ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں صحت کے کارکنان کو دیگر کام کی جگہوں کے مقابلے میں تشدد کا نشانہ بننے کا خطرہ 16 گنا زیادہ ہے۔
یہ مطالعہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے ’’ اپنا انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ‘‘ اور ’’ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس پاکستان‘‘نے کیا تھا۔
نتائج کے مطابق، صحت کے کارکنوں کے ایک تہائی سے زیادہ (38اعشاریہ4 فیصد) نے پچھلے 6 مہینوں میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا سامنا کیا ہے، جن میں سے، زبانی تشدد سب سے زیادہ عام تھا (33اعشاریہ9 فیصد) اس کے بعد جسمانی تشدد (6اعشاریہ6 فیصد)۔
جسمانی تشدد کی بڑی وجوہات میں مریضوں کی موت (17اعشاریہ6 فیصد)، مریضوں کی سنگین حالت (16اعشاریہ6 فیصد) اور دیکھ بھال میں تاخیر (13اعشاریہ4 فیصد) تھیں۔ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کے مختلف شعبوں میں، ہنگامی گاڑیوں کے آپریٹرز کو اس شعبے میں خواتین کارکنان صحت کے مقابلے میں زبانی تشدد کا سامنا کرنے کا زیادہ خطرہ تھا۔
اپنا انسٹی ٹیوٹ کی چیئرپرسن ڈاکٹر لبنیٰ بیگ نے بول نیوز کو بتایا کہ کارکنان صحت کے خلاف تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے جسے آسانی سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ’’صحت کے کارکن اگلے محاذ پر ہوتے ہیں؛ یعنی دباؤ سے بھرپور غیر متوقع حالات میں لوگوں کے ساتھ نمٹتے ہیں۔ یہ مطالعہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اہلکاروں کے خلاف تشدد کے پھیلاؤ اور متعلقہ عوامل کا تعین کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ صحت کے کارکنوں کو بھی دماغی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔‘‘
مطالعے کے مطابق، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن جب جسمانی یا زبانی بدسلوکی کا نشانہ بنتے ہیں تو ان کی فلاح و بہبود کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ ان کی فلاح و بہبود اور مسابقت کو متاثر کرنے والا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ بدسلوکی کی تقریباً تمام اقسام میں، بشمول معمولی کارروائیوں میں، متاثرین کو صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے ان کی صحت پر طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن ڈاکٹروں نے جسمانی حملے کا تجربہ کیا ہے ان پر یہ اثرات سنگین ہوسکتے ہیں۔ ایسے واقعات کے ایک یا زیادہ اثرات میں ان واقعات کا بار بار یاد آنا، بے خوابی، خوف یا کام سے وقت نکالنے میں مشکلات شامل ہیں۔ پرتشدد حملے نہ صرف جسمانی چوٹوں کا سبب بن سکتے ہیں بلکہ ان کے پوسٹ ٹرامیٹک اثرات بھی ہو سکتے ہیں جن میں ذہنی تناؤ کی بلند شرح بھی شامل ہے۔
اس کے اثرات جذبات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے غصہ یا اضطراب جو ذہنی تکان جیسے نفسیاتی عوارض تک وسیع ہوجاتا ہے۔ جسمانی تشدد، خاص طور پر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں معاون ہے۔
مطالعے کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے، ڈاکٹر لبنی نے کہا کہ زیادہ تر معاملات میں، مریضوں اور ملاقاتیوں کی طرف سے تشدد کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ایمبولینس کے عملے، نیم طبی عملے یا پیرامیڈکس اور نرسوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسے واقعات کا سامنا کرنے کے بعد ان کی ذہنی صحت متاثر ہو جاتی ہے۔
’’صحت کے کارکنوں کے زمرے، جو زیادہ خطرے میں ہیں، ان میں نرسیں، ایمرجنسی روم کا عملہ اور نیم طبی عملہ شامل ہیں،‘‘ انہوں نے آگاہ کیا اور مزید کہا کہ جب نرسیں اور ڈاکٹر اپنی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں تو وہ مناسب دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات میں پرتشدد واقعات مریضوں کی فوری ضرورت کی دیکھ بھال میں تاخیر کر سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کام کی جگہ پر تشدد مریضوں کے اطمینان اور ملازمین کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتا ہے، اور منفی طبی واقعات کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔‘‘
مطالعات کے دوران انٹرویوز اور مخصوص موضوع پر گروہی گفت و شنید کے ذریعے ادارہ جاتی میکانزم اور سماجی و سیاسی عوامل کا تعین کیا گیا۔ زیادہ تر جواب دہندگان نے کہا کہ تشدد مریضوں کی سنگین حالتوں یا منفی نتائج کی وجہ سے تیمارداروں کے جذباتی رد عمل) بعض اوقات مریضوں کی جانب سےبھی ( کے نتیجے میں پھوٹ پڑتا ہے۔ ایک اور زیادہ کثرت سے ذکر کی جانے والی وجہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں سے مریضوں اور تیمارداروں کی غیر معقول توقعات تھیں۔ صحت کے کارکنوں اور مریضوں کے تیمارداروں کے درمیان ناقص ابلاغی عمل ایک بڑی وجہ کے طور پر سامنے آیا۔
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے تین دہائیوں پر محیط اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ زیادہ تر تشدد یا کارکنان صحت کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر مریضوں کے تیماردار اپنا غصہ ڈیوٹی اسٹاف پر نکالتے ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹ نہیں کیے جاتے کیونکہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن عام طور پر انہیں اپنے پیاروں کے کھو جانے کی وجہ سے جذباتی ہونے پر معاف کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹروں نے حکام پر زور دیا کہ وہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کے تشدد اور دھمکیوں سے تحفظ سے متعلق وفاقی قانون نافذ کریں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اسپتال کے اندر متعدد تیمارداروں پر پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہجومی تشدد نہ ہو۔
عالمی ادارے برائے صحت کے مطابق، 38 فیصد تک صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنان اپنے کیریئر کے کسی نہ کسی موقع پر جسمانی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، جس کے نتیجے میں سماجی صدمے اور توانائی کھوجانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ان کا کام متاثر ہوتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News