انڈس اسپتال کی تعمیر واقعی ایک متاثر کن کہانی ہے۔ پاکستان میں مفت صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے اور بغیر کسی کیش کاؤنٹر کے ایک جنرل اسپتال کا خیال اسپتال کے بانی سی ای او پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان نے 1987ء میں پیش کیا تھا۔ ڈاکٹر باری، اس وقت سول اسپتال میں ہائوس جاب کررہے تھے جب 14 جولائی 1987ء کو صدر کے بوہری بازار میں کار بم دھماکے میں 72 افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوئے تھے۔ اس روز ایمرجنسی وارڈ میں لاشوں اور زخمیوں کو آتے دیکھ کر وہ بہت دکھی ہوئے تھے۔
اس بے بسی کے عالم میں، انھوں نے سوچا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنے اور بغیر کسی قیمت کے غیر معمولی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے ایک اسپتال بنا سکتے ہیں۔ “سرکاری طبی نظام میں کام کرتے ہوئے، میری زیادہ تر توانائی غلط سمت میں جا رہی تھی، اور زندگی بہت مختصر ہے۔ تو میں نے کہا، ‘آئو ایک ایسا اسپتال بنائیں جہاں ہماری توانائیوں کا بہتر استعمال ہو،’ انہوں نے کہا۔
ان کے ذہن میں یہ خیال اس وقت ابھراجب انھوں نے بم دھماکے کے بعد ایمرجنسی وارڈ کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد کو ہجوم کی شکل میں کھڑے دیکھا۔ لوگ خاص طور پر خون کا عطیہ دینے اسپتال پہنچے تھے، وہ زخمی مریضوں کے لیے ادویات، بسکٹ، جوس اور پھل خریدنے کے لیے ہاتھوں میں نقدی بھی لیے ہوئے تھے ۔ ایسی صورت حال میں جب بے ساختہ امدادی کوششیں تیز ہو سکتی ہیں تو وہ مفت اسپتال چلانے کے اپنے خواب کو بھی حقیقت میں بدل سکتے ہیں، انھوں نے سوچا اور اس کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی۔
ڈاکٹر باری کے والد ایک متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور انہوں نے ہی سب سے پہلے ان میں انسان دوستی کا جذبہ پیدا کیا تھا۔ یہ جذبہ اس وقت پروان چڑھا جب وہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے طالب علم تھے، جہاں انہوں نے ہر قسم کے مریضوں، جوان، بوڑھے اور بچوں کو دیکھا جو عسرت زدہ پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے بعض کو اپنے قریبی عزیزوں کے علاج کے لیے اپنا سب کچھ بیچنا پڑا تھا۔
بوہری بازار میں پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صورتحال اتنی گمبھیر تھی کہ جب میں نے ایک پشتون کو جو سول اسپتال میں زچگی کے آپریشن کے لیے اپنی اہلیہ کو داخل کروانے آئے تھے ، کہا کہ اپنی بیوی کو خون دیں تو اس نے حیرت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے سے میری بیوی میری بہن بن جائے گی! حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے والد بھی ایسے ہی خیالات رکھتے تھے۔ آخرکار ڈاکٹر باری کو اس کے لیے خون کا بندوبست کرنا پڑا۔ مختصر یہ کہ صحت کی دیکھ بھال کو بھی ذہنیت کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
انڈس اسپتال، جواپنی نوعیت کا واحد صحت کی دیکھ بھال کی سہولت فراہم کرنے والا اسپتال ہے، کی تعمیر کے حوالے سے انہوں نے بول نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ سول اسپتال میں ہونے والے تکلیف دہ تجربات کے اثرات سے نجات ملتے ہی انہوں نے ملک کے نامور ماہر تعمیرات ارشد عبداللہ سے رابطہ کیا اور اپنا منصوبہ ان سے شیئر کیا۔ ارشد عبداللہ نے بلاتردد ان کی مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور 100 بستروں پر مشتمل ایمرجنسی اسپتال کا منصوبہ پیش کیا جس پر 36 لاکھ روپے کی لاگت آتی۔
اس منصوبے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے، ڈاکٹر باری نے پہلے اسکول کے بچوں کو شامل کرنے کے بارے میں سوچا۔ انھوں نے اپنے اپنے ایک دوست سے پوچھا جن کی پلاسٹک کی بوتلیں بنانے والی کمپنی ہے۔ا س دوست نے ڈاکٹر باری کو تقریباً ایک لاکھ بوتلیں دیں جنہیں انھوں نے گلک میں تبدیل کرکے شہر کے مختلف اسکولوں میں تقسیم کردیا۔ وہ اسکولوں سے تین لاکھ روپے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بیشتر رقم سکوں میں تھی جسے بولٹن مارکیٹ سے روپوں میں تبدیل کرایا گیا۔ اکیلے سٹی اسکول سے124000 روپے اکٹھے ہوئے تھے۔
اگرچہ اب تک اکٹھے کیے گئے فنڈز اس منصوبے کو شروع کرنے کے لیے بھی کافی نہیں تھے، لیکن انھیں یقین تھا کہ وہ اللہ کی مدد سے اپنے وژن کو حاصل کرنے کے لیے کافی فنڈز پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کا یہی ایمان تھا کہ انھوں نے ٹھیکیداروں سے رابطہ کیا اور تعمیراتی کام شروع کیا۔ انھوں نے ٹھیکیداروں سے ادائیگیوں کے بل جمع کرانے کی بھی درخواست کی۔
ڈاکٹر باری نے جذباتی انداز میں کہا کہ میرے والد تہجد میں صرف یہ دعا کرنے کے لیے اٹھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بیٹے کو انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ انھوں نے کبھی کسی اور چیز کے لیے دعا نہیں کی۔ اور ان کی دعائیں قبول ہوئیں۔ اس لیے میں نے تمام تر مشکلات کے باوجود اس اسپتال کے لیے کام جاری رکھا جو میرا خواب تھا۔’10000 روپے کے ابتدائی بل کے ساتھ‘ میں اپنے ایک دوست کے پاس گیا جو تھائی لینڈ میں رہتا تھا اور ایک مختصر دورے پر کراچی آیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اسپتال کی تعمیر میں ہماری مدد کرے گا اور اس نے تعمیری لاگت برداشت کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ مجھے مطلوبہ فنڈز دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اسپتال بنانا میرے لیے شاید کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن اسپتال چلانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ میں نے جواب دیا’مجھے اللہ پر بھروسہ ہے‘۔ اس بات پر اس نے خاموشی سے میری طرف دیکھا۔
جس عمارت میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے فخریہ انداز میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آخرکار پہلا اسپتال بنایا گیا اور پہلے سال کے آپریشنل اخراجات ایک ارب روپے تھے اور اب 43 ارب روپے ہیں۔ ’’میں اپنے والد کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ پر اپنے بے پناہ بھروسے کی وجہ سے ایسا کر پایا۔‘‘ انہوں نے انڈس اسپتال میں فراہم کی جانے والی خدمات پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا۔
ڈاؤ میڈیکل کالج میں گزرے اپنے اچھے دنوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، “سول اسپتال میں صحت کی دیکھ بھال کے خراب انتظامات اور غریب مریضوں کی حالت نے مجھے ہمیشہ پریشان کیا اور اسی طرح میں نے دوسرے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر پیشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن (PWA) کی بنیاد رکھی۔ ہم نے اپنے پروفیسر کے کمرے میں رکھی ہوئی الماریوں میں سے ایک الماری کو دوائیں اور دیگر اشیاء رکھنے کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔ یہی نہیں، منشیات کے عای افراد جو نشے کے لیے رقم حاصل کرنے کی غرض سے ہفتے میں دو بار خون دیتے تھے، ان کے حوالے سے مجھے بہت تحفظات تھے کیوں کہ ان کے خون میں ہیموگلوبین کے علاوہ سب کچھ تھا۔ چنانچہ ہم نے ایک بلڈ بینک کا بھی آغاز کردیا۔
ڈاکٹر باری کا خیال ہے کہ جب خیرات دینے کی بات آتی ہے تو پاکستان ایک فیاض ملک ہے، اور یہ اپنی جی ڈی پی کا ایک فیصد سے زیادہ خیرات میں دیتا ہے۔ وہ صرف یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ان کے پیسے کا غلط استعمال نہیں ہوگا۔ اور اس طرح اب وہ نہ صرف 45 ارب روپے سے زائد کے سالانہ آپریٹنگ اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو چکے ہیں بلکہ اب وہ انڈس اسپتال کے موجودہ احاطے کی توسیع کے لیے 50 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر ماہ 450000 سے زائد مریض اس نیٹ ورک سے مستفید ہوتے ہیں۔ کورنگی کیمپس میں روزانہ اوسطاً 2500 سے زائد مریض آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ اور ایمرجنسی روم میں آتے ہیں، جب کہ تقریباً 250 کیسز میں مریضوں کو اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسپتال میں بستروں کی گنجائش محدود ہے، جبکہ باقی مریضوں کو دیگر اسپتالوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کافی عطیہ دہندگان کی فنڈنگ نے اسپتال کی تیز رفتار ترقی کو سہارا دیا اور بانیوں کے ایمان کو اس قدر تقویت بخشی کہ اب ایک میڈیکل کالج، ایک نرسنگ اسکول، اور کلینکل ریسرچ کی سہولت، جو کہ بنیادی دیکھ بھال سے منسلک ہیں، پر کام جاری ہے۔
ڈاکٹر باری نے کہا، ’’جب کوئی شخص بغیر کسی ذاتی مفاد کے اچھا کام کرتا ہے تو اسے اس کے مقام، حیثیت یا عقیدے سے قطع نظر عالمگیر پہچان ملتی ہے۔ لہٰذا انہیں پنجاب اور سندھ دونوں حکومتوں کی حمایت بھی حاصل ہوئی اور اب وہ اپنی شرائط پر ان دونوں صوبوں میں کئی سرکاری اسپتالوں کا انتظام کر رہے ہیں ۔
صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں نجی شعبے کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “جبکہ صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی بنیادی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے، انڈس اسپتال کا خیال ہے کہ ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے چیلنجز اتنے گمبھیر اور پیچیدہ ہیں کہ کوئی ایک ادارہ صحت کی دیکھ بھال فراہم نہیں کر سکتا۔ پچھلی ایک دہائی یا اس سے زیادہ کے دوران، صحت سمیت مختلف سماجی شعبوں میں ہونے والی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ نے انڈس اسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک کے لیے حکومت کے ساتھ کام کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ اس طرح کی شراکت داریوں نے ہمیں تکنیکی مہارتوں کو یکجا کرنے کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر، سول سوسائٹی اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے فنانسنگ حاصل کرنے کے قابل بھی بنایا کہ وہ لوگوں کی خدمت کے دائرے کو وسیع کرنے میں ہماری مدد کریں۔
انڈس اسپتال کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “ہم اگلے تین سالوں میں ’’ hub and spoke ‘‘ ماڈل پر مبنی 200 کلینک قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس منصوبے میں کنٹینر کلینک، موبائل بس کلینک، بوٹ کلینک، فکسڈ کلینک، اور ٹیلی ہیلتھ سینٹرز کا قیام شامل ہے۔ فی الحال، IHHN کیمپسز میں فیملی میڈیسن کلینکس کے علاوہ سندھ میں 11 اور پنجاب، کشمیر اور گلگت بلتستان میں 6 فعال سائٹس ہیں۔ فکسڈ سہولیات 18، کنٹینر کلینک 05 (دو رکے ہوئے ہیں)، موبائل میڈیکل بس 01، بوٹ کلینک 01 اور ٹیلی ہیلتھ کلینک 06 ہیں۔ سال کے دوران، بابا بھٹ آئی لینڈ اور شاہ جمال جیسے قابل ذکر مقامات بھی اس منصوبے میں شامل کیے گئے۔ ٹیلی ہیلتھ اس پروگرام کا ایک اہم جزو ہے۔
حقیقت کا سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ 90 فیصد فنڈز پاکستان سے جمع ہوتے ہیں اور بیرون ملک مقیم پاکستانی صرف 10 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔ مزید یہ کہ زیادہ تر عطیہ دہندگان عام متوسط طبقے کے پاکستانی ہیں۔ دوسرے بڑے شراکت دار کارپوریٹ سیکٹر اور حکومت ہیں۔
انڈس اسپتال کے زیر ملکیت اور زیر انتظام موجودہ اسپتالوں میں شامل ہیں: دی انڈس اسپتال، کورنگی کیمپس کراچی، شیخ سعید میموریل کیمپس (SSMC)، کورنگی کراچی، الفقیر ٹرسٹ کیمپس، پی آئی بی کراچی، الغازی ٹرسٹ کیمپس، بھونگ رحیم یار خان، انڈس اسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک – کیو ایف، این ایس ٹی اور ایس ایم پی کیمپس، لاہور، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال بدین، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال بیدیاں روڈ لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال مناواں لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال رائیونڈ لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال۔ اسپتال سبزہ زار لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال، کاہنہ نو لاہور، ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز، ملتان اور رجب طیب اردگان اسپتال مظفر گڑھ۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News