
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، چین نے 2022ء میں صاف توانائی کی سرمایہ کاری کے معاملے میں دیگر تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا، جس نے 546 ارب ڈالر خرچ کیے، جو کہ عالمی مجموعی کا تقریباً نصف ہے۔
ریسرچ فرم بلومبرگ این ای ایف کے مطالعے کے مطابق، اگر یورپی یونین کو واحد بلاک کے طور پر سمجھا جاتا تو 180 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہوتا، جب کہ امریکہ 141 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
رپورٹ کے مطابق، توانائی کے بحران اور پالیسی کی تبدیلیوں نے صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز کو تیزی سے اپنانے کی ترغیب دی، جس کے نتیجے میں گزشتہ سال کم کاربن توانائی کی منتقلی میں عالمی سرمایہ کاری میں 1 اعشاریہ 1 ٹریلین ڈالر کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ یہ 2021ء کے مقابلے میں ایک نمایاں اضافہ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ چین نے صاف توانائی کے کارخانوں میں سرمایہ کاری میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا، جسے کلین انرجی ٹیکنالوجی مینوفیکچرنگ سہولیات میں سرمایہ کاری بھی کہا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ سرمایہ کاری 2021ء میں 52 اعشاریہ 6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2022ء میں 78 اعشاریہ 7 ارب ڈالر ہو گئی۔
45 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کے ساتھ، بیٹری اور متعلقہ اجزاء کی تیاری کی سہولیات اس سرمایہ کاری کا سب سے بڑا حصہ ہیں، جب کہ سولر فیکٹری کی سرمایہ کاری کل 23 اعشاریہ 9 ارب ڈالر ہے۔
دوسرے ممالک کی جانب سے عالمی کلین انرجی مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھانے کی کوششوں کے باوجود، پچھلے سال مینوفیکچرنگ سرمایہ کاری میں 91 فصد حصہ چین کا تھا۔
بی این ای ایف میں تجارت اور سپلائی چینز کی تحقیق کے سربراہ اینٹون ویگنور جونز نے 26 جنوری کو ریسرچ کمپنی کی طرف سے ایک خبر میں کہا کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز کے لیے مینوفیکچرنگ کی صلاحیت خالص صفر کاربن کے اخراج کے حصول میں اہم رکاوٹ ہو گی۔
انہوں نے کہا، ’’تاہم، سپلائی چین کے تنوع کے نقطہ نظر سے منظرنامہ زیادہ نہیں بدلا ہے۔ چین اب تک اپنی صاف توانائی کی سپلائی چین کی تعمیر میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا دوسرے علاقے نمایاں مارکیٹ شیئر حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
بشکریہ: چائنہ ڈیلی
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News