
شہزاد رائے کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ ایک منفرد گلوکار ہیں جن کو دیکھ کر یہ گمان کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آیا یہ کبھی بوڑھے بھی ہوں گے، اورحیران کن طور پر ان کا رجحان سماجی بہتری کے کاموں کی طرف ہے۔ تقریباً 27 سال قبل ایک نغمہ نگار اور گلوکار کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے شہزاد رائے نے اپنے ہم عصروں کی طرح بنیادی طور پر موسیقی کی توجہ محبت اور صنف نازک پر مرکوز رکھی۔’’تیری صورت‘‘ اور ’’کنگنا‘‘ ان کے وقت کے مقبول ترین گیت ہیں۔ لیکن بہت جلد وہ ’’قسمت اپنے ہاتھ میں‘‘ اور’’لگا رہ‘‘ جیسے کچھ غیرروایتی گانوں کے ساتھ سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے کی طرف مائل ہو گئے۔ ایک غیر سرکاری خیراتی تنظیم ’زندگی ٹرسٹ‘ کے بانی کے طور پر وہ غریبوں کے لیے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے عوامی تعلیم کی حالت کے بارے میں چند دستاویزی سیریز،’’چل پرہا‘‘ اور ’’واسو اور میں‘‘ تیار کیں اور اس کی میزبانی بھی کی، شہزاد رائے اور ایک دیہاتی کے سفر پریہ سیریز ترقی، غربت اور حب الوطنی جیسے معاملات کا احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے آسٹریا میں منشیات اور جرائم پر اقوام متحدہ کے دفتر میں خیر سگالی سفیر کے طور پر پاکستان کی نمائندگی کی۔ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
بول نیوز نے شہزاد رائے کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا جسے نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے؛
س
موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ سیاسی سرگرمیوں
میں بھی شامل رہے، سیاست میں کس سے متاثرہوئے؟
ج: میری پرورش، میری تعلیم اور حب الوطنی نے مجھے ان معاملات کو ٹھیک کرنے کی ترغیب دی جو عوام کے لیے مسائل کا باعث تھے۔ میں ہمیشہ علامہ اقبال کے خودی کے تصور سے متاثر رہا ہوں اور وہی اس تحریک کی وجہ بنا۔ میرے پہلے میوزک البم میں اقبال کی شاعری پر ان کی نمایاں خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک دھن شامل تھی۔
بعد میں، جب مجھے سماجی و سیاسی نظام، خاص طور پر تعلیمی نظام میں خامیاں نظر آئیں، تو میں نے سوچا کہ مجھے اپنے اثر و رسوخ اور شہرت کو ان کو دور کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس طرح یہ سب شروع ہوا۔ صرف اپنے وطن کے بچوں کی بہتری کے لیے اپنی فنکار کی شبیہ کو داؤ پر لگاتے ہوئے میں اپنی فاؤنڈیشن زندگی ٹرسٹ کے تحت کراچی کے فاطمہ جناح اسکول گیا جہاں ایک ہی عمارت کے نیچے مختلف اسکولوں نے اپنے کیمپس قائم کیے ہوئے تھے۔ ان کے کراچی بھر میں کل 3500 رجسٹرڈ اسکولوں کے ساتھ 900 کیمپس ہیں۔ دھیرے دھیرے ہم نے پاکستانی نظام تعلیم میں مادّی قوانین متعارف کرائے اور اساتذہ کی بھرتی کے عمل میں اصلاحات کیں۔ بین الاقوامی معیار تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کے لیے نصابی کتابیں تجویز کیں، کراچی کی جیلوں میں قید، سڑکوں پر رہنے والے اور منشیات کے عادی بچوں کے لیے بحالی کے مخصوص منصوبے ترتیب دیے، بعد میں یہ سلسلہ پاکستان کے دیگر علاقوں تک پھیلایا۔
س
طلبہ کے لیے نصابی کتب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: اس ملک میں خصوصی طور پر بچوں کے لیے کوئی نصابی کتب نہیں لکھی گئیں۔ ایک اچھی نصابی کتاب میں بچوں کی عمر اور سمجھنے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے عمر کے لحاظ سے مخصوص علم کا احاطہ کرنا چاہیے۔ نصاب بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ ہو، اسے اس انداز میں پڑھایا جانا چاہیے کہ بچے سیکھنے کے ساتھ ساتھ اس سے لطف اندوز بھی ہوں۔ تعلیم کو ہتھیار نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس سے ذہن اور روح کو روشن ہونا چاہیے۔ تعلیم کا مقصد نہ صرف آپ کو بلکہ دوسروں کے لیے جینے کی وجہ ہونا چاہیے!
