
جاسوس غبارے والے امریکی شکوک و شبہات اُس وقت بڑھ گئے جب امریکا نے چینی غبارے کو مار گرانے کے بعد اُڑنے والی مزید تین نامعلوم اشیاء کو بھی نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی واشنگٹن اپنے اتحادیوں بشمول جاپان، جنوبی کوریا اور نیٹو کو متحرک کر رہا ہے تاکہ “چینی خطرے” کے بیانیے کو طُول دیا جا سکے۔
تاہم چینی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا جتنی دیر تک اس طرح کا شور و غوغا جاری رکھے گا، اس کے لیے اِس مظاہرے اتنا ہی شرمناک نتیجہ نکلے گا۔
4 فروری کو مار گرائے جانے والے چینی غبارے کے علاوہ باقی تین اشیاء کے ماخذ نامعلوم ہیں۔ اے پی نے 13 فروری کو خبر دی کہ وائٹ ہاؤس نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ حکام کے پاس کوئی معلومات نہیں تھیں کہ ان اشیاء کو نگرانی کے لیے بنایا گیا تھا، تین نامعلوم اشیاء کو مار گرانے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
جاپانی نائب وزیر برائے امور خارجہ موری تاکیو اور جنوبی کوریا کے اوّل نائب وزیر خارجہ چو ہیون ڈونگ نے 13 فروری کو “سہ فریقی مذاکرات” کے حصے کے طور پر واشنگٹن میں امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن سے ملاقات کے بعد امریکی حملوں کی حمایت کا اظہار کیا۔
امریکی میڈیا نے چو ہیون ڈونگ کے حوالے سے بتایا کہ “امریکا کے اتحادی ہونے کے ناطے ہم اس معاملے پر امریکا کی جانب سے باضابطہ طور پر بیان کردہ باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں”۔
جنوری 2022ء میں جاپانی فضائی حدود سے گزرنے والے غبارے پر تبصرہ کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا کہ “ہمیں امید ہے کہ جاپان ایک معروضی اور منصفانہ مؤقف رکھتا ہے اور وہ امریکی شور شرابے پر کان نہیں دھرے گا”۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے امریکا کی جانب سے غبارے اور دیگر اشیاء کو مار گرانے کا حوالہ دیتے ہوئے 13 فروری کو کہا کہ اتحاد کو چین اور روس کی نام نہاد نگرانی کی سرگرمیوں سے بھی چوکنا رہنا چاہیے۔
وانگ نے نیٹو پر زور دیا کہ وہ چین کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی اور “تصوّراتی دشمن” گھڑنا بند کرے۔ وانگ نے کئی دہائیوں سے یورپی رہنماؤں کی فون کالز کی جاسوسی کے امریکی ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا دنیا میں نگرانی کرنے والا نمبر 1 ملک ہے۔
چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے ریسرچ فیلو لو ژیانگ نے 14 فروری کو گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ جب امریکا کسی بات کے لیے کہتا ہے تو اِس کے اتحادیوں کے لیے اِس سے اختلاف کرنا مشکل ہوتا ہے۔
لو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی ہم آواز ہو کر “چینی خطرے” کا ڈھول پِیٹ رہے ہیں اور واشنگٹن غبارے کے مزاحیے ڈرامے کو طول دیتے ہوئے “امریکیوں اور امریکی اتحادیوں کی حفاظت کے لیے” نامی شو کا ایک سرکردہ اداکار ہے۔
اِس طرح کے امریکی کردار کو اُجاگر کرنے اور چین کو بدنام کرنے کے لیے امریکا نے اِس سے قبل 40 ممالک کے تقریباً 150 غیر ملکی سفارت کاروں کو چینی غبارے کے بارے میں بریفنگ دی تھی تاکہ اسے جاسوسی کے بڑے پروگرام کے حصے کے طور پر پیش کیا جا سکے۔
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ اِس طرح کے اعلیٰ سطحی شور شرابے کا ممکنہ طور پر مایوس کن نتیجہ نکلے گا جس پر امریکا کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔
غبارے کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چین کا دورہ ملتوی کر دیا جبکہ چین کی جانب سے سرکاری طور پر اس دورے کی تصدیق نہیں کی گئی۔
اِس مزاحیہ ڈرامے کے دو ہفتے بعد بلومبرگ اور روئٹرز نے خبر دی کہ دونوں ممالک 17 سے 19 فروری تک ہونے والی میونخ سلامتی کانفرنس کے موقع پر اعلیٰ سفارت کاروں سے رُوبرو ملاقات پر غور کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے باقاعدہ پریس بریفنگ میں بتایا کہ “کوئی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی’’ تاہم واشنگٹن ‘‘ہمیشہ سفارت کاری کے اختیارات کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے”۔
لو ژیانگ نے کہا کہ اگر ملاقات آگے بڑھتی ہے تو یہ چین اور امریکا کے لیے ایک اچھا موقع ہوگا کہ وہ جاری غبارہ کشیدگی کو ٹھنڈا کریں اور دوطرفہ تعلقات میں فوری اور اہم مسائل پر مزید توجہ دیں۔
چائنا فارن افیئرز یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر لی ہائیڈونگ نے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ چینی غبارے کے واقعے سے پتا چلتا ہے کہ امریکی اشرافیہ چین کے بارے میں انتہائی منفی تاثر رکھتی ہے اور اِسے عوام میں تقویت دیتی رہتی ہے۔
لی نے کہا کہ اِس طرح کا تاثر بائیڈن انتظامیہ کو بالآخر چین سے عملی تعاون اور ضرورت پڑنے پر لچک دارانہ رویے کے ساتھ کام کرنے میں مانع ہوگا۔
بشکریہ: گلوبل ٹائمز
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News