پاکستان کا دوسرا بڑا شہر اور پنجاب کا صوبائی دارالحکومت لاہور 17 سال بعد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے استقبال کے لیے تیار ہے۔ انگلش ٹیم نے لاہور میں آخری بار دسمبر 2005ء میں کھیلا تھا۔ بعد ازاں مارچ 2009ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے یہاں دونوں فریقوں کے درمیان کرکٹ کا کوئی دوسرا میچ نہیں ہوا۔
کالج کا طالب علم اور کرکٹ کا شوقین خالد بہت خوش اور پرجوش ہے کیونکہ اس نے اپنے کزنز کے ساتھ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ٹی ٹوئنٹی میچ میں انگلینڈ کو پاکستان کے خلاف کھیلتے ہوئے دیکھنے کے لیے آٹھ ٹکٹیں خریدی ہیں۔ خالد نے بول نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “میں اس لمحے کا ایک عرصے سے انتظار کر رہا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ میرا خواب پورا ہو گیا ہے، اور اب میں لاہور میں کرکٹ کی دو بڑی ٹیموں کو آمنے سامنے دیکھنے کا بے صبری سے منتظر ہوں ۔”
خالد کا کہنا ہے کہ میں نے لاہور سے باہر رہنے والے اپنے کزنز کو میچ دیکھنے کی دعوت دی ہے۔ “میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ میں کتنا خوش ہوں کیونکہ اب قذافی اسٹیڈیم میں شیڈول آخری تینوں میچوں کے ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں”۔ مہمان ٹیم پاکستان کے ساتھ 7 میچوں کی T-20 سیریز کھیلے گی۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ہمیں برسوں تک اس طرح کھیلوں کی سرگرمیوں کے انعقاد سے روکا گیا ۔ انہوں نے امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت سیکیورٹی خدمات کو سراہا۔
تفصیلات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قذافی اسٹیڈیم کے اطراف کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے جہاں 28 ستمبر سے انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان تین ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے جائیں گے۔ مال روڈ، کینال روڈ اور ہوٹل سے سٹیڈیم تک تمام ملحقہ سڑکوں پر دونوں ٹیموں کے کرکٹرز کے بڑے پورٹریٹ اور بینرز آویزاں ہیں۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسٹیڈیم کے اطراف میں معمول کی کاروباری سرگرمیاں بند کردی گئی ہیں۔ ہوٹل، اسٹیڈیم اور راستے کے ارد گرد وردی اور سادہ کپڑوں میں سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔
رکشہ ڈرائیور ماجد بہت خوش ہیں کیونکہ انگلینڈ کی ٹیم کی پاکستان آمد کے بعد ان کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں میچوں کا پہلا مرحلہ کھیلنے کے بعد، دونوں ٹیمیں بقیہ میچز کھیلنے کے لیے لاہور آئیں گی جس سے میٹروپولیٹن شہر میں ہلچل نے پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والے لوگوں کو روزگار میں اضافے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
ماجد کے مطابق مختلف شہروں سے ہزاروں لوگ شرٹس، جھنڈے اور بیجز خریدنے کے لیے شاپنگ مالز اور دیگر بازاروں کا رخ کر رہے ہیں اور وہ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا، “پاکستان میں کرکٹ کی واپسی سے ان جیسے لوگوں کی مدد ہو رہی ہے اور اگر مستقبل میں مزید بین الاقوامی کرکٹ مقابلے ہوتے ہیں تو یہ ان کے اور دوسرے رکشہ سواروں کے لیے اچھی بات ہو گی۔”
فرزانہ، جو کہ ایک سرکاری کالج میں پڑھاتی ہیں، اپنے کالج تک پہنچنے کے لیے روزانہ کینال روڈ پر سفر کرتی ہیں۔ وہ برسوں کے وقفے کے بعد عالمی معیار کی ٹیموں کو پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے دیکھ کر خوش تو ہیں لیکن ساتھ ہی وہ میچوں کے دوران متبادل راستوں کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہونے سے بھی پریشان ہیں۔
’’میں ان میچوں کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی توقع رکھتی ہوں کیونکہ کینال روڈ مسافروں کے لیے پریشان کن جگہ بن گئی ہے اور ٹریفک گھنٹوں پھنسا رہتا ہے۔”
دوسری جانب پولیس کھلاڑیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ ایک سینئر پولیس اہلکار نے بتایا، “ایک چھوٹی سی خامی بھی ہمیں بہت مہنگی پڑ سکتی ہے لہذا لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔” انہوں نے کہا کہ میچوں کے دوران مسافروں کی پریشانی سے پاک نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع متبادل ٹریفک پلان وضع کیا گیا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News