Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

یوکرین تنازع اِس سال ختم ہو جائے گا؟؟؟

Now Reading:

یوکرین تنازع اِس سال ختم ہو جائے گا؟؟؟

دشمنیوں کی شدت کم ہو جائے گی اور مغرب غلطیوں کا اعتراف کرے گا، رمضان قادروف کی پیش گوئی

ماسکو

جمہوریہ چیچنیا کے سربراہ رمضان قادروف کے مطابق یوکرین کے خلاف روسی فوجی آپریشن اس سال کے آخر تک ختم کر لیا جائے گا۔ انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ مغرب ماسکو سے تعلقات کے حوالے سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

’’یورپی ممالک تسلیم کریں گے کہ اِن کے اقدامات غلط تھے۔ مغرب گھٹنے ٹیک دے گا۔ اور ہمیشہ کی طرح یورپی ریاستوں کو روس کے ساتھ تمام شعبوں میں تعاون کرنا ہو گا۔ اس کا کوئی اور نتیجہ نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہو گا‘‘ رمضان قادروف نے 7 فروری کو ایک انٹرویو میں کہا۔

Advertisement

فوجی مہم کے آغاز سے ہی نسلی چیچن یونٹ یوکرین میں اوّلین محاذ پر ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ستمبر میں فوجی خدمات کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے “بہادری اور غیر معمولی ہمت” دکھانے پر قوم کے دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ اُن کی بھی تعریف کی۔ رمضان قادروف باقاعدگی سے ایسی وڈیوز پوسٹ کرتے ہیں جن میں چیچن فوجیوں کو کارروائی کرتے دکھایا جاتا ہے اور میدانِ جنگ میں اُن کی پیش رفت بتائی جاتی ہے۔ اس موقع پر اُنہوں نے روسی فوجی قیادت کی طرف سے لیے گئے کچھ فیصلوں سے متعلق عوامی سطح پر سوالات کیے ہیں جن میں ستمبر میں خارکوف کے علاقے سے فوجوں کا انخلا بھی شامل ہے۔ اس وقت چیچن رہنما نے روسی وزارتِ دفاع پر زور دیا کہ وہ ایک زیادہ جرات مندانہ جارحانہ حکمتِ عملی اپنائے۔ وزارت نے جزوی انخلاء کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس سے میدانِ جنگ میں ہونے والے روسی نقصانات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ماسکو نے نیٹو کی بڑھتی ہوئی توسیع اور 15-2014ء کے منسک معاہدوں پر عمل درآمد میں کیف کی ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے فروری 2022ء کے آخر میں یوکرین کے خلاف فوجیں تعینات کیں جس کا مقصد ڈونباس خطے میں امن کے لیے منصوبہ بندی کرنا تھا۔

روسی حکام نے دلیل پیش کی ہے کہ فوجی آپریشن کیف کی جانب سے اُن علاقوں کو زبردستی واپس لینے کی کوشش کے ردعمل میں کیا گیا جو دارالحکومت میں 2014ء کی مسلح بغاوت کے بعد یوکرین سے الگ ہو گئے تھے۔

گزشتہ ہفتے کی ایک رپورٹ میں روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے وزارت کی ایک کانفرنس کے دوران کہا کہ یوکرین کے لیے مغرب کی غیر مثالی فوجی امداد کیف کی افواج کے اہم نقصانات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

سرگئی شوئیگو نے بتایا کہ “محض اِس سال کے پہلے ماہ میں کیف کو 6500 سے زائد فوجی اہلکاروں، 26 طیاروں، 7 ہیلی کاپٹر، 208 بغیر پائلٹ ڈرون، 341 ٹینک اور دیگر بکتر بند گاڑیوں، اور متعدد راکٹ سسٹم کے ساتھ ساتھ 40 جنگی گاڑیوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے”۔

روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے ڈونیٹسک، لوہانسک، زاپوریزیا اور خیرسن کے علاقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے نقصانات کے ساتھ اور یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ روس کو عسکری طور پر شکست نہیں دے سکتے، یوکرینی حکام روس میں شامل ہونے والے نئے علاقوں میں شہری آبادی کو دہشت زدہ کرنے کے لیے مجرمانہ کارروائیوں کا سہارا لیے ہوئے ہیں۔

Advertisement

’’یوکرینی مسلح افواج رہائشی علاقوں، ہسپتالوں اور ایسے مقامات پر حملہ کرتی ہیں جہاں شہریوں کا مجمع ہو اور ریاستی و سماجی تنصیبات پر دہشت گردانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرتی ہیں‘‘۔ روسی وزیر دفاع نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس طرز کی کارروائیاں یوکرینی حکام کی “وحشیانہ فطرت” کا ثبوت ہیں۔

سرگئی شوئیگو نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کی طرف سے جنوری کے اوائل میں آرتھوڈوکس کرسمس کے دوران عارضی جنگ بندی پر اتفاق کرنے سے انکار کر دیا تھا اور تعطیلات کے دوران شہری اہداف پر شدید گولہ باری جاری رکھی۔ انہوں نے کہا کہ کیف کی افواج نے اس عرصے کے دوران 500 سے زیادہ گولے داغے۔ روسی وزیر دفاع نے بتایا کہ اِس دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تنازع کو طول دینے کی مسلسل کوششوں کے باوجود ڈونیٹسک اور زاپوریزیا کے خطوں میں متعدد دیہات کو کامیابی سے آزاد کرالیا ہے۔ اُنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ماسکو نئے حاصل کیے گئے علاقوں میں تمام روسی شہریوں کے ساتھ ساتھ ان تمام یوکرینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گا جنہیں کیف “حکومت” کی جانب سے نسل کشی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

باکس

یوکرین کے چھوڑے ہوئے علاقے کے حوالے سے رپبلکن کا رویہ

مانیٹرنگ ڈیسک

Advertisement

واشنگٹن

6 فروری کو جاری ہونے والے ایک سروے کے مطابق 10 میں سے 4 رپبلکن ارکان چاہتے ہیں کہ واشنگٹن یوکرین کے تنازع کو جلد حل کرنے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتا ہے کرے، چاہے اس کے لیے روس کو رعایتیں ہی کیوں نہ دی جائیں۔

گیلپ کی طرف سے کیے گئے ایک سروے میں جواب دہندگان سے پوچھا گیا کہ وہ ’’روس یوکرین تنازع میں امریکا سے کیا کرنے کو ترجیح دیں گے”۔ مجموعی طور پر 31 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ واشنگٹن ’’تنازع کو جلد ختم کرے چاہے روس یوکرینی علاقے کو اپنے پاس ہی کیوں نہ رکھے”۔ دریں اثناء 65 فیصد کا خیال ہے کہ امریکا کو “مقبوضہ علاقے پر یوکرین کے دوبارہ دعوے کی حمایت” کرنی چاہیے چاہے اِس سے دشمنی طویل ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اِس سروے کے نتائج اگست 2022ء میں کیے گئے سروے جیسے ہی ہیں۔

زیر بحث علاقے عوامی جمہوریہ ڈونیٹسک اور عوامی جمہوریہ لوہانسک کے ساتھ ساتھ زاپوریزیا اور خیرسن ہیں جنہوں نے 2022ء کے موسمِ خزاں میں روس میں شامل ہونے کے لیے بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔ یوکرین اب بھی ان علاقوں پر اپنا دعویٰ کرتا ہے جیسا کہ وہ کریمیا پر کرتا ہے جس نے 2014ء میں کیف میں مغربی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد روس میں دوبارہ شمولیت کا انتخاب کیا تھا۔

گیلپ پول کے مطابق 41 فیصد رپبلکن ارکان چاہتے ہیں کہ تنازع جلد ختم ہو چاہے یہ “روس کو یوکرینی علاقے اپنے قبضے میں رکھنے کی اجازت دے”۔ اس کے برعکس 53 فیصد نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ یہ پالیسی دشمنی کو طول دے سکتی ہے، کہا کہ وہ اپنے سابقہ علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے کیف کے دباؤ کی حمایت کرتے ہیں۔ مؤخر الذکر انتخاب کو 81 فیصد ڈیموکریٹ ارکان کی حمایت حاصل تھی۔

صرف 10 فیصد ڈیموکریٹ اراکین کے مقابلے میں 47 فیصد رپبلکن ارکان اس بات کے بھی قائل ہیں کہ امریکا یوکرین کی مدد کے لیے بہت زیادہ اقدامات کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر 28 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکا کیف کو بہت زیادہ امداد فراہم کر رہا ہے جبکہ 30 فیصد کا خیال ہے کہ واشنگٹن خاطرخواہ مدد نہیں کر رہا۔ سروے کے 39 فیصد رائے دہندگان یوکرین کو دی گئی موجودہ امریکی امداد سے مطمئن ہیں۔

Advertisement

بشکریہ: آر ٹی

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
قطر پر اسرائیلی حملہ امت مسلمہ پر حملہ ہے، دوحہ سمٹ میں وزیراعظم کا دوٹوک مؤقف
وزیر اعظم کی دوحہ میں سعودی ولی عہد سے ملاقات؛ فیلڈ مارشل بھی موجود
سامعہ حجاب کا یوٹرن؛ حسن زاہد سے صلح، ملزم کی ضمانت منظور
دوحہ میں عرب اسلامی ہنگامی اجلاس؛ وزیراعظم کی عالمی رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں
دوحہ اجلاس: امیر قطر کا اسلامی ممالک کو متحد ہوکر فلسطینی عوام کی حمایت کا مطالبہ
صدر مملکت کا دورہ چین کے موقع پر شنگھائی الیکٹرک کے چیئرمین سے ملاقات
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر