Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

پاکستان میں پہلی الیکٹرک کار متعرف

Now Reading:

پاکستان میں پہلی الیکٹرک کار متعرف

پاکستان ملک میں تیار ہونے والی مکمل طور پر برقی کا کو 2024ء تک متعارف کروانے والا ہے۔ یہ قدم ملک کو معاشی طورپرمضبوط بنانے کی سمت میں ایک قدم ثابت ہوگا۔ امید کی جارہی ہے کہ اس کم قیمت والی گاڑی کے اجراء سے معاشرے کا کم آمدنی والا طبقہ گاڑی خریدنے کے قابل ہو جائے گا۔ مقامی طور پر تیار ہونے والی اس الیکٹرک کار کو ماحول دوست بھی قرار دیا گیا ہے۔

دنیا بھر میں ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ، آٹوموبائل انڈسٹری میں ایک عظیم انقلاب دیکھنے میں آیا ہے، تاہم پاکستان بھی اس تبدیلی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کے مقامی انجینئرزنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک کو تکنیکی ترقی کے نئے دور میں لے جانے کے لیے پرعزم ہیں۔ آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر پاکستان نے ملکی سطح پرتیارکی جانے والی پہلی الیکٹرک کارکی رونمائی کی ہے، بجلی سے چلنے والی کار کو NUR-E 75کا نام دیا گیا ہے جس کی عوامی فروخت کے لیے بکنگ کا آغاز 2024کے آخر میں کیا جائے گا۔

ماہرین نے پاکستان الیکٹرک کار کی تیاری کو پاکستان کے  معاشی استحکام کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اورملک کو ناقابل تجدید ایندھن کے استعمال سے دورکرکے ماحولیات کے تحفظ میں مدد کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

پہلی مقامی طورپرتیارکی جانے والی الیکٹرک کارمقامی ماہرین تعلیم اور صنعت کاروں کے ساتھ مل کر اوورسیز پاکستانیوں کی غیر منافع بخش تنظیم ڈائس فاؤنڈیشن اور پاکستانی جامعات و نجی شعبہ کے تعاون سے ڈیزائن تیار کی گئی ہے۔ جس میں این ای ڈی یونیورسٹی، نسٹ، گورنمنٹ آف پنجاب یونیورسٹی، سرسید یونیورسٹی اور دیگر صنعت کاروں کے تعاون شامل ہیں۔

ڈائس فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر خورشید قریشی نے کہا کہ’یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ پاکستان نے اپنی پہلی الیکٹرک کار کو ڈیزائن کیا ہے‘،2024ء میں الیکٹرک کار کی فروخت  شروع ہو جائے گی تو ہم بھی عالمی دوڑکا حصہ بن جائیں گے۔ ہم نے الیکٹرک وہیکل درآمد کرنے میں کافی وقت ضائع کردیا ہے، لیکن اب آٹوموٹیوانڈسٹری کا مستقبل یہاں ہمارے پاکستان میں ہی ہوگا۔ اس سے پاکستان کومغربی ممالک کے برابر الیکٹرک آٹوموبائل ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوگی، جس سے ملکی اقتصادی استحکام کو برقرار رکھنا آسان ہو جائے گا۔

Advertisement

سرکاری یونیورسٹی کے سابق طالب علم سے پاکستان کو کچھ واپس دینے کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے پوچھا گیا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ جس کے جواب میں ڈاکٹر خورشید نے کہا کہ جب میں این ای ڈی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، اورمیں اس بات پرشرط لگا سکتا ہوں کہ اس وقت کسی بھی گاؤں سے ایک بچہ بھی اسکول نہیں جاتا ہوگا، کیوںکہ اس دور میں پاکستان نے میری ٹیوشن فیس ادا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس لیے میں نے اپنے وطن کو کچھ واپس دینے کی ذمہ داری لی تھی۔

انٹرنیٹ ٹرولنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر خورشید تھوڑے پریشان نظر آئے کیوںکہ کچھ نیٹیزنز اس کے ڈیزائن کو ناپسند کرکے اور دیگر خصوصیات پر تنقید کرکے ان کی کوشش کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ پاک وہیلرز کی جانب سے گاڑی کے ریویو سے وہ کافی پریشان بھی تھے۔ پاکستانی انجینئر کی یہ ایک بہت بڑی کوشش اور کامیابی ہے، انہوں نے کہا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تنقید کرنے والے لوگ اس حقیقت کو کیسے نظراندازکرسکتے ہیں کہ یہ 75 سالوں میں پہلی بار ہوا ہے، ہم نے پاکستان صارفین کی ضرویات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلی بار الیکٹرک کار خود اپنے ملک میں ڈیزائن کیا ہے، گاڑی کے ایک چھوٹے پارٹس سے لے کر انجن کے آخری مرحلے تک اسے کامیاب بنایا ہے۔ تقریباً سات دہائیوں کے بعد پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری نے الیکٹرک کار کو ڈیزائن کیا ہے، اس مرحلےمیں گاڑی کے پرزہ جات کا کوئی فراہم کنندہ نہیں ہے، تو اتنی بڑی کامیابی پر اتنے معمولی حقائق کی نشاندہی کیوں کی جارہی ہے۔

ڈاکٹر خورشید نے ڈائس کے دیگر اراکین کے ساتھ ایک برقی گاڑی لانچ کرنے کے اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک غیرمنافع بخش فاؤنڈیشن ہیں اوراپنے ملک کی خدمت کے لیے ہم نے ایک پلیٹ فارم قائم کیا ہے جہاں ہمارے ساتھ اوورسیز کچھ بڑا کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، کئی ماہرین رضاکارانہ طورپرڈائس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پچھلے سات سالوں سے ہم سب این ای ڈی کے طلباء کے ساتھ مل کر اس مقصد کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ پاکستان کو آٹوموبائل انڈسٹری میں خود کفیل بنا کراس کے مستقبل کو امید افزا بنایا جائے۔ بعض اوقات ہم اس فاؤنڈیشن کو چلانے کے لیے اپنی جیب سے پیسے بھی خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرزکا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس پراجیکٹ میں ان کی مدد کی اور کہا کہ ان کے تعاون کے بغیر یہ خواب پورا نہیں ہوتا۔

الیکٹرک کار NUR-E 75 کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کار کی کمرشل پروڈکشن 2024ء کی آخری سہ ماہی سے شروع ہونے کی امید ہے۔ ابتدائی پروٹو ٹائپ گاڑی پانچ سیٹوں والی ہے، اگلے مرحلے میں سیڈان تیار کی جائے گی اور بعد میں ایس یو وی پر بھی کام کیا جائے گا۔ الیکٹرک کار کے بانی ڈاکٹر خورشید نے کہا کہ جب تک یہ تجارتی طور پر تیار کی جائے گی، اس وقت اس کار میں مقامی طور پر تیار کردہ 60 فیصد پرزے ہیں، جو اگلے چند سالوں میں بڑھ کر 80 فیصد ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی الیکٹرک بیٹریاں خود بنانے سے قاصر رہا ہے کیونکہ اسے لیتھیم جیسے خام مال کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ چین، چلی، آسٹریلیا اور ارجنٹائن سمیت چند ہی ممالک تیار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹیسلا بھی چین سے بیٹریاں درآمد کر رہا ہے۔

Advertisement

انہوں نے بتایا کہ یہ الیکٹرک کار 220 وولٹ بجلی کے کنکشن سے 8گھنٹے میں چارج ہوکر 120کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار سے 210 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکے گی۔

کار میں چارجنگ کے دوکے لیے دو آپشنز دیے گئے ہیں۔ پہلا ڈی سی چارجرز کے ساتھ تیزی سے چارج ہوگا، جو گاڑی کو صرف 2 گھنٹے میں چارج کر دے گا۔ تاہم، کمپنی کی طرف سے اس کا تجربہ نہیں کیا گیا ہے لہذا یہ فی الحال صرف ایک دعویٰ ہے. دوسرا ایک باقاعدہ 220 وولٹ چارجر کے ساتھ سست چارج ہوگا، اور ہیچ بیک کو مکمل طور پر چارج کرنے میں تقریباً 7 سے 8 گھنٹے لگیں گے۔ اس کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں اسے حاصل کرنے کے لیے پاور اسٹیشنوں پر نہیں جانا پڑے گا۔

ڈاکٹر خورشید کے مطابق الیکٹرک کار کو 2024ء کی چوتھی سہ ماہی میں لانچ کیا جائے گا۔ اگرچہ کار کی قیمت ابھی تک سرکاری طور پر نہیں بتائی گئی، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی قیمت تقریباً 22 لاکھ سے 28 لاکھ روپے ہو سکتی ہے۔ پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے تقریباً 60 ڈالرز سے 80 ملین ڈالرزکی فنانسنگ درکار ہے۔

ڈاکٹر خورشید قریشی نے اس کارکو پاکستان کی معیشت کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی بھلائی کے لیے ’گیم چینجر‘ قرار دیا۔ مسلمان سائنسدان ’جکسیری‘ کے نام سے منسوب کمپنی دو ہفتوں میں رجسٹر ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک بروقت اقدام ہے اور اسٹیک ہولڈرز کو اس منصوبے کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ یہ جلد ازجلد کامیاب ہو۔

پاکستانی ماہرین نے ملک کی آٹو انڈسٹری کو مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں تک محدود کرنے کے ہندوستان کے فیصلے کو سراہا ہے۔ ہندوستان میں صرف ہندوستانی سفیر کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس پالیسی نے ہندوستان کو اپنے آٹو سیکٹر کو مقامی بنانے میں مدد کی۔ دوسری طرف پاکستان کی آٹو انڈسٹری مناسب پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی میں بے حد جدوجہد کر رہی ہے فاقہ زدہ قوم کو کاریں فراہم کرنے کے لیے انہیں آٹو پارٹس کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔

اگرچہ کار کو ڈیزائن تو کر لیا گیا ہے اور ماڈل کار تیار ہے، لیکن بڑے پیمانے پر پیداوار کے لیے مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانے کا چیلنج ابھی باقی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کچھ نئے اور آنے والے کاروباری افراد آگے آئیں اور پاکستان میں سستی الیکٹرک کار تیار کرنے کے خواب کو حقیقت میں بدل دیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آج سونے کی قیمت کیا رہی؟ جانیے
وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی ترقی اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے پُرعزم ہے، وزیراعظم
کے الیکٹرک کی نالائقی و عدم دلچسپی؛ کراچی میں فراہمی آب کے نظام کا بیڑا غرق
’’کشمیر کی آزادی ناگزیر، دنیا جانتی ہے بھارت میں مسلمانوں کیساتھ کیا ہورہا ہے‘‘
صارفین کیلئے بڑی خبر؛ کیا واٹس ایپ جلد ایپل واچ پر دستیاب ہوگا؟
سوشل میڈیا پر وائرل سعودی عرب کا ’اسکائی اسٹیڈیم‘ اے آئی کی کارستانی نکلا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر