
چین کی جانب سے کورونا وبا کی روک تھام اور اِس پر قابو پانے کے اقدامات میں نرمی کے ساتھ، دنیا یہ سوچ رہی ہے کہ کیا چین اور امریکا کے تعلّقات میں کوئی ہلچل ہوگی اور فریقین اِس سال معمول کے مطابق دوبارہ رابطے شروع کر دیں گے۔ چائنا ڈیلی کے مطابق، بلنکن 5-6 فروری کو بیجنگ کا دورہ کریں گے جو کہ چار برسوں میں کسی اعلیٰ امریکی سفارت کار کا پہلا دورہ ہے۔ امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن کا بھی جلد چین کا دورہ متوقع ہے۔
14 نومبر کو انڈونیشیا کے شہر بالی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان ملاقات اور اِس ماہ کے شروع میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور چین کے نئے وزیر خارجہ چھِن گانگ کے درمیان فون پر بات چیت کے بعد چین امریکا تعلّقات میں برف پگھلنے کی امید پیدا ہوئی۔
تاہم امریکا اور امریکی زیر قیادت عسکری تنظیم نیٹو کے سینیئر حکام ایشیا پیسیفک خطے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے درمیان چین کے خلاف مخاصمانہ ماحول پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکا نام نہاد مسابقت کو بہتر طور پر لے کر چلنے کے لیے چین سے مزید روابط کا خواہاں ہے۔ گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہاں تک کہ امریکا اپنی بہت زیادہ تشویش کے حامل کچھ معاملات جیسے مالیات اور معیشت، موسمیاتی تبدیلی اور روس یوکرین تنازع پر بھی چین سے تعاون کرنا چاہتا ہے۔
چینی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی فریق کی بدنیتی بالکل واضح ہے، اس لیے چین بھی امریکا کے ساتھ معاملات میں محتاط رہے گا۔ اگر امریکا 2018ء سے اپنی جانب سے یکطرفہ طور پر بگاڑے جانے والے دوطرفہ تعلّقات کو بہتر کرنے کے لیے اپنی غلطیوں کو سُدھارنے سے انکار کرتا ہے اور اس کی بجائے، چین کو روکنے کے لیے اپنے اتحادیوں پر زور دیتا ہے اور اُنہیں استعمال کرتا ہے تو پھر واشنگٹن کو بھی چین سے اِن شعبوں میں تعاون کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن یکم فروری کو فلپائن کے مزید فلپائنی فوجی کیمپوں میں امریکی افواج اور ہتھیاروں کی تعیناتی کے بارے میں بات چیت کے لیے فلپائن میں تھے تاکہ جزیرہء تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کے ارد گرد چین کی کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کو بڑھایا جا سکے۔
اس ماہ کے شروع میں فنانشل ٹائمز کو ایک انٹرویو میں فلپائن کے صدر فرڈینینڈ مارکوس نے سوبک بے اور کلارک کے سابق امریکی فوجی اڈوں کو دوبارہ کھولنے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے ملکی آئین کے خلاف ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر غیر ملکی اڈوں کی اجازت دیں۔
31 جنوری کو دورہ کرنے والے نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ اور جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا نے اپنے تعلّقات کو مضبوط بنانے کا عہد کیا اور خطے میں “چین کے جبری رویے” سمیت ’’مشکلات‘‘ پر تبادلہء خیال کیا۔ اسٹولٹن برگ نے چین کو علاقائی امن کے لیے ’’خطرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے میڈیا سے یہ بھی کہا کہ یورپ میں روس یوکرین بحران جیسا واقعہ ایشیا میں بھی ہو سکتا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے یکم فروری کو معمول کی پریس کانفرنس میں نیٹو کے سربراہ کے تبصروں سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ روس یوکرین تنازع جیسے اہم مسائل پر “چین نے امن اور گفت و شنید کو فروغ دینے میں ہمیشہ فعال کردار ادا کیا ہے” اور یہ کہ نیٹو کو احتیاط سے غور کرنا چاہیے کہ اس نے یورپ کی سلامتی میں کیا کردار ادا کیا ہے۔
ماؤ نے کہا، “میں جس چیز پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایشیا پیسیفک خطہ جغرافیائی سیاسی جدوجہد کا میدان نہیں ہے اور ہم سرد جنگ کی ذہنیت یا اتّحادی تصادم کا خیرمقدم نہیں کرتے”۔
کم توقّع
وائس آف امریکا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی ماہرین کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ممکنہ دورہء چین سے کم توقّعات ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اِس سے چین سے “ازسرِنو” تعلّقات اُستوار نہیں ہوں گے۔ ابھی تک چینی فریق نے بلنکن کے دورے کی تصدیق نہیں کی ہے حالآنکہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پہلے جذبہء خیرسگالی کا اظہار کیا تھا۔
چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز میں امریکی مطالعات کے ماہر لو ژیانگ نے یکم فروری کو گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ چین کی جانب سے کم توقّعات رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ امریکا چین کے خلاف اپنا مخالفانہ رویہ تبدیل نہیں کرے گا اور وہ جانتا تھا کہ واشنگٹن دو طرفہ تعلّقات کو بہتر کرنے میں مخلص نہیں ہوگا۔
’’چین امریکا سے معاملات میں بھی محتاط رویہ اپنائے گا۔ ہم کسی بھی قسم کی مصروفیت کے لیے تیار ہیں لیکن ہم یہ بھی واضح کر دیں کہ امریکا چین کی ترقی کو روکنے کی اپنی کوششوں کو ترک نہیں کرے گا، اور چین کبھی بھی اپنی جائز اور درست ترقی سے دستبردار نہیں ہوگا‘‘، لُو نے کہا۔
بیجنگ کے ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ، “جب امریکی رہنما اور حکام چین امریکا کشیدگی کے لیے “حفاظتی باڑ” قائم کرنے کی بات کرتے ہیں تو وہ دراصل امریکا کے جاری کردہ غیر منصفانہ اُصولوں اور معیارات کو ترتیب دینے کی بات کر رہے ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ چین اِن اصولوں پر عمل کرے تاکہ بالآخر چین کی ترقی کو روکا جا سکے”۔
تاہم چین کو امید ہے کہ ” حفاظتی باڑ کی تشکیل” اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے کہ واشنگٹن تائیوان کے سوال جیسے چین کے بنیادی مفادات کو بھڑکانے کے لیے کچھ نہ کرے گا۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ اگر واشنگٹن نے 2018ء میں چین سے تجارتی جنگ شروع کرنے کے بعد کی گئی غلطیوں کو درست کرنے میں کوئی خلوص نہ دکھایا تو امریکا کو چین سے وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتا ہے اور سخت معاشی صورتحال امریکا کو چین کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کر دے گی۔
بشکریہ: چائنا ڈیلی اور گلوبل ٹائمز
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News