Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

موبائل فون میں کیمروں کی موجودگی ڈیجیٹل پیشہ ورانہ فوٹو گرافی کے لیے مسائل کا سبب

Now Reading:

موبائل فون میں کیمروں کی موجودگی ڈیجیٹل پیشہ ورانہ فوٹو گرافی کے لیے مسائل کا سبب

 امجد حسین ایک پروفیشنل فوٹوگرافر ہیں جو پچھلے تیس سالوں سے مزار قائد پر آنے والے لوگوں کے یادگار لمحات کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔ انہوں نے فوٹو گرافی کے میدان میں ٹیکنالوجی کے بہت سے طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، لیکن ڈیجیٹل دور میں، وہ اپنے سب سے بڑے دشمن ’ اسمارٹ فون‘ سے ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔

امجد نے بول نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ، “ہم نے ہر دور میں، خود کو وقت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ڈھال لیا، لیکن ہاتھ کی ہتھیلی پر سما جانے والے اس برقی آلے نے ہمیں لفظی طور پر بے کار بنا دیا ہے۔”

امجد اور ان کے ساتھی مزار قائد پر آنے والے افراد کی ہائی ریزولیشن والی تصویر کا معاوضہ صرف 20 روپے فی تصویر وصول کرتے ہیں جو کہ مہنگائی کے اس دور میں بہت کم ہے۔ اعلیٰ معیار کی A4 شیٹس پر پرنٹ ہونے والی تصویروں کے لیے، وہ 200 روپے چارج کرتے ہیں جب کہ 5 بائی 7 سائز تصویر کے لیے، 100 روپے فی تصویر وصول کیے جاتے ہیں۔

گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے امجد نے کہا کہ ایک وقت تھا جب لوگ ہمارے پاس تصویریں بنوانے کے لیے شوق سے آتے تھے، لیکن آج وہ ہم سے پیچھے ہٹنے کو کہتے ہیں۔

فیس بک، ٹک ٹاک اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بعد لوگوں کو کسی تصویر کی ہارڈ کاپی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ امجد نے مزید کہا کہ “بہت کم سیاح ہم سے تصاویر پرنٹ کرنے کو کہتے ہیں۔ اس کے بجائے، وہ چاہتے ہیں کہ تصویریں ان کے موبائل فون پر منتقل کردی جائیں ‘‘۔

Advertisement

انہوں نے نمائندہ بول نیوز کو بتایا کہ “میں اس شعبے میں 1991ء میں لائسنس یافتہ فوٹوگرافر کے طور پر داخل ہوا تھا۔ پچھلے تیس سالوں میں ہم نے کیمرہ ٹیکنالوجی میں مختلف تبدیلیاں دیکھی۔ اس سے پہلے، ہم فوری تصاویر کے لیے پولورائیڈ کیمروں کا انتخاب کرتے تھے جو پلک جھپکتے ہی تصویریں کھینچ کر پرنٹ کردیتے تھے۔ اس وقت بہت کم لوگوں کے پاس کیمرے تھے اس لیے وہ اپنے یادگار لمحات کو قید کرنے کے لیے خوش دلی سے پیشہ ور فوٹوگرافر کی خدمات حاصل کرتے تھے۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والے تیز رفتار ترقی سے فوٹوگرافروں نے فلم رولز والے کیمرے استعمال کرنا شروع کر دیے، لیکن اس میں یہ مسئلہ درپیش تھا کہ تصاویر تیار کرنے میں کافی وقت لگتا تھا، اور پرنٹ کرنے سے پہلے کم از کم تیس کلکس کرنے پڑتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے کٹ رولز کا استعمال شروع کیا جس میں دس تصاویر لینے کے بعد گاہک کے حوالے کردیا جاتا تھا اور وہ بعد میں ان سے کسی بھی اسٹوڈیو میں پرنٹ نکلوا سکتا تھا۔

فوٹو گرافی کے میدان میں مزید انقلابی ’ڈیجیٹل کیمروں‘ کی آمد کے ساتھ ہی امجد کا کاروبار پھلنے پھولنے لگا۔ “ہم 15 منٹ سے بھی کم وقت میں تصویروں پر کلک کرتے اور انہیں ایک ہی وقت میں پرنٹ کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم اچھے پیسے کماتے تھے۔ تاہم، یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا اور اسمارٹ فونز نے ہائی ٹیک کیمروں کے ساتھ آنا شروع کردیا۔

ٹیکنالوجی نے اکیسویں صدی میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ دنیا ہمارے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر ہے۔ یہ ایک گھڑی، ایک ریڈیو، ایک ٹیلی ویژن، ایک کیلکولیٹر، یا ایک پیشہ ور کیمرہ ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح، بجلی کی رفتار سے ہونے والی ترقی نے بہت سے لوگوں کو ان کے  پیشوں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔

امجد کے مطابق ایک وقت تھا جب مزار قائد کے احاطے میں فوٹو گرافر کے طور پر کام کرنے کے لیے لائسنس کا حصول بہت مشکل تھا۔ صرف پچاس لائسنس یافتہ فوٹوگرافروں کو وہاں اپنے چھوٹے اسٹوڈیوز قائم کرنے کی اجازت تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ملک بھر سے اور یہاں تک کہ بیرون ملک سے بھی لوگ تصویریں لینے کے لیے اس مشہور مقبرے پر آتے ہیں۔ اُس وقت یہ ایک اچھا پیشہ تھا، لیکن ٹیکنالوجی نے فوٹوگرافروں کے کام کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے، انہوں نے کہا کہ تقریباً آدھے لائسنس یافتہ فوٹوگرافرز چلے گئے ہیں اور بقیہ دیگر کو اپنے اخراجات پورے کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے کیونکہ اب مزار پر آنے والے افراد بہت کم ہی ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور اپنے موبائل کیمروں سے ہی تصویر کشی کو ترجیح دیتے ہیں۔

امجد نے بول نیوز کو بتایا کہ اب 30 سال بعد گاہک کو سافٹ امیج منتقل کرنے کے صرف 20 روپے وصول کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُس وقت پچاس سے زائد فوٹوگرافرز مزار قائد کے احاطے میں گھومتے تھے۔ ایک فوٹوگرافر روزانہ اوسطاً پچیس سے تیس تصاویر بنا کر روزانہ 200 سے 300 روپے کماتا تھا، جو اس زمانے میں ایک معقول رقم تھی۔ اب، اس پیشے میں گزر بسر کرنا مشکل ہے”۔

Advertisement

امجد کے گھریلو اخراجات نے انہیں سے کبھی بھی برے حالات سے نبزد آزما ہونے کےلیے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے نئی ٹیکنالوجی کو اپناتے ہوئے سرمایہ کاری کی وہ اب اچھے حال میں ہیں ، لیکن مالی وسائل کی وجہ سے پیھچھے رہ جانے والوں کے لیے لامحدود خواہشات کے سوا کچھ بھی نہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آج سونے کی قیمت کیا رہی؟ جانیے
وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی ترقی اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے پُرعزم ہے، وزیراعظم
کے الیکٹرک کی نالائقی و عدم دلچسپی؛ کراچی میں فراہمی آب کے نظام کا بیڑا غرق
’’کشمیر کی آزادی ناگزیر، دنیا جانتی ہے بھارت میں مسلمانوں کیساتھ کیا ہورہا ہے‘‘
صارفین کیلئے بڑی خبر؛ کیا واٹس ایپ جلد ایپل واچ پر دستیاب ہوگا؟
سوشل میڈیا پر وائرل سعودی عرب کا ’اسکائی اسٹیڈیم‘ اے آئی کی کارستانی نکلا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر