جامعہ کراچی میں ساتھی ماہر تعلیم پر اقرباء پروری کا الزام عائد
جامعہ کراچی کے شعبے سینٹر آف ایکسی لینس فار ویمن اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر عالیہ بلگرامی نے فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز کی ڈین ڈاکٹر نصرت ادریس کے خلاف محکمے کے ماہرین تعلیم کی سنیارٹی لسٹنگ کے حوالے سے اقرباء پروری کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کرلیا ۔ پروفیسرڈاکٹر عالیہ بلگرامی نے الزام لگایا ہے کہ ڈاکٹر نصرت انہیں سینٹر آف ایکسی لینس فار ویمن اسٹڈیز کی چیئرپرسن شپ سے محروم کرنے کے لیے جمع کرائی گئی فائل سے تجربہ نامہ ہٹا کر دستاویزات میں ہیر پھیر کرنے میں ملوث ہیں ۔انہوں نے کہا ہےکہ مجھےڈاکٹر نصرت نے سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے تاکہ ان کی پسندیدہ ڈاکٹر عاصمہ منظور کا نام فہرست میں سب سے اوپر رکھا جا سکے۔ ڈاکٹر عالیہ بلگرامی نے مزید کہا کہ میرے لیے ادارے کے اندر سے انصاف کا ملنا ناممکن ہوگیا ہے ، اسی وجہ سے میں نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ بلگرامی نے دعویٰ کیا ہے کہ میں شعبہ خواتین میں پہلی پی ایچ ڈی تھی اور کسی دوسرے تعلیمی شعبے سے پہلے بی پی ایس (بیسک پے اسکیل )گریڈ19 میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئی، اس لیے ظاہر ہے کہ میں یہاں سب سے سینئر ہوں۔ان کا یہ بھی کہنا ہےکہ سب سے کم عمر اسسٹنٹ پروفیسر ہونے کے ناطے ، سنڈیکیٹ کے 2020 ء کے اصول کے مطابق سنیارٹی لسٹ میں سرفہرست ہونے کا میرا دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ کے مطابق ناانصافی کے خلاف بولنے پر انہیں ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہیں نہ صرف ڈاکٹر نصرت بلکہ ڈاکٹر عاصمہ کی جانب سے بھی ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے وہ جامعہ کراچی کے ہراسمنٹ کمیشن میں شکایت درج کرانے پر مجبور ہوئیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ڈین کے خلاف ان کی شکایت کو ہراساں کرنے والے کمیشن میں نہیں اٹھایا گیا کیونکہ ڈاکٹر عاصمہ منظور وہاں معاملات کی سربراہی کےلیے مقرر تھیں ۔
ڈاکٹر عالیہ بلگرامی نے خبردار کیا ہےکہ اس تمام صورتحال سے نہ صرف وہ متاثر ہو رہی ہیں بلکہ یونیورسٹی کی ساکھ بھی داؤ پر لگ گئی ہے کیونکہ انہیں 25 نومبر کو اقوام متحدہ کے تعاون سے ’قدرتی آفات کے دوران صنفی بنیاد پر تشدد‘جیسے حساس معاملے پر کراچی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے انعقاد سے روک دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ بلگرامی نے یہ بھی بتایا کہ طے شدہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے انہوں نے درخواستیں وائس چانسلر اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سائنسز کے دفاتر میں جمع کرائی تھیں جو وہاں موصول ہوچکی ہیں ۔تاہم ڈاکٹر عالیہ بلگرامی نے الزام لگایا ہے کہ ڈاکٹر عاصمہ نے سینٹر آف ویمن اسٹڈیز میں آپریشنز کی انچارج ہونے کی وجہ سے انہیں کانفرنس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی۔
ڈاکٹر نصرت ادریس سے جب ان پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ڈین ہونے کے ناطے میں اکیڈمی کی دیکھ بھال کرتی ہوں اور محکمہ کے چیئرپرسن کے طور پر کسی کی تقرری کے حوالے سے میرا کوئی کردار نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ معاملہ چونکہ اب عدالت میں ہے اس لیے میں اس حوالے سے بات نہیں کرنا چاہتی ۔
ماہرین تعلیم کی سنیارٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نصرت ادریس نے کراچی یونیورسٹی کے ایک اصول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس نے یونیورسٹی میں زیادہ سے زیادہ گھنٹے خدمات انجام دی ہوں، اسے سب سے سینئر سمجھا جاتا ہے، لیکن جب سنڈیکیٹ کے ذریعہ 2020 ء میں اس کی توجہ اس فیصلے کی طرف مبذول کروائی گئی کہ کوئی بھی ماہر تعلیم جو پہلے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر تعینات ہوتا ہے اور اس کا تجربہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نصرت ادریس نے اس حکم کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا کہ ایسے فرد کو چیئرمین یا چیئرپرسن کے لئے سب سے سینئر امیدوار کے طور پر سمجھا جانا چاہئے۔ڈاکٹر نصرت ادریس نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ممکنہ طور پر سنڈیکیٹ کا فیصلہ ابہام سے بھرا ہو ا ہوسکتاہے ۔
ڈاکٹر عالیہ بلگرامی کو کانفرنس منعقد کرنے سے منع کرنے کے فیصلے کے حوالے سے بات کرنے کےلیے جب ڈاکٹر عاصمہ منظور سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ایسی کوئی بھی درخواست موصول ہونے سے صاف انکار کردیا۔تاہم دونوں ماہرین تعلیم ڈاکٹر نصرت اور ڈاکٹر اسماء نے ڈاکٹر عالیہ کی جانب سے لگائے گئے ہراساں کیے جانے کے الزامات کی تردید کردی ۔
یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ ڈاکٹر نصرت ادریس کی بطور ڈین تقرری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ڈاکٹر عاصمہ منظور کو کراچی یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کمیشن کی انچارج مقرر کر دیا گیا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News