
ایک آدمی پلاسٹک کو پہن کر اس کے خطرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ سینیگال کے ساحل پر چہل قدمی کر رہا ہے جہاں پلاسٹک کا اس قدر کچرا پھیلا ہوا ہے کہ ساحل کی ریت بہ مشکل نظر آتی ہے۔
یہ ماحولیاتی کارکن موڈو فال ہیں، جنہیں بہت سے لوگ صرف ’’پلاسٹک مین‘‘ کہتے ہیں، یہ اپنی ‘ وردی’ پہنے رکھتے ہیں، جس کے بارے میں وہ اپنے ہر اس سامع سے کہتے ہیں جو پلاسٹک کی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں ان کی بات سنتا ہے،’’یہ کوئی لباس نہیں ہے۔‘‘ یہ ماحولیاتی کارکن جب چلتا ہے تو اس کے بازوؤں اور ٹانگوں سے پلاسٹک کی دھجیاں اور ٹکڑے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ہوا میں لہراتے اور کچھ زمین پر گھسٹ رہے ہوتے ہیں۔
موڈوفال کے سینے پر ’ سجے ہوئے ‘ پلاسٹک کے ٹکڑوں میں سے فرانسیسی زبان میں لکھی ہوئی ایک علامت جھانک رہی ہے جس کا مطلب ہے، ’’نو ٹو پلاسٹک بیگز)پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال نہ کریں (‘‘49 سالہ موڈوفال ایک سابق فوجی اور تین بچوں کے باپ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی ایک ماحولیاتی تباہی ہے جس کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جو بغیر سوچے سمجھے چیزوں کو استعمال کرنے کے بعد کہیں بھی پھینک دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں،’’یہ صحت، سمندر اور آبادی کے لیے زہر ہے۔‘‘
اس روز، موڈوفال سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں یارک بیچ پر چہل قدمی کررہے تھے۔ لیکن وہ اس روز کسی دوسری جگہ پر بھی ہوسکتے تھے کیوں کہ انہوں نے اپنے پیغام کو ملک گیر بنا لیا ہے اور وہ برسوں سے مغربی افریقی ملک کے شہروں کا پلاسٹک کی آلودگی کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے مقصد سے دورے کررہے ہیں۔
2011 میں، عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر، انہوں نے ‘ پلاسٹک مین ‘ کے طور پر پلاسٹک کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔انہوں نے ’’ کلین سینیگال ‘‘ کے نام سے ایک ماحولیاتی انجمن قائم کی، جو تعلیمی مہمات کے ذریعے بیداری پیدا کرتی ہے اور اشیا کے دوبارہ استعمال ) reuse (اور انہیں ازسرنو کارآمد اشیا میں ڈھالنے ) recycling (ری سائیکلنگ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
ساحل پر چلتے ہوئے موڈوفال کو دیکھ کر بچے چلانے لگے،’’کنکورنگ! کنکورنگ آ رہا ہے!‘‘سینیگال اور گیمبیا کے ثقافتی ورثے کا حصہ، کنکورنگ اس جذبے کی علامت ہے جو نظم اور انصاف فراہم کرتا ہے، اور اسے برائی کے خلاف محافظ سمجھا جاتا ہے۔
اس رو ز یہ ’ کنکورنگ‘ بچوں کو پلاسٹک کی آلودگی کے بارے آگاہی دے رہا اور انہیں ماحول کا احترام کرنے کی تلقین کر رہا تھا۔موڈفال نے بچوں سے کہا کہ ’’موسمیاتی تبدیلی حقیقی ہے، اس لیے ہمیں اپنے طرز زندگی کو بدلنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہمیں اپنے رویے کو بدلنا ہوگا۔‘‘موڈو فال کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اسے ایک پاگل کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر لوگ پلاسٹک کے مسئلے کی سنگینی سے واقف نہیں اور اگر انہیں اس بارے میں وضاحت کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ ان لوگوں کے خیالات بدل سکتے ہیں۔
موڈوفال کا کہنا ہے کہ ان کی بیوی اور بچے، جو کبھی کبھی انہیں مقامی ٹیلی ویژن پر اپنا پیغام پھیلاتے ہوئے دیکھتے ہیں، ان کے کام کو سمجھتے اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ یہ وہ حمایت ہے جو انہیں ابتدا میں نہیں ملی تھی۔
2020 ء میں، سینیگال نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت پلاسٹک کی کچھ مصنوعات پر پابندی لگائی گئی۔لیکن ساحل پر پلاسٹک کے کچرے کے پہاڑ اس بات کی علامت ہیں کہ اس قانون کے نفاذ میں مشکلات کا سامنا ہے ۔عالمی رہنما اس ہفتے شرم الشیخ، مصر میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں جسے COP27 کہا جاتا ہے۔ موڈوفال کو امید ہے کہ پلاسٹک کے بارے میں ان کا پیغام وہاں بھی گونجے گا۔
وہ کہتے ہیں،’’افریقہ کے رہنماؤں کو پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف لڑنے کے لیے بیدار ہونے اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
بشکریہ: ٹی آر ٹی ورلڈ
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News