
صدر جو بائیڈن کا کرسمس کے موقع پر روس کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش پر شکوک و شبہات کا اظہار
واشنگٹن میں تعینات روسی سفیر نے کہا ہے کہ یوکرین کے بارے میں امریکی حکومت کی پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تنازع کے پرامن حل میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
6 جنوری کو جاری کردہ ایک بیان میں اناتولی انتونوف نے دلیل دی کہ واشنگٹن کا کیف کو بریڈلی فائٹنگ وہیکلز فراہم کرنے کا فیصلہ صرف اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ امریکہ نے ایسے ’’خطرناک راستے‘‘ کے خلاف روس کے انتباہات کو ’’سننے کی کوشش بھی نہیں کی۔‘‘
’’امریکہ نے 2014 ء کے اوائل میں کیف میں نازی مجرموں کی حمایت کر کے روس کے خلاف حقیقی پراکسی جنگ شروع کی۔‘‘ روسی سفیر نے اس بغاوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جس کے نتیجے میں جمہوری طور پر منتخب صدر وکٹر یانوکووچ کو معزول کردیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یوکرین کو فراہم کیے جانے والے ہتھیاروں کی ’دفاعی نوعیت‘ کے بارے میں کوئی بھی بات طویل عرصے سے مضحکہ خیز ہو چکی ہے۔‘‘
ایلچی نے دعویٰ کیا کہ مغربی ہتھیاروں کی ترسیل یوکرینی بنیاد پرستوں کو ‘خوفناک کام ‘ کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جس سے ان کے استثنی کے احساس میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔ اور وہ روسی فیڈریشن کے ڈان باس، زپوروزی اور خیرسون علاقوں میں شہریوں کو انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اناتولی انتونوف نے کہا کہ “کسی کو اب بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس تنازعے کو طول دینے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ امریکی انتظامیہ کے تمام اقدامات ’’سیاسی تصفیے کی خواہش کی کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘‘
روسی سفیر نے 6 جنوری کو روسی صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے کرسمس کے موقع پر اعلان کردہ 36 گھنٹے کی جنگ بندی پر امریکی صدر جو بائیڈن کے ردعمل پر روشنی ڈالی۔
قبل ازیں امریکی صدر نے ماسکو کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا: ’’میں پوتن کی کسی بھی بات کا جواب دینے سے گریزاں ہوں… مجھے لگتا ہے کہ وہ آکسیجن کی تلاش میں ہیں۔‘‘
سفارت کار نے دلیل دیتے ہوئے کہا، ’’اس سب کا مطلب یہ ہے کہ واشنگٹن ہمارے ساتھ ‘آخری یوکرینی کے زندہ رہنے ‘ تک لڑنے کے لیے پرعزم ہے، جب کہ یوکرین کے لوگوں کی تقدیر امریکا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔‘‘
مجوزہ جنگ بندی کو یوکرینی حکام نے ’’منافقانہ‘‘ قرار دیا۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اسے ایک فریب قرار دیتے ہوئے کہا: ’’دنیا میں ہر کوئی جانتا ہے کہ کریملن جنگ بندی کو نئے جوش کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے کس طرح استعمال کرتا ہے۔‘‘
بشکریہ: آر ٹی
باکس
پینٹاگون کا یوکرین کو ’ٹینک کلرز‘ بکتر بند
گاڑیاں دینے کا اعلان
مانیٹرنگ ڈیسک
ماسکو
امریکی حکومت آنے والے امدادی پیکج میں یوکرین کو بڑی تعداد میں جدید بکتر بند گاڑیوں فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان بکتر بند گاڑیوں کو ایک سینئر فوجی اہلکار نے ’’ٹینک شکن‘‘ یا ’’ٹینکوں کی قاتل‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ اقدام ان رپورٹوں کے بعد کیا گیا ہے کہ واشنگٹن ابرامس جنگی ٹینک کے لیے یوکرین کی درخواستوں کے باوجود اسے بھاری ہتھیار دینے کا معاملہ زیرغور لانے سے انکاری ہے۔
پینٹاگون کے چیف ترجمان پیٹ رائڈر نے 6 جنوری کو تازہ ترین امداد کا اعلان کرتے ہوئے نامہ نگاروں کو بتایا کہ کیف کو بریڈلی فائٹنگ وہیکلز کی ایک غیر متعینہ تعداد کے ساتھ ساتھ بکتر بند دستوں کے کیریئرز کے لیے تربیت اور دیکھ بھال میں مدد فراہم کی جائے گی۔
پیٹ رائڈر نے کہا، ’’یہ بکتربند گاڑیاں جارحانہ اور دفاعی دونوں کارروائیوں کے لیے فوجیوں کو میدان جنگ میں لے جا سکتی ہیں، جس سے محاذ جنگ پر فائدہ ملتا ہے۔ یہ گاڑی ٹینک نہیں ہے، لیکن یہ ‘ ٹینک کلر’ ضرور ہے۔‘‘
دو نامعلوم اہلکاروں کے مطابق، ہتھیاروں کے پیکج میں 50 تک بریڈلیز بکتر بند گاڑیاں اور دیگر سامان شامل ہوگا۔
پیٹ رائڈر نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ گاڑیاں کب تک میدان جنگ میں پہنچ سکتی ہیں، نہ ہی انہوں نے یہ واضح کیا کہ یوکرینی فوجیوں کو ان کے استعمال کی تربیت دینے میں کتنا وقت لگے گا۔ اگرچہ گزشتہ فروری میں یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے واشنگٹن نے 21 ارب ڈالر سے زیادہ کی براہ راست فوجی امداد کی منظوری دے دی ہے، لیکن طویل ترسیلی شیڈول کی وجہ سے یہ واضح نہیں ہے کہ اس میں سے درحقیقت کتنا اسلحہ ملک میں آیا ہے یا کتنا استعمال کے لیے دستیاب ہے۔
کیف پوری جنگ کے دوران امریکا سے بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ یوکرین نے خاص طور پر کرسمس کی ‘خواہش کی فہرست’ میں ایم ون ابرامس جنگی ٹینک کی درخواست کی جو گزشتہ ماہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک سینئر مشیر نے شیئر کی تھی۔ تاہم، امریکی حکام 60 ٹن وزنی ٹینک کی فراہمی کے مطالبے کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ایک نامعلوم سرکاری اہلکار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ یہ ٹینک اچانک غیرفعال یا ناکارہ ہوجانے اور ایندھن کی بھاری کھپت کی وجہ سے یوکرینی افواج کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
اس کے بجائے، واشنگٹن اور جرمنی اور فرانس سمیت کچھ مغربی اتحادیوں نے ہلکے ہتھیاروں کی فراہمی کی پیشکش کی ہے، پیرس نے حال ہی میں کئی پرانی AMX-10 بکتر بند لڑاکا گاڑیاں بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور برلن نے مارڈر گاڑی کی مستقبل میں فراہمی کا اعلان کیا ہے۔ تینوں ممالک نے بھاری ٹینکوں کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔
1980 ء کی دہائی میں سوویت BMP لڑاکا گاڑیوں کے مقابلے میں تیار کی گئی بریڈلی کو پیدل فوج کے لیے نقل و حمل اور کور فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، جو کئی مختلف شکلوں میں آتی ہے۔ اگرچہ پینٹاگون نے اس ماڈل کی وضاحت نہیں کی جسے یوکرین بھیجا جائے گا، تاہم M3 بریڈلی کو عام طور پر تین افراد پر مشتمل عملہ چلاتا ہے، اور اس میں اسکاؤٹ دستوں اور BGM-71 TOW ٹینک شکن میزائلوں کے لیے اضافی جگہ ہوتی ہے ۔
بشکریہ: آر ٹی
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News