Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

نادیدہ قوت کے قبضے کا خوف

Now Reading:

نادیدہ قوت کے قبضے کا خوف

عوام سائنس سے زیادہ مافوق الفطرت طاقتوں پر یقین رکھتے ہیں

رات کے آخری پہر محلہ چیخ و پکار سے گونج اٹھا۔سرد ہوا کی بازگشت اور پرسرار آواز سے گھبرا نے والے لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔یہ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کا وہ منظر تھا ، جو دو سال پہلےکم و بیش اس سے مختلف نہیں ہوتا تھا۔ کسی نے بھی ان واقعات پر اُس وقت تک توجہ نہیں دی جب تک ایک خاتون کی مسخ شدہ لاش برآمد نہیں ہوگئی ۔مجرم کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ مرنے والی عورت کا بھائی ہے۔جسے پوچھ گچھ کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ میڈیکل رپورٹ سے پتہ چلا ہےکہ دم گھٹنے سے پہلے مقتولہ کو بری طرح وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا  گیا تھا ۔ پڑوسیوں کے پاس ملزم کے حوالے سے کچھ الگ معلومات تھیں ۔ ایک بزرگ خاتون کے مطابق 20 سالہ مقتولہ شہناز کافی خوبصورت تھی ۔ ایک روز شام کے وقت وہ ایک قبرستان کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اس نے ایک آواز سنی، لیکن اس جانب کوئی دھیان نہیں دیا۔اس دن کے بعد شہناز کے اندر تیزی سے تبدیلیاں آنے لگیں ۔ اس نے جارحانہ انداز اپنا لیا اور اب اس کا چہرہ بھی پہلے سے مختلف نظر آنے لگا تھا ۔ چہرے کے خدوخال اگرچہ وہی تھے لیکن اب اس کی شخصیت سے  برائی کی جھلک نمایاں ہو گئی تھی ۔ہمیشہ صاف ستھری رہنے والی لڑکی نے نہانا دھونا چھوڑ دیا تھا ۔ اس کا بات کرنے کا انداز اور لہجہ بھی ناگوار ی کی حدوں کو چھونے لگا تھا ۔

یہ ابھی صرف شروعات تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس کا رویہ تیزی سے بگڑتا چلا گیا اور توقع کے مطابق اس میں کوئی نمایاں بہتری نظر نہیں آئی ۔اس لڑکی کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے خاندان کے افراد نے ایک ’بابا‘ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جس نے اس لڑکی کی پراسرار حالت کی ’تشخیص‘ میں مددکی۔شہناز کی حالت کے حوالے سے گلی محلوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں ،اور پورا محلہ اس خاندان سے بات چیت سے کترانے لگا۔ جلد ہی، آس پڑوس کے گھروں میں شہناز کی چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں ، اور پھر دو ماہ بعد اس کے گھر سے اس کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ۔اس دلخراش واقعے کے تناظر میں اس گھر میں جو کچھ بھی ہوتا رہا ، وہ تاحال ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ پولیس بھی اس انوکھے کیس سے کسی حد تک پریشان نظر آئی ،اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزم کو حراست میں لے لیا۔

 دوران تفتیش اظہر نامی ملزم نے کہا کہ میرے پاس اس کے علاقہ کوئی راستہ نہ تھا؟ وہ ہستی بہت طاقتور تھی، مجھے دھمکیاں دے رہی تھی۔ بابا نے اس کے اثر کو میری بہن کے اندر سے نکال دیا تھا لیکن اس چیز نے میری بہن کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا ۔ میری بہن کے پاس 10 آدمیوں جتنی طاقت تھی ، جس سے میں خوفزدہ ہوگیا تھا ۔اس چیز نے مجھ پر واضح کیا کہ و ہ اسے کبھی نہیں چھوڑے گا، اور پھر میں نے اپنے دفاع میں اس پر وار کردیا۔