س
اس سفر میں آگے بڑھنا کتنا مشکل تھا؟
ج: ہم بطور گلوکار بھی اپنے ملک کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں اور سماجی ترقی کے لیے موسیقی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جب پورا نظام ہی اتنا تباہ کن نظر آتا ہے تو یہ ہر اُس فرد کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرے جسے لوگوں کی محبت اور احترام حاصل ہو۔
جب میں نے تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لانا شروع کیں تو میں اپنے نئے ریلیز ہونے والے میوزک البم کے پروجیکشن پر کام کر رہا تھا۔ میں ہندوستانی موسیقاروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا اور سوشل میڈیا پر میرے حق میں اور خلاف بہت سی چیزیں چل رہی تھیں۔ میں درس و تدریس کے طریقہ کار میں تبدیلیاں متعارف کرانے، اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے اور نصاب کے ساتھ ساتھ نصابی کتب کو ڈیزائن کرنے کے عمل میں تھا۔ یہ میرے اور میرے گلوکاری کے پیشے کے لیے ایک مشکل وقت تھا، لیکن صرف ایک چیز جس نے مجھے آگے بڑھایا وہ ذمہ داری کا احساس تھا۔
س
کیا آپ لوگوں کی طرف سے ملنے والے ردعمل
سے خوش ہیں؟
ج: عوام نے ہمیشہ میرے ساتھ بہت تعاون کیا ہے۔ اگر آپ کسی اچھے مقصد و تبدیلی لانے کے لیے سچے ارادے کے ساتھ واضح بصیرت رکھتے ہیں تو لوگ آپ کا ساتھ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ لہذا، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی موسیقی کی صنعت کے لوگوں نے ہمیشہ میرا بھرپور ساتھ دیا ہے اور میری کوششوں میں ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ کراچی کے شعبہ تعلیم نے میرا تہہ دل سے خیر مقدم کیا ہے۔
س
کیا آپ کا جلد ہی کوئی فلم بنانے کا ارادہ ہے؟
ج: جی ہاں، اس منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اسکرپٹ پر کام جاری ہے۔ میں یہ اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ گانوں میں ہمارے پاس اپنا پیغام پہنچانے کے لیے 3 سے 4 منٹ ہوتے ہیں جب کہ فلم میں اسے دو گھنٹے تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ لہذا، اسکرپٹ معروف مصنف اور ڈرامہ نگار جناب انور مقصود لکھ رہے ہیں۔ رومانس ، مزاح اور سیاست کے امتزاج پر مبنی یہ فلم آپ کو حیران کر دے گی!
س
کیا والدین نے کبھی کسی شرارت پر آپ کو سزا دی؟
ج: (ہنستے ہوئے) مجھے یاد ہے کہ ہمارے پڑوس میں رہنے والے ایک دوست کی سالگرہ کی تقریب تھی۔ پارٹی کے اختتام پر جب میں غباروں سے کھیل رہا تھا تو میرے ایک دوست نے مجھے لوہے کی گِرل پر لٹکے ہوئے غبارے دکھانے کے لیے میری ٹانگ کھینچ لی جس کی وجہ سے میری چھوٹی انگلی غلطی سے جالی میں پھنس کر زخمی ہو گئی۔ میری عمر اس وقت بمشکل چار سال تھی اس لیے مجھے یاد نہیں کہ میرے والدین نے کیا کہا تھا لیکن ہاں، وہ بہت غصے میں تھے!
س
آپ نے کیریئر کا آغاز اقبال کی شاعری گا کر کیا، بعد میں رومانوی اور پھر آخر میں سیاسی گانوں کی طرف بڑھے۔ آپ کو ذاتی طور پر سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟
ج: میں نے موسیقی کی صنعت میں سترہ سال کی عمر میں قدم رکھا اور میرا پہلا مجموعہ علامہ اقبال کی شاعری پر مبنی تھا جو بعد میں کچھ رومانوی اور سیاسی گیتوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت فطری تبدیلیاں تھیں، یہ میری فکری نشوونما کو ایک ایسے شخص کے طور پر ظاہر کرتی ہے جس نے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے کام کیا۔ لیکن ہاں، میری بیوی جو میری ہوم منسٹر ہیں (ہنستے ہوئے) میرے رومانوی مجموعے پسند کرتی ہیں، وہ ہارورڈ یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں اور میرے سیاسی گانوں کو بھی پسند کرتی ہیں۔
س
آنے والی نسل کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟
ج: میں انہیں یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ جب آپ اس دنیا میں شہرت پانے والے لوگوں سے متاثر ہوں تو ان کے بارے میں تفصیلی معلومات کے بغیر انہیں اپنا آئیڈیل نہ بنائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ملک کے نوجوان، خاص طور پر وہ نوجوان جن کے چاہنے والے سوشل میڈیا پر ان کو فالو کرتے ہیں، اس کے اثرات کے فوائد اور نقصانات کو سنبھالنے کے حوالے سے ناتجربہ کار ہیں۔ اور میں اپنے پیغام کا اختتام علامہ اقبال کی ایک مشہور نظم کے ساتھ کروں گا جس میں نوجوانوں پر زور دیا گیا ہے کہ جب رول ماڈلز کو تلاش کرنے اور زندگی بدل دینے والے خیالات کا انتخاب کرنے کی بات ہو تو وہ بہت زیادہ محتاط رہیں۔ شاعر مشرق لکھتے ہیں،
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ!
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News