جون 1996ء کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ نے صوبے کے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کراچی کے ڈسٹرکٹ ایسٹ میں کالاچی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (سی سی ایچ ایس) کو 90 ایکڑ سرکاری زمین الاٹ کرنے کی سمری کی منظوری دی۔
سمری میں بتایا گیا کہ الاٹمنٹ کا مقصد صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبے سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو رہائشی پلاٹ فراہم کرنا تھا۔
نیشنل سیمنٹ انڈسٹریز کے زیر ملکیت 200 ایکڑ پلاٹ کا ایک حصہ بعد میں سی سی ایچ ایس کو منتقل کر دیا گیا، حالانکہ ایک اور نوٹیفکیشن کے ذریعے اس کا رقبہ کم کر کے 79 اعشاریہ 2 ایکڑ کر دیا گیا تھا۔
سی سی ایچ ایس نے جلد ہی زمین کو 200 مربع گز سے 600 مربع گز تک رہائشی پلاٹوں میں تبدیل کرتے ہوئے ذیلی تقسیم شروع کر دی۔
یہ معلوم نہیں کہ سندھ اسمبلی، ممبران قومی اسمبلی یا سینیٹ میں سے کوئی (جس کا تعلق سندھ سے ہے) سوسائٹی کا ممبر بنا اور وہاں انہوں نے کوئی رہائشی پلاٹ حاصل کیا یا نہیں۔
تاہم، کسی نہ کسی طرح محمد بخش کو سوسائٹی کے نظرثانی شدہ لے آؤٹ پلان میں نمبر 6 بلاک-اے پر مشتمل ایک کمرشل پلاٹ الاٹ کر دیا گیا جسے فیصل کنٹونمنٹ بورڈ نے نومبر 1999ء میں منظور کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پلاٹ کی پیمائش کسی راؤنڈ فگر کے بجائے عام طور پر کی گئی جیسا کہ ایسے پلاٹوں کی پیمائش 4 ہزار 840 مربع گز بتایا گیا تھا۔
جب محمد بخش پلاٹ پر قبضہ کرنے گیا تو وہاں 2000 مربع گز پر ایک پرائمری اسکول چل رہا تھا، جس کا مقدمہ انہوں نے 2009ء میں دائر کیا تھا۔
جب محمد بخش نے سوسائٹی کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو اسے یقین دلایا گیا کہ سوسائٹی کا ایک اور نظرثانی شدہ منصوبہ منظوری کے مراحل میں ہے اور جلد ہی اسکول کو اس مقصد کے لیے مختص ایک سہولتی پلاٹ پر منتقل کردیا جائے گا۔
سوسائٹی نے اپریل 2009ء میں سندھ کے وزیر تعلیم کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کی مینیجنگ کمیٹی نے پہلے سے موجود سرکاری اسکول کی عمارت میں اس مقصد کے لیے مختص سہولتی پلاٹ پر اضافی کمرے بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر تعلیم نے ایک حکم بھی پاس کیا جس میں سوسائٹی کو ہدایت کی گئی کہ وہ مدعی کے پلاٹ پر چلنے والے اسکول کے لیے اس کے منظور شدہ لے آؤٹ پلان کے مطابق متبادل پلاٹ فراہم کرے۔ وزیر تعلیم کے حکم سے اس وقت کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر (ای ڈی او) کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا۔ تاہم ای ڈی او نے حکم پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
محمد بخش جسے 2001ء میں پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا، انہوں نے مقدمے میں کہا کہ جب اس نے 2009ء میں اپنے پلاٹ کا دورہ کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس پر کچھ تعمیرات ہو رہی ہیں۔ اس نے جائے وقوعہ پر کام کرنے والے مزدور سے دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ مانک ماڈل اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے ٹھیکیدار نصیر ایسوسی ایٹس تعمیرات کر رہا ہے۔
جب کہ مقدمہ ابھی عدالت میں زیر التوا تھا، محمد بخش نے مئی 2021ء میں عزیر حنیف کو مقدمہ میں سندھ ہائی کورٹ(ایس ایچ سی) میں پیش ہونے کے لیے اپنا خصوصی وکیل بنایا۔ اس سے پہلے سوسائٹی 2018ء میں کنٹونمنٹ بورڈ کے لیے منظور شدہ اصل لے آؤٹ پلان میں دوسری نظر ثانی کرنے میں کامیاب ہوئی۔
