راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) کے چیئرمین راجہ طارق محمود مرتضیٰ نے راولپنڈی رنگ روڈ اور کچچری چوک انٹر چینج کے منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، انہوں نے رواں برس کے اوائل میں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خاتمے کے بعد استعفیٰ واپس لینے کے بعد دوبارہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چارج سنبھال لیا ہے۔ راولپنڈی میں شہریوں کو درپیش مسائل پر انہوں نے بول نیوز سے خصوصی بات چیت کی ۔
س
عہدہ دوبارہ سنبھالنے کے بعد آپ کے ترجیحی منصوبے کون سے ہیں؟
راجہ طارق محمود مرتضی: سب سے پہلے تو راولپنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ کے مکمل ہونے کا طویل عرصے سےانتظار کیا جا رہا ہے۔ میں اس پروجیکٹ پر کام کو تیز کروں گا کیونکہ یہ راولپنڈی کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ ملک کے شمالی حصوں سے آنے اور جانے والی گاڑیوں اور کارگو ٹریفک کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس وقت تمام ٹریفک کو راولپنڈی سے یا تو دی مال روڈ یا پھر آئی جے پرنسپل روڈ اور اسلام آباد ہائی وے سے گزرنا پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم کچری چوک انٹر چینج پر کام شروع کرنے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبہ روزانہ چلنے والی تقریباً 1لاکھ30ہزار گاڑیوں کی ٹریفک کی ضرورت کو پورا کرے گا اور تیسرے نمبر پر نالہ لائی ایکسپریس وے منصوبہ ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے شہر کا نقشہ بدل جائے گا اور شہریوں کی زندگیوں میں انقلاب آ جائے گا۔
س
اندازا اس پر کتنی لاگت آئے اور ان کے مکمل ہونے کی حتمی تاریخ کیا ہے؟
راجہ طارق محمود مرتضی: جیسا کہ عمران خان نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے چند دنوں کے بعد ہی رنگ روڈ پروجیکٹ کا افتتاح کردیا تھا جب کہ دیگر دو منصوبے کچری چوک انٹر چینج اور نالہ لائی ایکسپریس وے پر جلد کام شروع ہو جائے گا اور امید ہے کہ ایک ماہ یا اس سے کچھ زائد عرصے میں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی دونوں منصوبوں کا افتتاح کریں گے۔ ڈی اے نے تمام کاغذی کارروائی مکمل کر لی ہے اور آئندہ چند دنوں میں ہم دلچسپی رکھنے والی پارٹیز سے بولیاں طلب کریں گے۔جی ٹی روڈ میں باتھ سے موٹر وے پر تھالیان انٹر چینج تک رنگ روڈ منصوبے پر 30 ارب روپے لاگت آئے گی۔
جہاں تک نالہ لئی منصوبے کا تعلق ہے، متعدد کراسنگ پر اوورہیڈ برجز کے نکالنے کے بعد اس کی لاگت میں 24 ارب روپے کی کمی آچکی ہے۔ کچری چوک انٹر چینج پر 4 ارب روپے لاگت آئے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں منصوبوں کی تکمیل کا متوقع وقت دو سال ہے۔
س
ٹریفک کے اژدھام اور پارکنگ کی جگہوں کے مسائل خاص طور پر اندرون شہر بازاروں میں سنگین ہیں۔آر ڈی اے ان کے ساتھ کیسے نمٹے گا کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان مسائل میں اضافہ ہورہا ہے؟
راجہ طارق محمود مرتضی: جی بالکل، ٹریفک کے اژدھام اور عوام کے لیے پارکنگ کی جگہ کی کمی کے سنگین مسائل ہیں۔ہم نے فوارہ چوک پر پارکنگ پلازہ کی توسیع کی منظوری دے دی ہے جو کہ اندرون شہر کے مرکزی بازاروں (مارکیٹوں) کا سنگم ہے۔ ہم ڈھانچے کی موجودہ تین منزلوں میں مزید تین منزلیں شامل کریں گے، جس سے پارکنگ کی گنجائش تقریباً 4ہزار گاڑیوں تک بڑھ جائے گی۔اس سے آمدنی کی پیداوار میں بھی مدد ملے گی۔
س
آپ نے آر ڈی اے کے شہری دائرہ اختیار میں چلنے والی غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف سخت کارروائی کی لیکن اتنی تاخیر سے کیوں؟
راجہ طارق محمود مرتضی: غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں یا تو تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن یا ڈسٹرکٹ کونسل کی شہری حدود میں کام کر رہی ہیں، اور میرے خیال میں ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)جیسا ایک مربوط ادارہ ہونا چاہیے۔اور جیسا کہ آر ڈی اے کے پاس ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے نمٹنے کی صلاحیت اور طریقہ کار ہے، اس لیے یہ کنٹرول ہمیں دیا جانا چاہیے۔ ہم نے اپنی ویب سائٹ سے ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی فہرست ہٹا دی ہے جو عوام کو خبردار کرنے کے لیے تصدیق کے عمل میں ہیں۔
س
راولپنڈی کی واٹر اینڈ سینی ٹیشن اتھارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے، آپ شہریوں کی بڑھتی ہوئی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
راجہ طارق محمود مرتضی: ہم خاص طور پر ان علاقوں میں پانی کی فراہمی کو بڑھانے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جہاں شدیدقلت پائی جاتی ہے۔ قلیل المدتی حل کے طور پر راول ڈیم سے راولپنڈی تک ایک نئی پائپ لائن بچھائی جارہی ہے جس کے لیے جائیکا (جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی) نے 2 ارب روپے کی گرانٹ دی تھی۔ہم وفاقی حکومت کی جانب سے اس کی منظوری کے منتظر ہیں۔اس منصوبے سے یومیہ 10 ملین گیلن پانی کا اضافہ ہو گا اور علاقے میں قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ہم راول ڈیم کے اسپل وے کے نیچے پانی کے تالاب بنانے کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ شدید بارشوں کے دوران پانی جمع کیا جا سکے اور بعد میں اسے شہر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔طویل المدتی حل ڈاڈوچہ ڈیم کی تعمیر ہے،جو یومیہ 36 سے 46 ملین گیلن پانی فراہم کرے گا اور ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگا۔یہ کم لاگت ہوگا کیونکہ زیرزمین پانی اوپر کھینچنے کے لیے پمپنگ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News