Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

تارڑ سے زندگی، موت اور محبت کے بارے میں گفتگو

Now Reading:

تارڑ سے زندگی، موت اور محبت کے بارے میں گفتگو

مستنصر حسین تارڑ ایک سفرنامہ نگار اور ان کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جن کی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ان کا تازہ ترین ناول ’’خاص و خاشق زمانے‘‘ کو خوب پذیرائی ملی ہے۔ ادبی شخصیت کا بول نیوز پر خصوصی انٹرویو

س

آپ ان دنوں کیا پڑھ رہے ہیں؟

مستنصر حسين تارڑ : عام طور پر میرے پاس درجنوں کتابیں پڑی ہوتی ہیں، لیکن میں ان کتابوں کو پڑھنے کا انتخاب کرتا ہوں جو پڑھنے کے قابل ہوں یا اگر کسی نے کوئی خاص عنوان تجویز کیا ہو۔ آج کل، میں آئس لینڈ کے واحد نوبل انعام یافتہ ہالڈورلیکسنس کی کتاب ’آزاد لوگ‘ پڑھ رہا ہوں۔ اس کے علاوہ میں ورجینیا وولف کی ‘دی وائج آؤٹ، اور ماریو ورگاس لوسا کی دی وار آف دی اینڈ آف دی ورلڈ  اور ابن وراق کی وارجن، واٹ از ورجن  بھی پڑھ رہا ہوں اگر مجھے کوئی خاص مصنف پسند ہے تو میں اس کی تمام تخلیقات کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

جوز سراماگو اور اورہان پاموک ایسے مصنف ہیں جو مجھے پڑھنے کی جانب راغب کرتے ہیں۔

Advertisement

ان میں ایک مصنف ہاروکی مراکامی بھی شامل ہیں، جن کی تازہ ترین کتاب 1Q84  بھی مجھے پڑھنے کی اپنی پسندیدہ عادتوں میں سے ایک میں مصروف رکھتی ہے۔ مجھے امیتاو گھوش کی طرز تحریر میں بھی دلچسپی ہے کیونکہ وہ ناول کی شکل کو شاندار طریقے سے بیان کرنےکے لیے جانے جاتے ہیں۔

شاعری کے حوالے سے امیر مینائی کی ’کلیات‘ اور ’دی ایسنشل رومی‘ جن کا کولمین بارکس نے ترجمہ کیا ہے، میں ان میں خاصی دلچسپی رکھتا ہوں۔

س

وہ کونسی کتاب ہے جسے  آپ دوبارہ پڑھنے کا کیا ارادہ کر رہے ہیں؟

 مستنصر حسين تارڑ : میں سی شوناگن کی تحریر کئی گئی دی پیلو بک جو جاپان کے ہیان میں 990 کی دہائی اور 11ویں صدی کے اوائل کے دوران ریکارڈ کیے گئے مشاہدات اور موسیقی کی کتاب ہے پڑھنا چاہتا ہوں اور ساتھ ہیں فرازر کی دی گولڈن بوہ بھی۔

Advertisement

س

وہ کون سی کتاب/مصنف ہے جو آپ کے خیال میں سب کو پڑھنے چاہیے اور کیوں؟

مستنصر حسين تارڑ : میں فرید الدین عطار کی ’منطق الطیر‘ تجویز کروں گا، جسے میں نے ’پرندوں کی کانفرنس‘ کے عنوان سے ترجمہ میں پڑھا ہے۔ اس کا میری تخلیقی صلاحیتوں پر بہت اثر ہوا ہے، اور اس نے میرے طرز اسلوب کو متاثر کیا ہے خاص طور پر میرے ناول خاص و خاشق زمانے کو۔

س

 وہ کون سی کتاب ہے جسے آپ نے پڑھنا شروع کیا لیکن ختم نہ کر سکے؟

Advertisement

مستنصر حسين تارڑ : میں جتنی بھی کتابیں خریدتا ہوں، میں ان کو پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ میں نے انہیں محنت کی کمائی خرچ کر کے خریدا ہے۔ تاہم، میں جیمز جوائس کی یولیسس کو ختم نہیں کر سکا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹائم میگزین نے اسے صدی کا ناول قرار دیا تھا۔

س

آپ کی بچپن کی پسندیدہ کتاب یا کہانی کون سی ہے؟

مستنصر حسين تارڑ : بچپن میں میں نوجوانوں کے بہت سے رسالے پڑھا کرتا تھا۔ جب ایک ماہ میں 25 رسالے چھپتے تھے۔ جنات اور پریوں کے بارے میں کتابیں عموماً سرکلر روڈ پر واقع دکان پر دستیاب ہوتی تھیں۔ میں مزاحیہ کتاب کا شوقین بھی تھا۔دی لون رینجر اورٹارزن کچھ مزاحیہ کردار ہیں جن کے بارے میں مجھے پڑھنا پسند تھا۔

س

Advertisement

 آپ کے پلنگ کے متصل میز پر کون سی کتابیں موجود ہیں؟

مستنصر حسين تارڑ : وحید احمد کی ’مندری والا‘ اور ٹونی موریسن کی ’بیلوڈ‘۔ اس کے علاوہ، میرے پلنگ کے متصل میز پر آپ کو کچھ اور کتابیں بھی ملیں گی، جو نسبتاً غیر معروف مصنفین کی لکھی ہوئی ہیں، جیسے کہ ویوین گورنک کی ’دی اینڈ آف دی ناول آف لو‘ اور نورالدین فرح کی ’گفٹ‘ ۔

س

 کیا آپ کو اپنی زندگی میں کوئی پچھتاوا ہے؟

مستنصر حسين تارڑ : جی ہاں! میں ایک اچھا انسان نہیں بن سکا۔ دراصل، بہت کم لوگ تکمیل کی منزل تک پہنچتے ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ میں اب تک کی زندگی میں اپنی تمام کمزوریوں کو دور نہیں کر سکا۔

Advertisement

س

خدا کے ساتھ آپ کا رشتہ کیسا ہے؟

مستنصر حسين تارڑ : جیسا کہ بابا فرید نے کہا ہے کہ ماضی بہت دور جا چکا ہے جبکہ مستقبل قریب آ گیا ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ میرا مستقبل بہت قریب ہے۔

س

 تو اس پورے سفر میں آپ نے زندگی کے بارے میں کیا سمجھا؟

Advertisement

مستنصر حسين تارڑ : میں اسے سمجھ نہیں سکا۔ اور یہ صرف میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ بابا بلھے شاہ زندگی کی معنویت کے حصول کے سفر میں انتقال کر گئے۔ اور میں بلھے شاہ کو اب تک کے عظیم اور بہترین انسانوں میں سے ایک سمجھتا ہوں۔ جب زندگی ان جیسے شاندار انسانوں پر اپنی حقیقت سے پردہ نہ اٹھا سکی تومیں اس نیک ساعت سے کیسے فیض یاب ہوسکتا ہوں؟

س

 آپ محبت کی تعریف کیسے کرتے ہیں؟

مستنصر حسين تارڑ : پیار زندگی ہے. میں ہر وقت محبت کے امرت میں رہتا ہوں! مجھے ہمیشہ شمالی علاقوں میں جانے کی دھن سوار رہتی ہے۔ ہمارے ملک کے اس خطے کے بارے میں میں نے 15 کتابیں لکھی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ دنیا بھر سے لوگ میری کتابیں پڑھ کر پاکستان کے  شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں ایک جھیل ہے جسے مقامی لوگوں نے میرے نام پر رکھا ہے۔ اسے ’تارڑ جھیل‘ کہا جاتا ہے۔ تو یہ بھی محبت کا ایک اور انداز ہے۔

Advertisement

س

 مستنصر حسین تارڑ کے نزدیک نفرت کیا ہے؟

مستنصر حسين تارڑ : میرا ماننا ہے کہ خدا کی مخلوق کے درمیان نفرت اور تکلیف پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

س: موت آپ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

مستنصر حسين تارڑ : خیر یہ توقف یا مختصر ٹہراؤ ہے اور لوگ یہی کہتے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے میری تحریروں پر پی ایچ ڈی کیا، اور میری تحریروں کا خلاصہ ان تین مختلف عناصر میں کیا: پانی، پرندے اور موت۔ جب میں زندگی کے مختلف مراحل سے گرز رہا تھا تو موت نے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کی ہے۔اور ایک بات بتاتا ہوں کہ پہاڑوں پر جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ موت ہر چیز میں خوبصورتی کا اضافہ کرتی ہے۔ اگر کوئی اختتام نہیں ہے تو کوئی آغاز کی قدر دانی اور تعریف کیسے کرسکتا ہے۔ اگر موت کو زندگی سے متعارف نہ کروایا جاتا تو ہر چیز اتنی ہی معمولی اور عام سی محسوس ہوتی۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
افغان سفیر کی دفتر خارجہ طلبی ، بھارت افغانستان مشترکہ اعلامیے پر شدید تحفظات کا اظہار
خواتین صحافیوں کی توہین، افغان وزیر خارجہ کا دورہ مودی سرکار کے گلے پڑ گیا
شمالی کوریا کی فوجی پریڈ، نئے بین البرِاعظمی میزائل 'ہواسونگ-20' کی نمائش
دنیا سے ناپید ہونے والے پرندے کے نایاب ’’ پر‘‘ کی حیران کن قیمت، نیلام کر دیا گیا
کوالالمپور:سلطان آف جوہر ہاکی کپ، پاکستان نے ملائشیا کو 2-7 سے ہرا دیا
اگر افغانستان سے دراندازی بند نہ ہوئی تو مزید بگاڑ پیدا ہو گا ، خواجہ آصف
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر