
مصور، مجسمہ ساز، آرت کے استاد اور نیشنل کالج آف آرٹس کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری سے بول نیوز کی گفت گو
پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری ایک مصور، مجسمہ ساز، مسودہ ساز اور آرٹ کے استاد ہیں جو 1987ء سے تدریسی میدان میں اپنی بے مثال خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔انہوں نے اپنی تعلیم انگلینڈ، کینیڈا اور پاکستان سے مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں سے حاصل کی۔مرتضیٰ جعفری 1989ءسے 1990ء کے درمیان پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد میں ڈائریکٹر رہے۔اس وقت پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
س
یہ بتایئے کہ آپ اس میدان میں کیسے آئے ؟ آ پ کو موقع ملا یا پھر قسمت یہاں لے آئی؟
جواب: آرٹس کے شعبے میں میرا داخلہ خالصتاً ایک اتفاق تھا۔ عام طور پر، اگر ہم نیشنل کالج آف آرٹس میں داخل ہونے والے افراد کے بارے میں بات کریں تو وہ آرٹس کی طرف مائل ہوتے ہیں، جیسا کہ 38 سال پہلے میرا رجحان بھی اسی جانب تھا۔انجینئرنگ یا میڈیسن کے شعبے میں داخلہ لینے کی روایت کو توڑتے ہوئے طلباء یہاں اپلائی کرتے ہیں۔لہذا، کچھ کے لیے یہ خالص سائنس کے شعبوں سے فرار کا واحد راستہ ہے اورلیکن اکثر کےلیے یہ ایک ایسا سفر ہے جس کے انہوں نے خواب دیکھ رکھے ہوتے ہیں ۔میرے معاملے میں یہ ایک ایسا راستہ تھا جس کےلیے میں خاصا پرُ جوش ہوگیا اور اب بھی اس سے بے حد متاثر ہوں ۔ میں اپنی زندگی کے ہر گزرتے لمحے اس کے ساتھ جڑا رہتا ہوں ۔ مجھے یاد ہے کہ میں این سی اے میں داخلے کے لیے ڈرائنگ ٹیسٹ دیتے وقت میں بہت ہچکچا رہا تھا۔
اگر چہ اُ س وقت مقابلہ 6 ہزار سے زائد امیدواروں کے درمیان نہیں تھا ۔ صرف 200 کے قریب لوگ اس کےلیے درخواست دے رہے تھے ، میں اس کے باوجود خوفزدہ تھا۔مجھے یاد ہےکہ میں ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے پر خاصا مایوس تھا۔ بالکل کسی ایسے فنکار کی طرح جو خود کبھی اپنے کام کی تعریف نہیں کرتا۔لیکن شاید میری قسمت اچھی تھی کہ میں منتخب ہو گیا اور یہاں تک کا سفر کیا۔
س
کیا آپ کے فیصلے سے والدین خوش اور مطمئن تھے ؟
جواب: واقعی طور پر تو ایسا نہیں کہہ سکتے ، میرے والدین نے ایسا رد عمل ظاہر کیا کہ جیسے یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔ اصل میں وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ میں جو چاہوں وہ کروں ۔ انہوں نے کبھی بھی انجینئرنگ یا میڈیسن کے لیے مجھ پر دباؤ نہیں ڈالا۔ کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اس مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجھے کوئی نہ کوئی نوکری تو مل جائے گی۔ ہمارے خاندان میں نوکری کے ملنے یا نہ ملنے کے تعلق کو تعلیم یا ڈگری کے حصول سے نہیں جوڑا جاتا تھا ۔ میرے خاندان نے کبھی بھی اس خواہش کا اظہا ر نہیں کیا کہ میں صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کی نوکری کروں ۔
س
کیا یہ کہا جاسکتا ہےکہ آپ کو کاروباری امور میں دلچسپی تھی ؟
جواب: نہیں ، دیکھیں کسی بھی ریاضی دان کےلیے دو جمع دو چار ہی ہوتے ہیں لیکن ایک فنکار کےلیے یہ بالکل بھی ایسا نہیں ہے۔آج کی دنیا کا تعلق حقیقی فن کی وضاحت کے اظہار سے ہے۔اگر کسی کی اہلیت حساب کتاب نہیں بلکہ ایک فن ہے تو آپ اعداد و شمار کے حلقے میں قابل احترام اور مثالی نہیں کہلا سکتے ۔ہیرے کی قدر ہمیشہ جوہری کو ہی ہوتی ہے۔
س
این سی اے نےملک بھر کو فنون لطیفہ سے تعلق رکھنی والی نام ور شخصیات دی ہیں، ہمیں اس کی تاریخ کے بارے میں تھوڑا سا بتائیں۔