اس سے پہلے کہ آپ اس کیس اور شخص(جو قیاس شدہ بری روح کو نکالنے کی کوشش کرتا ہو) کے بارے میں ، ربط قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ پہلے ذرا یہ سوچ لیں کہ اس قتل کے پیچھے کیا کوئی اور مقصد بھی ہوسکتا تھا ؟ تو اس کا جواب ہے کہ ہاں اسے کسی مقصد کے تحت قتل کیا گیا۔ اس لڑکی کو کسی لڑکے سے محبت ہوگئی تھی اور اس کے گھر والوں کو یہ خفیہ تعلق منظور نہیں تھا۔ لہذا اسے قتل کردیا گیا۔ اس لڑکی کی روح کسی اور ہستی کے قبضے میں تھی یا نہیں ؟اس کا فیصلہ قاری خود بہتر طور پر لگاسکتے ہیں ۔

Advertisement

ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگاکہ تقسیم سے لے کر اب تک مخفی قوت کا موضوع زیر بحث رہا ہے۔آج کے دور میں بھی د ادا اور دادی اپنے پوتے پوتیوں کو اس حوالے سے کہانیاں سناتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دادا ،دادی میں سے کسی کو بھی خود کسی مافوق الفطرت ہستی کا سامنا نہیں ہوا ، لیکن وہ اپنی کہانی میں ہمیشہ کسی اور جاننے والے کا حوالہ دینا نہیں بھولتے ۔

یہ تصور ہمارے یہاں کی طرح مغرب میں بھی پایا جاتا ہے ۔ بعض مصنفین اس موضوع پر ایک کے بعد ایک ہولناک کتابیں تحریر کررہے ہیں اور عوام اس موضوع کی مختلف کہانیاں پڑھنے کے بعد خود کو اس شعبے میں کسی ’ماہر‘ سے کم تصور نہیں کرتے۔مافوق الفطرت قوتوں جیسے معاملات سے نمٹنے کے لیے وارین فیملی کا جوڑا کافی مقبول رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ زیادہ تر لوگ انہیں فلم ’ کنجورنگ فرنچائز ‘کی وجہ سے جانتے ہیں۔ آج کل، ان کے طرز عمل کو انٹرنیٹ کے جاسوس صارفین نے بڑی حد تک بے نقاب کردیا ہے۔

14 جنوری 2014ء کی سرد رات کو کراچی کی نیپئر روڈ کے قریب اپارٹمنٹ کے مکینوں کو ایک اور چیخ سنائی دی ۔ مدد کے لیے پہنچنے والے پڑوسیوں نے محسوس کیا کہ گھر کی کھڑکیوں میں لوہے کی سلاخیں نصب ہیں جس کی وجہ سے وہ اندر جانے کی کوشش میں ناکام رہے ۔متاثرہ خاتون کی مدد میں بہت دیر ہوچکی تھی ۔گھر کے احاطے میں ایک عورت کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی، جس کا سر دھڑ سے تقریباً الگ ہوچکا تھا ۔ اس قتل کا مجرم کوئی اور نہیں اس عورت کا 20 سالہ بیٹا عبید تھا۔پولیس نے عبید کو حراست میں لے لیا۔جہاں اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ اس دوران اس نے یاددداشت کا بہانہ بناتے ہوئے واقعے کے حوالے سے درست معلومات فراہم کرنے سے انکارکردیا۔اس نے بتایا کہ کالے جادو کی وجہ سے، مجھ پر ایک ہستی(نادیدہ قوت) نے قبضہ کر لیا ،اور اس نے مجھے بلینڈر کا بلیڈ پکڑنے کو کہا۔ میں اپنے حواس کھو چکاتھا۔ اس کے بعد کیا ہوا، مجھے کچھ یاد نہیں ۔اس لڑکے نے مزید کہا کہ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ مجھے اپنے خاندان کے افراد سے ملنا ہے، میرے والد ذہنی مریض تھے ، لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ بھی اسی مرض میں مبتلا تھے۔اس کے علاوہ مجھے کچھ یاد نہیں۔اس لڑکے کے والد کا انتقال اس وحشیانہ قتل سے ٹھیک ایک سال قبل ہوگیا تھا۔اس کیس کی تفتیش اور ملزمان سے اعتراف جرم کروانے میں پولیس ناکام نظر آئی ۔ کیس کے تفتیشی افسر زاہد شاہ کا کہنا ہےکہ قتل کا مقدمہ ملزم کی بہن افشین نے دائر کیا ہے ۔ کیس کی آگے کی پیش رفت کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔

 ہمارے معاشرے میں کالے جادو کی تباہ کن طاقت پر یقین رکھنے کی روایت عام ہے۔ لوگ یقینی طور پر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔کیس کے تفیشی افسر کے بیان سے واضح ہوگیا تھا کہ یہ کیس کس طرف جا رہا ہے؟ یعنی قانون نافذ کرنے والے ہی مافوق الفطرت کا خوف محسوس کرنے لگے ہیں ۔ یہ کیس ایمیٹی وِل کے ڈیفیو کیس سے خاصا مماثلت رکھتا ہے، جس میں مجرم رون ڈیفیو نے اپنے پورے خاندان کو بے دردی سے قتل کردیا تھا اور کسی مافوق الفطرت ہستی کو اس کا موردِ الزام ٹھہرادیا تھا ۔

زیادہ تر لوگ غیر تشخیص شدہ دماغی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں نفسیاتی ماہر کے پاس لے جانے کے بجائے ’بابوں‘ کے پاس لے جایا جاتا ہے ، جو پہلے سے ہی اذیت میں مبتلا فرد کو مزید تکلیف پہنچاتے ہیں۔ شیزوفرنیا کے مرض کا آغاز عموماً 20 سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ڈاکٹر صائمہ قریشی نے اس حوالے سے مزید کہا کہ لوگ عام طور پراس سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور ذہنی صحت میں مبتلا فرد کی مدد کے بجائے نادیدہ قوتوں کے حاوی ہونے جیسے معاملات پر یقین کرنا پسند کرتے ہیں۔بعض کیسز میں مرگی کے دورے جسم میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتے ہیں اور ان کے اچانک حملوں کی ٹھیک سے تشخیص بھی نہیں ہوپاتی۔ ڈاکٹر صائمہ کا مزید کہناتھا کہ پاکستان دماغی صحت کو مسلسل نظر انداز کرتا رہا ہے، سوچیں اگر ایسا نہ ہوتا تو کتنی انسانی جانیں بچائی جا سکتی تھیں؟لوگوں کو اس موذی مرض سے آگاہ ہونے کے باوجود ہم توہم پرستی اور تشدد کے کلچر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔تاہم ، کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو مافوق الفطرت ہستیوں کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اویس نامی نوجوان کا کہنا تھا کہ میرا خاندان ( قیاس شدہ) بُری روح کو نکالنے کے حوالے سے ایک تاریخ کا حامل ہے۔ میرے دادا ان نادیدہ قوتوں کو دیکھ سکتے تھے۔ اویس نے مزید کہا کہ میری ایک دوست کی کزن اپنے کمرے سے باہر نکل بھی نہیں سکتی، اگر اسے خوشبو یا عطر کی مہک آجائے تو وہ لوگوں پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔جن افراد نے اس لڑکی کا معائنہ کیا ہے ، ان کا کہنا ہےکہ اس کے اندر بہت سی ہستیاں موجود ہیں اس لیے کوئی اسے پریشان کرنے کی کوشش بھی نہ کرے۔اویس نے بتایا کہ یہی وجہ ہےکہ لڑکیوں کو درختوں کے نیچے کھڑے ہونے ، خوشبو نہ لگانے یا زیادہ تیار ہونے سے منع کیا جاتا ہے ۔ اس طرح کے عمل ، ان ہستیوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں ۔اگر خواتین اپنی نمود و نمائش کو کسی حد تک محدود کردیں اور تاریک، ویران سڑکوں پر سفر کرنے سے بچیں، تو وہ محفوظ رہ سکتی ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں مزارات کے ارد گرد موجود ہستیوں کے بارے میں داستانیں بہت عام ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک بزرگ خاتون 6 ماہ کے بچے کو عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لے گئی۔بنیادی طور پر وہ ایک آیا تھی ۔ جب وہ مزار سے واپس آئی تو اس کا رویہ بدل چکا تھا۔ وہ خلا میں گھور تے ہوئے کہیں بھی بیٹھی رہتی ۔ گھر والے اسے کسی بھی حالت میں دیکھنے کے باوجود خاموش رہتے تھے ۔وہ در اصل بچے سے خائف تھے ۔ جب خاتون کے گھر والوں کو اس کے عجیب و غریب رویے کا علم ہوا تو وہ اسے ایک بابا کے پاس لے گئے، جس نے اس کی روح پر قبضے کے معاملے کی تشخیص کی۔وہ عورت کبھی صحت یاب نہیں ہوسکی ۔ یہ سب کچھ برداشت کرنے کے بعداس نے دم توڑ دیا۔اس واقعے کے بعد کسی نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ اصل میں اس کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ آج تک ہر کوئی یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس عورت کو کسی ہستی نے اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا۔

Advertisement

مافوق الفطرت ہستیوں سے متعلق واقعات پر کوئی یقین کرے یا نہ کرے، اکثر ایسے عجیب و غریب واقعات کراچی سمیت ملک بھر میں رونما ہو تے ہیں ۔غیب پر الزام تراشی کا ہمارا اجتماعی جنون مزید بڑھ گیا ہے۔نئی ٹیکنالوجی اور سائنسی تحقیق کے باوجود لوگ آسان ترین وضاحتوں کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں۔خود کو اس موضوع کا ماہر سمجھنے الے نوجوان اشعر نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا کہ آپ چیزوں کی مافوق الفطرت ترتیب کو نہیں سمجھ سکتے ، اس دنیا میں خفیہ طاقتیں موجود ہیں، آپ اور آپ کی سائنس اس کی وضاحت نہیں کر سکتی، اس لیے اس پہلو پر اتنی تنقید سے گریز کرنا چاہیے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فنانس میں ڈگری حاصل کرنے کے باوجود اس نوجوان کو ان نامعلوم ہستیوں کی طاقت پر پختہ یقین تھا۔

ہمارے موضوع کے حوالے سے اداکار اور ہدایت کار شمعون عباسی کا نقطہ نظر خاصامختلف ہے۔ شمعون نے تقریبا 10 سال پہلے ’سائے ‘نامی ریلیٹی شو کو تخلیق کیا تھا۔ حقیقی مقامات پر جا کر عوام کے تجربات کو ریکارڈ کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہدایت کار کا کہنا تھاکہ”میں اس نوعیت کے کیسز کا انتظار کرتا ہوں جس کےبارے میں آپ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ،لیکن ایسے لوگ جن پر کسی نادیدہ قوت کا سایہ ہو، وہ اور اس کے خاندان کے افراد انٹرویو کے وقت مجھے کافی حد تک مایوس کردیتے تھے۔ شمعون نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسے زیادہ تر افراد کو غیر تشخیص شدہ ذہنی مسائل درپیش تھے، کچھ نے تو اس حقیقت کو ماننے سے ہی انکار کردیا۔ میں نے اب تک اس نوعیت کا کوئی کیس نہیں دیکھا۔

جیسے جیسے دن ڈھلنے لگتا ہے اور ہوا میں خنکی بڑھتی جاتی ہے، لوگوں کو پیشگوئی کا احساس ہونے لگتا ہے ۔وہ خوف ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نامعلوم خوف کے سائے میں رہنا شروع کردیتے ہیں ۔انہیں اندھیرے سے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کے اندر کون چھپا ہوا ہے؟وہ سیریل کلر بھی ہوسکتا ہے، یا آپ کا قریبی پڑوسی بھی ہوسکتا ہے۔اس حوالے سے کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ معاملہ کچھ بھی ہو، یقین کریں کہ دیو قامت ہستی (مونسٹر) سائے میں پوشیدہ نہیں ہوتی ، یہ دن کی روشنی میں بھی حملہ کرتی ہے۔ویمپائر حقیقی نہیں ہیں اور ’قابض ہونے‘ سے نہیں ڈرتے، بلکہ مصیبت زدہ فرد کی مدد کے لیے ان کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہیں۔دنیا کو اس سے زیادہ جاننے کی اشد ضرورت کو محسوس کیا جارہاہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
امریکا بگرام ایئربیس کی واپسی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، ذبیح اللہ مجاہد
شکتی سائیکلون کے اثرات، کوئٹہ میں گرد و غبار کا طوفان، حدِ نگاہ صفر کے قریب
کراچی میں جرائم بے قابو، 9 ماہ میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں 50 ہزار کے قریب پہنچ گئیں
غزہ میں ہولناک تباہی، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں لرزا دینے والے حقائق بے نقاب
اسرائیل و حماس میں بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور آج ہو گا، جنگ بندی پر پیش رفت متوقع
سینیٹ اور قومی اسمبلی اجلاس سے پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ، ن لیگ سے معافی کا مطالبہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر