سندھ ہائی کورٹ کا الیکشن کمیشن سے 15 روز میں کراچی، حیدرآباد کا شیڈول جاری کرنے کا مطالبہ
سندھ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ آرڈر کی منظوری کے 15 روز کے اندر پولنگ کا شیڈول طے کرنے کے بعدکراچی اورحیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا عمل 60 دن میں مکمل کرنے کا حکم جاری کردیا۔
کراچی کے سات اضلاع میں انتخابات مسلسل تیسری بار ملتوی کردیئے گئے،جنہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی (جے آئی) کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو شہر میں بھرپور انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے مقامی حکومتوں کے انتخابات ملتوی کرانے کی آخری کوشش بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
ایم کیو ایم پی، پی ٹی آئی اور جے آئی کی درخواستوں میں مداخلت کار بن گئی تھی،وہ جماعتیں جنہوں نے سندھ حکومت کی درخواست پر ای سی پی کی طرف سے انتخابات کے تیسرے التوا کو چیلنج کیا تھا۔
کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پی کے سینئر رہنما وسیم اختر نے 12 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی (جے آئی) کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت میں بطور مداخلت کار شامل ہونے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا،انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ سندھ کے قانون سازوں نے، خاص طور پر کراچی میں ان قانونی چارہ جوئی کے احکامات جاری کیے بغیر صوبے میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا تھا ۔
مداخلت کار نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم-پی کے پارلیمانی پارٹی کے رہنما کنور نوید جمیل اور پارٹی کے دیگر صوبائی قانون سازوں کی جانب سے دائر درخواست میں ای سی پی کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا تھا،جو بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے وقت صوبے میں مکمل نہیں تھی اور اس طرح ای سی پی کے بعد کے تمام اقدامات، احکامات، نوٹیفکیشنز کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
مداخلت کار نے یہ بھی بتایا کہ ایم کیو ایم پی کے قانون سازوں کی مختلف درخواستیں،جن میں ٹاؤن اور یونین کمیٹیوں کے مختلف حلقوں کی حد بندی پر سوال اٹھایا گیا ہے، سندھ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ درخواست کی 14 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ طارق منصور نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے رواں سال کے اوائل میں ایم کیو ایم پی کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ سنایا تھا اور اور آئین کے آرٹیکل 140-A کے مطابق انتخابی عمل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے علاوہ صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ ای سی پی کو مختلف انتظامی اور مالی اختیارات مقامی حکومتوں کے اداروں کو منتقل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی نے یہ محسوس کرنے کے بعد کہ موجودہ صوبائی لوکل گورنمنٹ قوانین عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتے، یا تو سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں ترمیم کے ذریعے اسے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق لایا جائے یا ایک نیا ایکٹ بنایا جائے، ایوان کی تمام جماعتوں کے قانون سازوں پر مشتمل اسمبلی کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی۔
انہوں نے استدعا کی کہ جب تک ایسی ترامیم کو قانونی شکل نہیں دی جاتی، جو شفاف اور منصفانہ انتخابات کے عمل کو یقینی بناتی ہیں اور انتظامی اور مالیاتی اختیارات ایل جی اداروں کو منتقل نہیں کرتی، بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک فضول مشق ہوگی۔
تاہم جماعت اسلامی کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پی کی جانب سے 24 جون کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر سول اپیل میں بھی ایسے ہی نکات اٹھائے گئے تھے، جس کے تحت اس نے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔سپریم کورٹ نے ’اپیل کی اجازت‘ کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ اور جسٹس یوسف علی سعید کی سربراہی میں بنچ نے وکیل کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
جسٹس یوسف علی سعید کے تحریر کردہ فیصلے میں عدالت نے 24 جون کے پہلے کے فیصلے سے اتفاق کیا جس میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کو اس میں مناسب ترمیم کرکے سپریم کورٹ کے فروری 2022ء کے فیصلے سے ہم آہنگ ہونے تک انتخابات کو روکنے کے لیے ایم کیو ایم پی کے استدعا کو مسترد کر دیا گیا تھا۔جسٹس یوسف علی سعید نے پہلے کے فیصلے سے اتفاق کیا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے ایس ایل جی اے 2013ء کے سیکشن 74 اور 75 کو ختم کیا تھا اور قرار دیا تھا کہ سندھ حکومت مقامی حکومتوں کے اختیارات نہیں لے سکتی، اس لیے صوبائی حکومت کے پاس اختیارات کی منتقلی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔
14 نومبر کو ہونے والی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم (پی) کے رہنماؤں وسیم اختر اور خواجہ اظہار الحسن نے دعویٰ کیا کہ پارٹی انتخابات سے بھاگ نہیں رہی بلکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں آئندہ بلدیاتی حکومتوں کو مقامی سطح پر عوام کے مسائل کے حل کے لیے ضروری تمام اختیارات حاصل ہوں۔
انہوں نے ان جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جو کسی بھی قیمت پر بلدیاتی الیکشن چاہتی ہیں اور انہوں نے انتہائی متنازع ایس ایل جی اے 2013 ءکی حمایت کی تھی، جس نے بلدیاتی اداروں سے ان کے تمام اختیارات واپس لے کر ان کے تمام اختیارات صوبائی حکومت کے محکموں کو منتقل کر کے بے اختیار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 28 فروری 2022ء کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی جیسے بلدیاتی اداروںکے تمام کاموں کو بحال کیا جائے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی جماعت صوبائی حکومت کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر لوکل گورنمنٹ قانون میں موثر ترامیم متعارف کروانے کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ لوکل گورنمنٹ اداروں کو بااختیار بنایا جا سکے جیسا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تصور کیا گیا ہے۔ تاہم، ایم کیو ایم-پی کے رہنماؤں نے سندھ کابینہ کے بلدیاتی انتخابات کو تین ماہ کے لیے ملتوی کرنے کے فیصلے کی توثیق سے انکار کیا، اور واضح کیا کہ ان کا موقف صوبے میں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے مناسب قانون سازی کو یقینی بنانا تھا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News