جواب: نیشنل کالج آف آرٹس ایک ادارہ ہے جو 150 سال قبل قائم کیا گیا تھا۔یہ بنیادی طور پر صنعتی بنیادوں پر ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ یہاں سے تیار ہونے والے فن کار دنیا بھر میں ملک بھر کا نام روشن کرسکیں۔یہ آرٹس کالج نہ صرف ماہرین تعلیم کے لحاظ سے فن پر مبنی تھا بلکہ اس نے طلبا میں نظریاتی علم کے حصول کے ساتھ ساتھ عملی مہارت حاصل کرنے کا جوش بھی پیدا کیا۔ جلد ہی اس کا نام آرٹ کالج سے بدل کر نیشنل کالج آف آرٹس کر دیا گیا۔اگرچہ نام بدلنا کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے لیکن این سی اے میں کام کے معیار نے اسے ایک برانڈ بنا دیا ہے اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہے۔
س
یہ تاریخی عمارت طویل عرصے سے دنیا بھر کے مشہور فنکاروں کے افسانوی شاہکاروں کا گھر رہی ہے۔ وہ کیسے محفوظ ہیں؟
جواب: یہاں پیش کیے گئے تمام فن پارے اور اسٹرکچرز اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان اسٹرکچرز کا تقدس تاحال برقرا رہے۔لہذا، ہم کبھی بھی ان کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لوگ ہمارے اس کام سے متاثر ہوکر تعریف بھی کرتے ہیں ۔چاہے کوئی عمارت ہو یا انسانی جسم ، سب کا اپنا ایک ماحول،چمک،مخصوص احساس(وائب) اور طریقہ اظہار ہوتا ہے۔لہذا ہم تصور شدہ ڈھانچے کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ہمارے پاس جگہ کی کمی ہوتی جارہی ہے لیکن ہم اس حوالے سے بھی کام کر رہے ہیں۔
س
کیا یہ درست ہے کہ آپ پاکستان کے پہلے فائن آرٹس پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں؟
جواب: جی ہاں، میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد 2002 ء میں یہاں آیا تھا، جس کے بعد ہم نے پنجاب یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں بھی پی ایچ ڈی پروگرام کے اندراج شروع کیے تھے۔میں کوئٹہ سے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا تک پورے پاکستان میں پی ایچ ڈی کی نگرانی کرتا رہا ہوں۔
س
کیا این سی اے میں داخلہ لینا بہت مشکل ہے؟ ڈاخلہ لینے کا معیار کیا ہے؟
جواب: این سی اے میں اندراج شدہ طلباء کی موجودہ تعداد 18 سو ہے۔ہر سال ہمیں 5 ہزار سے زائد داخلے کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں ۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ہم نے مختلف ڈگری پروگراموں میں نئے شعبے اور کورسز متعارف کروا دیئے ہیں ۔ درخواست دینے والوں کو اسکریننگ ٹیسٹوں کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں ڈرائنگ ٹیسٹ، قابلیت ٹیسٹ اور انٹرویو شامل ہیں۔ ہم ہمیشہ مستحق اہلیت کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔مزید یہ کہ ہم نے کلچرل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں نئے مضامین شامل کرنے کے ساتھ شعبہ موسیقی کا بھی آغاز کردیا ہے۔ یونیورسٹی میں بین الاقوامی سطح پر معروف تعلیمی معیارات کی وجہ سے لوگ بیرون ملک کی نسبت یہاں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
س
آپ کے خیال میں وہ کو ن سی خصوصیات ہیں جو ایک فن کار کوکسی عام آدمی سے ممتاز کرتی ہیں ؟
جواب: میرے خیال میں ہر انسان مختلف صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے کیونکہ انہیں اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف اس بات پر منحصر ہے کہ وہ حقیقت کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ فنکار خاص طور پر کچھ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں ۔ہم یہاں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے ، فن کو سیکھنے کا تعلق دماغ سے نہیں بلکہ دل سے ہوتا ہے۔قابل تعریف فنکار ہونے کے لیے ’ دیوانہ‘ دل چاہیے۔ایسا دل جو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا خواہشمند ہو۔ ہم صرف ایسے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جو کسی حد تک دیوانے ہوں ۔
س
پکاسو کا کہنا تھا کہ زندگی میں بڑی کام یابیوں کے لیے تنہائی کا ہونا ضروری ہے۔آپ اپنی روزمرہ کی زندگی اور کام کے درمیان توازن کس طرح برقرار رکھتے ہیں۔
جواب : میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ اپنے تمام ساتھیوں، ساتھیوں اور طلباء کو جب بھی میری ضرورت ہو ،میں ان کے لیے دستیاب ہوں۔ میں دن کا تقریباً دو تہائی حصہ این سی اے میں گذارتا ہوں اور شام 5 بجے گھر واپس آتا ہوں ۔ پھرباقی وقت میں باآسانی اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ گزار تا ہوں ۔ میں ہمیشہ صحت مند زندگی گذارنے کے حق میں ہوں اور زندگی کے تمام امور میں توازن رکھنے کو یقینی بناتا ہوں۔
س
یہ بتایئے کہ آرٹ ہمارے معاشرے کے لیے کتنا اہم ہے؟
جواب: یہ بڑا اچھا سوال ہے۔ میرا ماننا ہے کہ معاشرے زبان، ثقافت اور روایات کے اصولوں کے تحت بنتے ہیں جب کہ آرٹ اس کی محض نمائندگی کرتا ہے۔یہ عوام میں برداشت اور تحمل پیدا کرتا ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اپنے پاؤں کو کسی دوسرے کے جوتے میں ڈالنے کی کوشش کی جائے ۔یہ نہ صرف اظہار خیال کے لیے انسانی صلاحیت کو تقویت بخشتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ اگر اس کا استعمال اور مشاہدہ تعریفی انداز میں کیا جائے تو یہ انقلاب لا سکتا ہے۔
آرٹ میں علم کی طاقت موجود ہے جس کی وسعت ہے۔ضرورت صرف اس کوصحیح تناسب میں، صحیح وقت پر ایک بہتر معیار کے ساتھ فروغ دینے کی ہے اور میرے خیال میں ایک اچھا فنکار یقینی طور پر یہ سب جانتا ہے۔
س
این سی اےآ پ کی قیادت میں سیلاب زدگان کے لیے تاریخی ریلیف
فنڈ جمع کرنے میں کامیاب رہا۔اس حوالے سے این سی اے کے کردار
کے بارے میں کچھ بتایئے ۔
جواب:حالیہ سیلاب نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی قدرے غیر متوقع تھی۔ سچ پوچھیں تو میں نے اپنی پوری زندگی میں آج تک اس ملک کا ایک تہائی حصہ سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا نہیں دیکھا ۔جب ہم نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے امدادی سرگرمیوں کے لیے اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا تو ہمیں بنیادی مصنوعات جیسے خیمے، خوراک، ادویات، کپڑوں وغیرہ کی ہوشربا قیمتوں کا شدت سے احساس ہوا۔خاص طور پر میں ایک مثال پیش کروں کہ ایک خیمہ جس کی لاگت 4 ہزار روپے ہے،وہ آجکل 14 ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔یہ عمل یقینی طور پر ایک بے رحم معاشرے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
میں یہ بتاتا چلوں کہ سیلاب متاثرین کو خیمے فراہم کرنےکےلیے این سی اےکے انڈر گریجویٹ طلباء نے مل کر کام کیا۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ طلباء نے یہ کام بہت موثر طریقے سے انجام دیا ہے۔تقریباً 700 خیموں کو تیار کرنے میں 3 سے 4 روز کا وقت لگا ۔اس سامان کو جلد ہی متاثرین تک پہنچا دیا جائےگا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ سامان سے لدے ٹرکوں کو راستے میں روک لیا گیا۔اس لیے مجھے خود کوئٹہ، سکھر، خیرپور اور جعفرآباد جانا پڑا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی ترسیل اسی جوش اور جذبے کے ساتھ عمل میں لائی جائے جس جذبے سے طلباء نے انہیں تیار کیا ہے تاکہ سیلاب متاثرین کی بروقت مدد کی جا سکے۔ہماری سیلاب سے متعلق امدادی سرگرمیاں تاحال جاری ہیں اور ہم اپنے ملک کے تمام لوگوں کی مدد کو تحریک دینے کے اصول پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News