کراچی: مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود اسکول ’’غیر قانونی ہتھکنڈوں‘‘کے ذریعے پیسے بٹورنے میں مصروف ہیں
نظام میں پہلے سے موجود خامیوں کے علاوہ، تعلیمی اخراجات اور اسکول کے لوازمات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے پیشِ نظر مہنگائی حصولِ تعلیم کی راہ میں ایک روز افزوں خطرہ ہے۔
نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی ہر شے کی قیمتوں میں اضافے نے اسکول جانے والے بچوں کے والدین کے لیے مسائل کی بھرمار کر دی ہے۔
یہاں تک کہ نصابی کتب اور ٹیوشن فیس کے ساتھ ساتھ اسکول یونیفارم اور جوتوں کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسکولوں کی انتظامیہ والدین کو نصابی کتب، اسکول مونو گرام والی کاپیاں، یونیفارم اور موزے بھی دگنی قیمتوں پر خریدنے کے لیے مجبور کر رہی ہیں اور انہیں بازاروں سے یہ اشیاء کم قیمت پر خریدنے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ 23 اگست کو آل سندھ پیرنٹس ایسوسی ایشن اور پیرنٹس اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے والدین اور طلبا پر کیے جانے والے “معاشی مظالم” کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے نجی تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹوریٹ آف انسپکشن اینڈ رجسٹریشن سندھ کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جبکہ ڈائریکٹوریٹ کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں 26 مطالبات اور 3 تجاویز پیش کیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود تقریباً تمام اسکول نئے بہانوں اور غیرقانونی ہتھکنڈوں” سے والدین کا معاشی استحصال کرنے میں مصروف ہیں۔
احتجاج میں شریک والدین نے شکایت کی کہ اسکول انتظامیہ “زبردستی” بچوں کو کاپیاں اور کتابیں بازار سے چار گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرتی ہیں اور اُنہیں اسکول کی سفارش کردہ دکانوں سے یونیفارم اور موزے خریدنے کا بھی پابند کرتی ہیں۔ والدین نے انتظامیہ پر اسکول میں ایئر کنڈیشنر نصب کرنے کی مد میں غیرقانونی طور پر فیس بڑھانے کا الزام بھی لگایا۔
کبھی وہ اورنج ڈے اور یلو ڈے منانے کے لیے پیسے مانگتے ہیں، کبھی کسی موقع اور تقریبات کے نام پر جو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ اسٹیشنری کے سالانہ اخراجات وصول کرنے کے باوجود وہ مختلف سرگرمیوں کے لیے پیسے مانگتے رہتے ہیں۔” احتجاج میں شامل والدین میں سے ایک نے اس حقیقت پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ جو بچے ادائیگی کرنے سے انکار کرتے ہیں انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں عام طور پر “زیادتی” کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
آل سندھ پیرنٹس ایسوسی ایشن اور پیرنٹس اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے حکومت اور ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں تعلیم کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ انہوں نے نجی تعلیمی اداروں کی پشت پناہی کرنے والے اِن ذمے داران کو اصل مجرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ نگران ادارے ان تمام مظالم سے غافل ہیں۔
ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ‘معاشی دہشت گردی’ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ، تمام بورڈ کے سرکاری اسکولوں کا معیار اس حد تک بہتر بنایا جائے کہ والدین خوش دلی سے اپنے بچوں کو ان میں جانے کی اجازت دیں، کیونکہ یہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔” سندھ پیرنٹس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل حمود الرب نے بول نیوز کو بتایا۔
پاسبانِ پاکستان کے چیئرمین الطاف شکور نے بھی والدین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور تعلیم کو عام کرنا پاسبان کے منشور کا حصہ ہے۔ “یہ بدقسمتی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا کوئی وجود نہیں اور والدین اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ لوٹ مار عروج پر ہے اور تعلیم اب منشیات کی فروخت سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “داخلہ فیس، سکیورٹی ڈپازٹ اور دیگر بہت کچھ کے نام پر غریب والدین سے پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ بے روزگاری ہے، پٹرول کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے، بجلی اور گیس کے بڑے بڑے بل ادا کرنے پڑ رہے ہیں اور لوگ اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہے۔ ایسے وقت میں قلم چھینا جا رہا ہے جو کہ ناقابل تلافی جرم ہے۔ نہ صرف ان تعلیمی اداروں کے خلاف بلکہ ان سرکاری اہلکاروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے جو اس گھناؤنے کاروبار میں شامل ہیں اور اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔”
موجودہ دور میں تعلیمی اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہوئے اسٹوڈنٹ پیرنٹس ایسوسی ایشن کی سینیئر نائب صدر حمیرا خان نے کہا کہ بچے کے تعلیمی اخراجات کا حساب کتاب کرتے ہوئے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ والدین کو کتابوں، بیگز، اسکول کی فیس اور پھر ٹیوشن فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔
اچھے اسکولوں کی کمی کی وجہ سے، والدین اپنے بچوں کو گھر سے دور اچھے اسکولوں میں بھیجتے ہیں جس سے پٹرول کی قیمت بلند ترین سطح پر ہونے کے باعث آمد و رفت کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو کچھ ریلیف دینے کے بجائے نجی اسکولوں کی جانب سے غیر ضروری طور پر جو بھی مطالبہ کیا جاتا ہے وہ پورا کرنے پر مجبور کرکے ان پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے اور حکومتی نمائندے خاموش ہیں۔”
تمام بچوں، خاص طور پر سب سے محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی اسکول میں حاضری، قیام اور تعلیم کو یقینی بنانے میں پاکستان کو ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے بچے کبھی اسکول نہیں گئے تھے جبکہ تقریباً 7 فیصد نے داخلہ لے کر چھوڑ دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق پرائمری سطح پر تقریباً 77 لاکھ لڑکے اور 86 لاکھ لڑکیاں داخلہ لیتی ہیں جو لوئر سیکنڈری سطح تک کم ہو کر 36 لاکھ لڑکے اور 28 لاکھ لڑکیاں رہ جاتی ہیں۔ ایسے میں والدین پر اضافی بوجھ ڈالنا نامناسب ہے جو بمشکل اسکول کی فیسوں کا انتظام کر سکتے ہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی سہیل احمد جو گھر سے دور رہ کر اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اس نظام سے بہت ناخوش ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ طلبا کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ آہستہ آہستہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔
ہم قانونی حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ جرم اسکولوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں یا ہم والدین کا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم اس بات سے اتفاق کریں کہ تعلیم اب ایک کاروبار ہے، اس کے باوجود اسے قانون کا پابند ہونے کی ضرورت ہے اور ان اداروں کو بے لگام نہ ہونے دیں۔”
پرائیویٹ اسکولوں کی من مانیوں اور ڈائریکٹوریٹ کی سرپرستی کے الزامات کے جواب کے لیے رابطہ کرنے پر ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز سندھ کی رجسٹرار رفیعہ ملاح نے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ اگر کوئی گروپ یا والدین ہمارے پاس شکایت لے کر آتے ہیں تو اسے فوری طور پر دیکھا اور حل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے نجی اسکولوں کی انتظامیہ اور ڈائریکٹوریٹ کی کسی ملی بھگت کے امکان کی سختی سے مخالفت کی اور یہ بھی کہا کہ الزام لگانے والوں کو پہلے الزام کی نوعیت کو دیکھنا چاہیے اور ثبوت کی فراہمی میں ناکامی کے بعد انہیں کوئی منطق پیش کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈائریکٹوریٹ کو گزشتہ سال 180 درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں سے 140 پر غور کیا جا چکا ہے جبکہ 40 پر کارروائی جاری ہے۔
اسکولوں کی فیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے رفیعہ ملاح نے کہا کہ اس سے قبل اسکولوں کو رجسٹریشن پر جاری ہونے والے سرٹیفکیٹ میں فیس کا ذکر نہیں تھا جس کی وجہ سے اسکولوں کی جانب سے من مانی فیسیں وصول کرنا ممکن تھا لیکن اب یہ امکان ختم کر دیا گیا ہے۔
اب جاری کردہ سرٹیفکیٹ میں فیس کا ڈھانچہ بتایا جاتا ہے۔ والدین کی رہنمائی کے لیے یہ سرٹیفکیٹ ظاہر کرنا تمام اسکولوں کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر اسکول سرٹیفکیٹ ظاہر نہیں کرتا تو والدین کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ انہیں فیس کا منظور شدہ ڈھانچہ دکھایا جائے۔
رفیعہ ملاح نے مزید کہا کہ سرکلر جاری کیا گیا تھا کہ اسکولوں کو طلبا کو ان سے اسٹیشنری اور اس طرح کی دیگر اشیاء خریدنے پر مجبور کرنے سے باز رکھا جائے۔ اِس بات کو یقینی بنایا ہے تاہم چند اسکول ایسے ہوسکتے ہیں جو اس کی خلاف ورزی کر رہے ہوں۔ اُن کا کہنا تھا، “کوئی شکایت موصول ہونے پر اسکول انتظامیہ کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔”
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News