
قبروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے موت کو بھی تعیشات میں شامل کردیا
3 کروڑ زندہ افراد کے شہر میں مردہ کو دفن کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ آبادی کے دباؤ کی وجہ سے زندہ اور مردہ دونوں کے لیے زمین کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔
شہر میں ایک قبر کا سرکاری ریٹ اب 14ہزار3سو روپے ہے۔ مزید یہ کہ قبر کھودنے والا گورکن قبرستان، علاقے اورقبر کھودنے کی محنت کے لحاظ سے 25ہزار روپے یا اس سے زیادہ وصول کرتا ہے۔
سخی حسن میں ایک گورکن علی نے بتایا کہ لوگ اپنے پیاروں کی قبروں کے ساتھ اپنے مُردوں کو دفن کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ قبرستان میں گنجائش اب تقریباً ختم ہوچکی ہے، اس لیے مطلوبہ جگہ پرقبر کھودنا مشکل ہے،اس لیے ہم ان کے لیے جگہ بنانے کے لیے اضافی قیمت وصول کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چارجز سماجی مقام و مرتبے کے مطابق مختلف ہوتے ہیں اورتھوڑے بحث و مباحثے کے بعد زیادہ تر سودے 35ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان طے ہوجاتے ہیں۔
کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب سے متعدد بار کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا۔ تاہم ان کے دفتر کے ترجمان علی حسن ساجد شہر میں قبرستانوں کی کمی سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس مقصد کے لیے مزید زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
علی حسن ساجد کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے حال ہی میں مضافاتی علاقے سعید آباد میں 55 ایکڑ اور سرجانی ٹاؤن میں مزید 16 ایکڑ زمین مختص کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہر میں 203 قبرستان ہیں، جن کی نگرانی کے ایم سی، کنٹونمنٹ بورڈز اور کمیونٹیز کر رہے ہیں۔
دوسری جانب کے ایم سی کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 200 سے زائد قبرستان ہیں،جن میں سے 38 کے ایم سی کے زیرانتظام ہیں۔ تقریباً 100 دیگر قبرستان مختلف برادریوں کے زیرانتظام ہیں اور باقی مختلف اقلیتوں کے قبرستان ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہلکار نے بتایا کہ ڈیٹا اصل اعداد و شمار ظاہر نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں کے ایم سی کے زیرانتظام 42 قبرستان ہیں جب کہ 100 سے زائد ایسے قبرستان ہیں جن کی نگرانی مختلف برادریاں کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر بوہرہ برادری کے پاس سخی حسن اور میوا شاہ قبرستانوں کے حصے تھے۔ حال ہی میں بوہرہ برادری کو سپر ہائی وے پر قبرستانوں کے لیے رعایتی نرخ پر زمین فراہم کی گئی۔
مختلف قبرستانوں میں گورکنوں کی جانب سے وصول کیے جانے والے اضافی معاوضے کے بارے میں، انہوں نے کہا کہ کسی بھی قبرستان میں کے ایم سی کا کوئی عملہ تعینات نہیں ہے۔ ایک قبرستان کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے 150 سے 250 افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اتنے بڑے عملے میں تنخواہیں تقسیم کرنے کے لیے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں اس لیے ہم نے قبرستانوں میں کوئی ملازم تعینات نہیں کیا۔ قبرستانوں کو گورکن اپنے طور پر چلا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ کے ایم سی اوور چارجنگ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ ان کا خود مختار گورکنوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ کے ایم سی نے قبرستانوں کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کے ایم سی کا صفائی عملہ صرف شب برأت، عید الفطر اور عیدالاضحیٰ جیسے بڑے مواقع پر قبرستانوں میں تعینات کیا جاتا ہے۔ باقی پورا سال گورکن اپنے طور پر قبرستان صاف کرتے ہیں۔
کے ایم سی کے ایک اور سینئر اہلکار نے کہا کہ لوگوں کے مطالبات کی وجہ سے قیمتیں زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنی والدہ کو اپنے والد کی قبر کے پاس دفن کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اضافی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ہمارے پاس نادرن بائی پاس کے ساتھ قبرستان میں کافی گنجائش ہے لیکن لوگ وہاں جانا نہیں چاہتے۔
ایک اہلکار نے کہا کہ لوگ اپنے مردے کو قریبی قبرستان میں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اضافی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ یہ رجحان کم آمدنی والے لوگوں کو متاثر کرتا ہے جو کے ایم سی کی فیس بھی برداشت نہیں کر سکتے۔
کے ایم سی کے ڈائریکٹر قبرستان اقبال پرویز نے اس صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری فیس لازمی ہے۔ تاہم، ایک سیلف ہیلپ سسٹم موجود ہے، جس کے تحت کسی کو بھی مدد کی ضرورت ہے، وہ گورکن کے پاس دستیاب فون نمبروں پر رابطہ کر سکتا ہے۔ یہ نمبر تمام قبرستانوں میں آویزاں ہیں اور جو بھی سرکاری فیس ادا نہیں کر سکتا،وہ ہم سے رابطہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فیس ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو ،تو کسی کو قبر کی جگہ فراہم کرنے سے انکار نہیں کیا جاتا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News