عنقریب عدالت میں مدعی کی جانب سے متفرق درخواست دائر کی گئی کہ وہ سوسائٹی کے منظور شدہ بلڈنگ پلان کے مطابق اسکول کے لیے مختص پلاٹ پر اپنی لاگت اور اخراجات سے اسکول تعمیر کرنے کے لیے تیار ہے جسے محکمہ تعلیم کے حوالے کردیا جائے گا اور موجودہ اسکول کو نئی تعمیر شدہ عمارت میں منتقل کیا جائے گا۔
عدالت نے گزشتہ سال اکتوبر میں درخواست منظور کرتے ہوئے مدعی کو تعمیرات بڑھانے اور اسکول بنانے کی ہدایت کی تھی۔ مدعی نے حکم کی تعمیل میں تمام سہولیات کے ساتھ اسکول تعمیر کیا۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) ایلیمنٹری، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری ایسٹ کراچی نے اپنا ’کوئی اعتراض نہیں‘کیا اگر سوسائٹی اور مدعی کسی تجویز پر متفق ہوں اور تمام سہولیات کے ساتھ ایک نئی عمارت تعمیر کی جو مدعی پہلے ہی کر چکا تھا۔
حکام کے کے مطابق تعمیرات میں اضافے کے بعد سوسائٹی اور مدعی کی جانب سے جائیداد کے حوالے اور قبضے کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے عدالت کے نذیر کو مقرر کرنے کے لیے مشترکہ درخواست دائر کی گئی تھی جس کی اس سال مارچ میں اجازت دی گئی تھی۔
اور نذیر کو ڈی ای او کی موجودگی میں عمارت کو حوالے کرنے اور قبضہ کرنے کی مشق جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔
اسکول کی نئی عمارت کا قبضہ حکومت کے حوالے کرنے سے پہلے، قریبی شانتی نگر ڈالمیا کے کچھ رہائشیوں نے ایڈوکیٹ عثمان فاروق کے ذریعے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں مدعی کے وکیل عزیر حنیف پر زمین پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
درخواست گزار شیخ عبدالرحیم اور دیگر نے موقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت کی جانب سے سوسائٹی کو 79 اعشاریہ 2 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی تھی اور بورڈ آف ریونیو کے ڈیمارکیشن پلان میں اسکولوں، پارکوں اور کھیل کے میدانوں کے لیے کوئی سہولت والا علاقہ شامل نہیں تھا۔
درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ مانک اسکول کی اراضی اور دیگر سہولیاتی پلاٹ سوسائٹی کو الاٹ کی گئی زمین کا حصہ نہیں تھے، جس نے ایسے سہولیاتی پلاٹس کو غیر قانونی طور پر بلڈرز کو فروخت کیا۔
یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ گیا کہ پرانا اسکول ایک سہولتی پلاٹ پر موجود تھا، درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز کے مطابق سہولتی پلاٹ کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
اس سال 8 مارچ کو دو رکنی بنچ نے عزیر اور دیگر مدعا علیہان کو پرانی اسکول کی عمارت کے خلاف کوئی منفی کارروائی کرنے سے روک دیا۔ اس پابندی کا حکم اب بھی زیر عمل ہے۔
کہانی کی مکمل تفصیلات
جے دیال ڈالمیا، ان دو بھائیوں میں سے ایک جنہوں نے 1939ء میں ڈالمیا بھارت گروپ کی بنیاد رکھی، انہوں نے تقسیم سے پہلے برصغیر میں چھ سیمنٹ فیکٹریاں لگائیں جن میں سے ایک شانتی نگر کراچی میں ہے۔
کراچی فیکٹری کے لیے رہائشی کوارٹرز کی تعمیر کے علاوہ مانک اسکول کے نام سے ایک اسکول بھی 1940ء کی دہائی میں قائم کی گئی۔
1978ء میں مانک اسکول سے میٹرک کرنے والے غلام فرید نے یاد کیا کہ ان کے والد محمد اسلم 1940ء کی دہائی کے اوائل میں اٹک، پنجاب سے کراچی چلے گئے اور ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری میں ملازمت حاصل کی اور شانتی نگر میں ہی اہنے لگے جو بنیادی طور پر ہندو برادری کی بستی تھی۔
غلام فرید نے کہا کہ میرے والد ہمیں بتایا کرتے تھے کہ جب وہ علاقے میں آئے تو مانک اسکول پہلے ہی فیکٹری ورکرز اور دیگر رہائشیوں کے بچوں کو تعلیم فراہم کرتے تھے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News