Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

دریائے سندھ کی کہانیاں

Now Reading:

دریائے سندھ کی کہانیاں

پانی بھر کر لانا عورت کا کام ہے،خواتین اور پانی کا مسئلہ ایک دوسرے سے وابستہ ہے، اگر وہ پانی کی ایک بوند بھی گرائیں گی تو ان پر تشددکیاجاتا ہے

پاکستان بلند و بالا پہاڑوں سے لے کر صحراؤں تک اپنے لازوال حسن کے حوالے سے معروف ہے۔ پاکستان کی ایک خصوصیت کافی مشہور ہے اور وہ ہے ملک میں بہنے والا سب سے بڑا دریا، جسے دریائے سندھ کہتے ہیں۔

جیسا کہ زیادہ تر زرعی معاشرے اور تہذیبیں اس شاندار دریا کے کنارے پر قائم ہیں۔ دریا اس وقت تک اپنی پوری جولانی کے ساتھ بہتا ہے، جب تک کہ یہ نچلی سطح تک پہنچ پرسکون نہیں ہوجاتا ہے۔ فلمساز وجاہت ملک نے بیڑے پر دریا کی پوری لمبائی کا سفر کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ انہوں نے شروع سے ہی بپھرے ہوئے دریا کی شاندار تصاویر کھینچیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک ہوٹل میں فریڈرک ناؤمن پاکستان (ایف این ایف) کے زیر اہتمام ایک تقریب میں ’دریائے سندھ: ثقافت اور معیشت کا سنگم‘ کے عنوان سے اپنی دستاویزی فلم کے کچھ حصے دکھائے۔ پینلسٹ میں وجاہت ملک، عافیہ سلام (ماہر ماحولیات)، سیمی کمال (مصنف اور پانی کی ماہر) اور کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر عامر حمید شامل تھے۔

وجاہت ملک نے کہا کہ میں پورے دریائے سندھ کے کناروں کا سفر کرنا چاہتا تھا، اور ایسا کرنے والا میں پہلا شخص ہوں، ہم نے اپنی مہم 45 دنوں میں مکمل کی، یہ ایک چیلنج تھا لیکن میں نے اسے مکمل کر لیا، میں اس زندگی کو برقرار رکھنے والے دریا کے بارے میں ایک شاندار دستاویزی فلم بھی بنانا چاہتا تھا۔وجاہت ملک نے اس مہم کی قیادت کی، جو ہمالیہ سے شروع ہو کر کوٹری میں ختم ہوئی۔

Advertisement

جیسے ہی کیمرہ نے اس مہم کی عکس بندی شروع کی، چمک دار نیلے رنگ کے دریا نے بتدریج آلودہ اور ناخوشگوار رنگت اختیار کرلی، جیسے جیسے یہ اچھلتا بل کھاتا اور وسیع ہوتا گیا، کچھ مقامات پر دریائی گذر گاہیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، کیونکہ وہاں پانی کا کوئی وجود نہیں تھا۔

اس مہم میں شریک عافیہ سلام نے دریائے سندھ میں پائی جانے والی اس آلودگی کی وضاحت کی ، انہوں نے کہا کہ دریائے کابل اور دریائے سندھ کے سنگم میں پودوں کی ایسی انواع دیکھی گئیں، جنہیں اس خاص مقام پر نہیں اگنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ آلودگی نمایاں نظر آ رہی تھی، میرا مطلب ہے کہ لوگ دریا میں کوڑا ڈالتے ہیں اور پھر اس میں صنعتی فضلہ ڈالا جاتا ہے، جس سے دریا بہت آلودہ ہو جاتا ہے۔ ہم اس کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن پالیسی ساز اس کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ ہم سندھ میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور پانی کی کمی پر تکلیف کا اظہار کرتے ہیں، آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جب پانی سندھ میں داخل ہوتا ہے تو کیسے اس کی رنگت بدل جاتی ہے، شاید ہی اس کا کوئی حصہ آلودگی سے بچا ہو۔

یہ مہم کوٹری بیراج پہنچ کر مکمل ہوئی، جہاں دریائی گزرگاہ خشک تھی۔ اپنے منفرد ماحولیاتی نظام سے بھرپور ڈیلٹا کی زمین تاریک لگ رہی تھی۔ بحیرہ عرب نے ڈیلٹا کے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے، جس سے زمین بنجر ہو رہی ہے اور مسلسل ماحولیاتی نظام تباہ ہو رہا ہے۔

وجاہت ملک نے کہا کہ جیسا کہ آپ کو علم ہے میں شاعرانہ استعارے میں کہنا چاہوں گا کہ سمندر طویل عرصے سے اپنی سہیلی کو دیکھنے کے لیے ترستا ہے، اور اگر وہ سہیلی نہ آئے تو سمندر اس سے ملنے کے لیے اندر کی طرف آنا چاہتا ہے۔ اس سے زمین بنجر اور پانی بہت کھارا ہو رہا ہے، اس کے بارے میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

سیمی کمال نے دریائے سندھ کو ماں سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ جانتے ہیں یہ دریا ہماری ماں کی طرح ہے، ماں آپ کی بات سنے گی لیکن اگر آپ نے بدتمیزی کی تو ماں سخت گیر ہوجائے گی جیسا کہ آپ سب نے سیلاب کی صورت اس کا غصہ دیکھا۔

Advertisement

عامر حمید نے بتایا کہ ڈیلٹا ریجن کے قریب دریائے سندھ کے خشک ہونے کی بنیادی وجہ پانی کا ناقص انتظام ہے۔ دریائی بیڈ کی بجائے پانی کو کھیتوں میں منتقل کردیا جاتا ہے، پانی کی شدید بدانتظامی ہے اور کوئی بھی اس سنگین صورتحال کا نوٹس نہیں لینا چاہتا اور نہ ہی کوئی مؤقف اپنانا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وادی سندھ کی تہذیب کا گھر دریا نے کئی ہزار سال تک زندگی کو برقرار رکھا، جیسے جیسے لوگ اس کے کنارے آباد ہوتے، ثقافت اس کے ساتھ ساتھ پروان چڑھی۔ چاہے وہ موجودہ دور ہو یا 4000 سال قبل کا، زرعی معیشت میں دریا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ دریا ’’نابینا ڈولفن‘‘ کا بھی میزبان ہے، جسے اب خطرے سے دوچار نسل سمجھا جاتا ہے کیونکہ دریا میں صرف 1400 نابینا ڈولفن باقی رہ گئی ہیں۔

عامر حمید نے کہا کہ یہ قدرت کا نظام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دریا اپنا رخ بدلتا ہے اور زمین کو ختم کر دیتا ہے، جو اس کے کناروں پر رہنے والے بہت سے لوگوں کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ ان کے پاس منتقل ہونے کے لیے کوئی متبادل زمین نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ اگر دریا کے کناروں پر درخت لگائے جاتے تو یہ مسئلہ اتنا شدید نہ ہوتا، یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں جو کہ زمینی کٹاؤ کو روکنے کا کام کر سکتی ہیں، درخت ماحولیات کے لیے بھی مفید ہیں، لیکن ہمیں مسئلہ کو بڑھاتے ہوئے درختوں کو ختم کرنا پسند ہے۔

ایف این ایف پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر برجٹ لیم نے کہا کہ 50 فیصد پانی بخارات بن اڑ جاتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں پانی کی ضرورت ہے، یہ ایک پیچیدہ نظام ہے۔ پانی کا صحیح طریقے سے انتظام نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ موسمیاتی تعلیم اہم ہے، ہر ایک کو اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، نہ صرف حکومت کو بلکہ ہم سب کو اس کے مطابق تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جنگلات کی بحالی ایک بہترین پالیسی ہے، کیوں کہ جنگلات قدرتی ایئر کنڈیشنر کا کام کرتے ہیں اور زمین کے کٹاؤ کو قدرتی طور پر روکتے ہیں۔

