لندن کے سینٹ میری پرائمری اسکول میں، تقریباً نصف بچے مفت اسکول لنچ کے حقدار ہیں کیونکہ وہ انگلینڈ کے غریب ترین خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
خیراتی اداروں کا استدلال ہے کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی کی وجہ سے زندگی گزارنے کے اخراجات کے بحران کے درمیان زیادہ سے زیادہ طلبا کو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کیے جانے والے کھانے تک رسائی دی جانی چاہیے۔ تاہم وزیر اعظم رشی سونک کی حکومت ان مطالبات کی مزاحمت کر رہی ہے۔
سیٹ میری کے 48 فیصد بچے مفت اسکول لنچ کے حقدار ہیں۔ اور یہ تناسب سے برطانیہ کے دیگر اسکولوں کی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔
اسکول کے منتظمین کی ٹیم کی ایک رکن کلیئر مچل نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ سوچ کر صدمہ پہنچتا ہے کہ بہت سے بچوں اور ہمارے خاندانوں کو گزارہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، اور وہ اپنے اہل خانہ کے لیے ضروری خوراک فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔‘‘
دوسرے خاندان جن کو مفت اسکول کے کھانے کا فائدہ ملنا چاہیے، انہیں نہیں مل پاتا کیوں کہ ان کی آمدنی کم از کم مقررکردہ حد سے زیادہ ہے۔ یہ حد انگلینڈ میں سالانہ 7400 پاؤنڈ (9163ڈالر) ہے۔
خیراتی ادارے ’’ اسکول فوڈ میٹرز ‘‘ کی بانی اور چیف ایگزیکٹو اسٹیفنی سلیٹر کے مطابق، ’’حد بہت کم ہے، اور یہ برطانیہ میں شامل دیگر ریاستوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’شمالی آئرلینڈ میں، حد 14000 پاؤنڈ ہے۔ اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں حکومتیں ریاستی سطح پر مفت کھانے کی فراہمی شروع کر رہی ہیں، یعنی ہر اسکول میں ہر بچے کو دوپہر کا کھانا مفت میں دیا جائے گا۔ ‘‘
اس کے مقابلے میں، انگلینڈ میں صرف ایک تہائی سے زیادہ طالب علم تقریباً 2اعشاریہ40 پاؤنڈ یومیہ کی امداد سے مستفید ہوتے ہیں۔
اور چائلڈ پاورٹی ایکشن گروپ کے مطابق، انگلینڈ میں ہر تین میں سے ایک بچہ جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ غربت میں زندگی گزار رہا ہے، اس امداد کا اہل نہیں ہے۔
’ آغاز کووڈ کی وبا سے ہوا‘
رومن کیتھولک اسکول سینٹ میریز میں بہت سے والدین کو توانائی اور خوراک کے وسیع ہوتے بلوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اسکول کا اپنا فوڈ بینک ہے جو عطیہ کردہ بنیادی اشیا جیسے روٹی اور دودھ مفت فراہم کرتا ہے۔
کلیئر مچل کہتی ہیں، ’’وبائی بیماری کے اثرات کو درحقیقت اس وقت محسوس کرنا شروع کیا جب خاندان یا تو ملازمتیں کھو رہے تھے یا پھر اتنے گھنٹے تک کام کرنے سے قاصر تھے جتنے گھنٹوں تک وہ پہلے کررہے تھے۔‘‘
سوٹن ٹرسٹ کے مطابق، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دوران انگلینڈ میں اسکول کے کھانے کا خرچ برداشت کرنے سے قاصر خاندانوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دریں اثنا خیراتی ادارے نے حالیہ بجٹ میں اس مد میں مختص کردہ میں اضافہ نہ کرنے پر حکومت پر تنقید کی ہے۔
انگلینڈ اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے فٹ بالر مارکس راشفورڈ، جو اپنے وقت میں مفت اسکول لنچ سے مستفید ہوئے تھے، نے مفت لنچ کی وسیع پیمانے پر دستیابی کے لیے مہم چلائی۔
ان کے ساتھ گلوکار زین ملک، لندن کے میئر صادق خان اور برطانوی سپر مارکیٹ ٹیسکو کے چیف ایگزیکٹو کین مرفی بھی شامل ہوئے۔
اسٹیفنی سلیٹر کا کہنا ہے، ’’جب ہم بھوک کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہم بچوں کے اسکول آنے اور کھانے کے وقت گرم، غذائیت سے بھرپور کھانے پر انحصار کرنے کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ان لوگوں کے لیے جو مفت دوپہر کے کھانے کے حقدار نہیں ہیں لیکن مالی مشکلات کا شکار ہیں،اسکول یا تو ان بچوں کے لیے اپنے بجٹ میں سے مفت کھانے پر سبسڈی دیں گے، یا پھر مختلف گھرانے ان بچوں کے لیے ڈبہ بند لنچ بھیج رہے ہیں جو غیرموزوں ہیں کیوں کہ انہیں غذائیت سے بھرپور کھانے نہیں مل پارہے۔‘‘
کلیئر مچل کے مطابق بچہ اگر بھوکا ہے تو اسے )پڑھائی پر( توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔ اور اگر وہ ابھی اپنی پوری صلاحیت سے کام نہیں لے پارہے تک نہیں پہنچ رہے ہیں تو پھر ان کے لیے دوسرے بچوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News