گزشتہ دس سالوں میں قتل ہونے والے صحافیوں میں سے صرف چار فیصد کو انصاف ملا
پاکستان میں سال 2000ء سے اب تک ایک سو پچاس سے زائد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں سے 2012ء سے 2022ء تک 53 صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مجرموں کو صرف دو واقعات میں سزا دی گئی۔
پاکستان پریس فریڈم کی جانب سے جارہ کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی سے ایسے 96 فیصد کیسز انصاف کے منتظر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فوجداری نظام انصاف میں دو حوالوں سے ناامیدی سامنے آئی ہے۔ ایک یہ کہ ایف آئی آر درج ہی نہیں ہوئی اور دوسرا پولیس کی تفتیش خامیوں سے مزین رہی، جو مجرموں کو محفوظ راستہ فراہم کرتی رہی۔
دو نومبر کا دن تقریباً ایک دہائی سے صحافیوں کے خلاف جرائم کے لیے استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے تاہم رواں برس معروف صحافی ارشد شریف کی المناک موت نے اس طرف زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے اور صحافی برادری صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ضرورت کا اعادہ کر رہی ہے۔
طاقت کے غلط استعمال، بدعنوانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مجرمانہ سرگرمیوں، دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے پاکستان میں صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، ہراساں کیا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے، حراست میں لیا جاتا ہے اور جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ گولی تک مار دی جاتی ہے۔
میڈیا، غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیےکام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹس میں خلاف ورزیوں اور جرائم کو جامع طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
سینئر صحافی سمیع ابراہم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا سیاسی اور اشرافیہ کے کنٹرول کے درمیان مسلسل گھوم رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا بعض مفاد پرست گروہوں کا یرغمال ہے اور کچھ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیوں کے ساتھ مخالفانہ ماحول میں بھی کام کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ریگولیٹر بننے کے طور پر کام کرنے کی بجائے نامعلوم طاقتوں کی کٹھ پتلی بن کر کام کررہا ہے۔
صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں کی تعداد میں اضافے اور انہیں خاموش کرنے پر مجبور کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک صحافیوں کے تحفظ کا تعلق ہے، اگر ریاستی عناصر تشدد اور ہراساں کرنے میں ملوث ہیں تو صحافیوں کے تحفظ کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا واضح موقف ہے کہ آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لیے صحافیوں کے خلاف جرائم کے لیے استثنیٰ کا خاتمہ شرط ہے۔
ایک اور سینئر صحافی معصوم رضوی نے کہا کہ ویسے تو صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں تو یہ شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ’’قوانین میں خامیاں اور ادارہ جاتی ترجیحات کے مسئلے میں کردار ادا کرنے والے عوامل ہیں۔‘‘
معصوم رضوی کے خیال میں صحافی برادری میں تقسیم نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ وہ اپنی افادیت کھو کھو بیٹھا ہے اور جو لوگ دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں وہ آخر کار اپنا آپ ہی کھو بیٹھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خود کو اپنے ہی وطن میں غیر محفوظ محسوس کرتے ہوئے صحافیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہتری تبھی ممکن ہوگی جب تمام اسٹیک ہولڈرز قانون میں موجود خامیوں کو پُر کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔
پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہر سال تین سے چار قتل اکثر بدعنوانی یا غیر قانونی اسمگلنگ سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ ملک صحافیوں کے خلاف میڈیا کے دباؤ اور تشدد کی ایک تاریخ رکھتا ہے اور پچھلے کئی سالوں سے مسلسل بین الاقوامی میڈیا کے نگراں اداروں کی طرف سے صحافت پر عمل کرنے کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک کے طور پر درجہ بندی کی جاتی رہی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا پر نظر رکھنے والے اداروں کی جانب سے مسلسل خطرے کا انتباہ جاری کرنے کے باوجود صحافیوں کی جانوں کو لاحق خطرات اور ان کے خلاف تشدد کے واقعات پر بحث نہیں کی گئی۔
پاکستان پریس فریڈم کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق، مئی 2021ء سے اپریل 2022ء کے درمیان میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف حملوں اور خلاف ورزیوں کے کم از کم 86 واقعات ہوئے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News