جمہوریہ جرمنی کے کونسل جنرل روڈیگر ایل اوٹز نے کہا کہ پانی کے انتظام کی اہمیت واضح ہے، ظاہر ہے کہ بارشوں کو روکا نہیں جا سکتا، کچھ حد تک قدرتی اور جزوی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب نے زرخیز زمین کو کئی سال کے لیے تباہ کر دیا، اس سے متعدد افراد کی خوراک منسلک ہے اور پھر اس سے امراض بھی بڑھ جاتے ہیں۔اب یہ نوجوان نسل کی ذمہ داری ہے، انہیں پانی کے انتظام کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے دریا وسیع ہوتا ہے، اس کی گہرائی کم ہوتی جاتی ہے، یہ علاقہ ’کچے کے ڈاکو‘ (مرطوب علاقوں کے ڈاکو)کی میزبانی کرتا ہے، جو اپنی ڈکیتیوں اور قتلوں کے لیے بدنام ہیں، حال ہی میں انہوں نے اوباڑو گاؤں کے قریب 5 پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا۔ ڈاکو اپنے ضابطوں اور انداز سے جیتے ہیں،وہ اپنی بقا کے لیےآتشیں اسلحے کی اسمگلنگ اور تاوان کے لیے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں۔ کئی چھاپوں کے باوجود ڈاکو اب بھی علاقے میں پنپ رہے ہیں، کیونکہ وہ دیہاتیوں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔

Advertisement

عافیہ سلام نے کہا کہ دریا زندگی اور معیشت کو سہارا دیتا ہے، کیونکہ یہ سفر کے لیے قدرتی آبی ذخائر کے طور پر کام کرتا ہے، اپنے ساتھ پہاڑوں سے معدنیات سمیت پلاکٹن اور مچھلی کے وسیع وسائل لاتا ہے۔ دریا کے پاس سنانے کے لیے بہت سی کہانیاں ہیں، ایسی ہی ایک کہانی خواتین کی حالت زار کی ہے۔دیہی علاقوں میں یہ ایک عام بات ہے کہ گھر کی عورت پانی بھر کر لاتی ہے۔ جیسے جیسے پانی کی سطح کم ہورہی ہے، خواتین کو پانی کے لیے زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، جس میں ان کا زیادہ وقت اور توانائی خرچ ہوتی ہے، جیسے جیسے پانی کی سطح گرتی ہے، خواتین خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی لے جانے پر مجبور ہوتی ہیں اور ایسا کرنے میں ناکامی کا نتیجہ سخت سزا ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی بالکل، خواتین اور پانی کا مسئلہ ایک دوسرے سے وابستہ ہے، اگر وہ پانی کی ایک بوند بھی گرائیں گی تو ان پر تشددکیاجاتا ہے، پانی لانا ان کا فرض ہے، یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم اسکولوں سے لڑکیوں کے اتنے زیادہ نکلنے کی شرح دیکھ رہے ہیں۔ اگر سارا دن صرف پانی لانے میں گزر جائے تو لڑکی کے پاس پڑھنے کا وقت کہاں ہوگا؟

دریائے سندھ ڈیلٹا پر ختم ہوتا ہے، لیکن اس کا طویل راستہ ایڈونچر اور اسرار سے بھرا ہوا ہے۔ کچھ کہانیاں سراسر افسردہ کرنے والی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس عظیم دریا کے لیے کون بولے گا؟ ان لوگوں کو بولنا چاہئے، جوچاہے زراعت، نقل و حمل، سیاحت یا معیشت کے ذریعے اس سے وابستہ ہیں. پانی کا صحیح انتظام کیا جائے تو امید ہے ورنہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ دکھ کی داستان بن جائے گا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
امریکا بگرام ایئربیس کی واپسی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، ذبیح اللہ مجاہد
شکتی سائیکلون کے اثرات، کوئٹہ میں گرد و غبار کا طوفان، حدِ نگاہ صفر کے قریب
کراچی میں جرائم بے قابو، 9 ماہ میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں 50 ہزار کے قریب پہنچ گئیں
غزہ میں ہولناک تباہی، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں لرزا دینے والے حقائق بے نقاب
اسرائیل و حماس میں بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور آج ہو گا، جنگ بندی پر پیش رفت متوقع
سینیٹ اور قومی اسمبلی اجلاس سے پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ، ن لیگ سے معافی کا مطالبہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر