اس کوشش کے ایک حصے کے طور پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن جلد ہی بیجنگ کا دورہ کریں گے۔

بیجنگ میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کے سینیئر ریسرچ فیلو اینڈی موک نے صدر بائیڈن کے بیان کو “معتدل اور مفاہمت پر مبنی لہجہ” قرار دیا۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکی بیان بازی پالیسی سے مماثل نہیں ہو سکتی، بالخصوص تائیوان کے معاملے پر جو ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں صدر شی “اٹل” ہیں۔

Advertisement

اینڈی موک نے الجزیرہ کو بتایا، “تاہم یقینی طور پر یہ بہت اچھا ہے کہ دونوں فریق بات کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ مزید بڑھنے والا ہے”۔

بشکریہ: الجزیرہ

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سیلاب متاثرین کو بجلی بلوں میں ریلیف دینے کیلئے آئی ایم ایف سے رابطے کی ہدایت
کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش ایک بار پھر شروع
ذخیرہ، طاقت، بقا؛ پاکستان کو ڈیمز کی ضرورت ہے
سیلاب متاثرین کیلئے بین الاقوامی امداد کی اپیل فوری طور پر کی جائے، بلاول بھٹو کا حکومت سے مطالبہ
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی جرأت و بہادری رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی، وزیراعظم
پاک فوج کے آپریشن میں فتنہ الخوارج کے ہتھیار ڈالنے والے خارجی کے تہلکہ خیز انکشافات
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر