
سجاول سے سندھی اسٹیج ڈراموں کی بحالی کا آغاز
سندھ میں اسٹیج ڈراموں کی بحالی کے موقع پر، شائقین اپنے پسندیدہ مقامی فنکاروں کو ایک طویل عرصے کے بعد اتحاد اور بین المذاہب ہم آہنگی کے منفرد موضوع پر پرفارم کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے سجاول کے شیرازی ہال میں جمع ہوئے۔
یہ خیال مرکزی بینک، یورپی یونین اور مختلف این جی اوز کے دماغ کی اختراع تھی جنہوں نے محکمہ ثقافت سندھ سے رابطہ کرکے اس پر سندھی اسٹیج ڈراموں کی بحالی میں فعال کردار ادا کرنےپر زور دیا۔ اس اقدام نے صوبائی سطح پر اسٹیج ڈراموں کے ختم ہونے والے رجحان میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔
سندھ کے نشیبی علاقوں کے ٹیلنٹ کو فروغ دینے کی ضرورت کے پیش نظر نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA) کراچی نے پاکستان آرٹس کونسل اور محکمہ ثقافت سندھ کے تعاون سے ایک میگا اسٹیج ڈرامہ ’جان دیے میں تیل کونھے‘ (تیل کے بغیر مٹی کا چراغ) پیش کیا۔ اکتوبر کے آخری ہفتے سے سجاول کے شیرازی ہال میں یہ ڈرامہ ضلع بھر سے تھیٹر کے شائقین کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
ڈرامے کے ہدایت کار رفیق عیسانی، جنہوں نے 900 سے زائد اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری کی ہے، اپنے آبائی ضلع سجاول میں عوام کے زبردست ردعمل کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ راقم سے گفتگو کرتے ہوئے رفیق عیسانی نے کہا’’میرا بنیادی مقصد مقامی ٹیلنٹ کو فروغ دینا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ناپا کا مقصد اس اقدام کے ذریعے، اسٹیج اداکاروں کی مالی حالت کو بہتر بنانا ہے جو ملک میں اسٹیج ڈراموں کے کم ہوتے رجحان کے بعد بحران سے دوچار ہوگئے تھے۔
سندھی اسٹیج ڈراموں کی تاریخ کی جڑیں آزادی سے پہلے کے دور سے جا ملتی ہیں جب فنکار چوک یا کھلے میدانوں میں پرفارم کیا کرتے تھے، او ر لوگ اپنے گھروں سے نکل کر انہیں دیکھنے کے لیے جمع ہوجایا کرتے تھے۔ فن کار ان کی دہلیز پر بھی تفریح کا سامان کیا کرتے تھے۔ وسائل کم تھے اور لوگوں کو تفریح تک آسان رسائی حاصل نہیں تھی۔
یہ ڈرامہ، جسے لالہ گوبند مالی نے لکھا تھا، اتحاد، بین المذاہب ہم آہنگی اور ثقافتی اصولوں کی اہمیت کے گرد گھومتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈرامے میں ایمانداری اور عزم کا پیغام بھی دیا گیا ہے۔ اس پلیٹ فارم نے مقامی اداکاروں کو اپنی اداکاری کی مہارت کو اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا ایک بڑا موقع فراہم کیا ہے۔ ڈرامے میں سندھی کے معروف فنکاروں بشمول عرس ناریجو، جاوید ٹاکانی، خدا ڈنو تھارانی، گل محمد، ندیم کھٹی اور عائشہ مہک نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔
اداکار برکت علی، جو 70 کے پیٹے میں ہیں، نے خوشگوار یادوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ میں نے، اپنے ایک قریبی دوست انور اور غلام مصطفیٰ جو اب کراچی میں رہتے ہیں ، نے سجاول میں ایک آرٹ سرکل بنایا تھا جس کے ذریعے 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہمارے سپاہیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے تاریخی اسٹیج ڈرامے پیش کیے تھے۔ ہم نے اپنے کام کے ذریعے عوام میں حب الوطنی کا جذبہ بھی بیدار کیا اور ہمارا اسٹیج ڈرامہ ’مجاہد اعظم‘ راتوں رات بے انتہا مقبول ہو گیا اور ہم تقریباً 50ہزار روپے جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے جو اس وقت بہت بڑی رقم تھی، یہ رقم ہم نے ضلعی کمشنر کے حوالے کر دی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم نے قومی گیت گائے جو اس دوران ریڈیو پاکستان سے نشر کیے گئے۔‘‘
ایک مقامی فنکار عرس ناریجو کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹیلی ویژن پر بھی کام کیا ہے لیکن اسٹیج ڈرامے ان کے لیے اسکول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسٹیج آرٹ کی دنیا کا ایک اور مقبول نام ندیم کھٹی کو صوبے بھر میں اسٹیج ڈراموں کا رجحان کم ہونے کے بعد جن مشکل وقتوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سے لے کر اب تک یہ سفر بہت مشکل رہا ہے۔ لاڑکانہ میں گلوکار سے اداکار بننے والے سعید تونیو اور روشن شیخ نے متعدد رکاوٹوں کے باوجود اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔
سندھ میں اسٹیج ڈراموں کے سنہری دور کے بارے میں بات کرتے ہوئے عیسانی نے کہا کہ 80 ء اور 90 ء کی دہائیوں میں سندھی، اردو اور پنجابی اسٹیج ڈرامے اپنے عروج پر تھے یہاں تک کہ معاشرے کا متمول طبقہ بھی اہم اور دل چسپ مواد اور معنی خیز کہانی کی وجہ سے اسٹیج ڈرامے دیکھنے کو ترجیح دیتا تھا۔
رفیق عیسانی نے مزید کہا کہ 1985 ء سے 1988 ء تک سندھ کے نامور ادباء نے کچھ یادگار اسٹیج ڈرامے لکھے جنہوں نے جاگیرداری اور آمریت کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کی۔ یوسف پنہور، شوکت حسین شورو، آغا سلیم، شیخ ایاز، امر جلیل، نور الہدیٰ شاہ اور اے کیو جونیجو نے اپنی شاندار تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے سندھی ڈراموں کو بہتر بنایا اور اسی طرح سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح سجاول میں اسٹیج ڈراموں کی اپنی تاریخ ہے، عمر ملاح، سلام تہیم، نورالدین نفیس، غلام مصطفیٰ ہاشمانی، انور ہاشمانی، برکت علی ، اصغر خواجہ، ابراہیم میمن اور منان سمیجو سجاول میں تھیٹر کے سنہری دور میں اسٹیج ڈراموں کے مقبول ناموں میں سے تھے۔
سندھی ڈراموں کی تاریخ میں پی ایچ ڈی کرنے والے معروف مورخ ڈاکٹر رسول بخش بلوچ کے مطابق برطانوی حکام ہندوستانی سرزمین پر اپنے مضبوط قدم جمانے کے بعد تفریح کی طرف متوجہ ہوئے اور 1854 ء میں کراچی میں ایک رائل تھیٹر قائم کیا۔ مقامی اداکار وہاں جنوبی ایشیائی ثقافت کو اجاگر کرتے مختلف ڈرامے پیش کرتے تھے جن میں لوک کہانیاں، رقص اور کٹھ پتلی شو بھی شامل ہوتے تھے۔
پروفیسر منگرام ملکانی، ڈاکٹر غلام علی الانا، ڈاکٹر قاسم راجپر اور دیگر مورخین سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ مرزا قلیچ بیگ ہی وہ تھے جنہوں نے 1880 ء میں پہلا سندھی اسٹیج ڈرامہ ’لیلیٰ مجنوں‘ لکھا تھا۔ یہ ڈراما لکھ کر وہ سندھی کے پہلے ڈرامہ نگار بن گئے تھے۔ لیکن سندھ کے ڈراموں کو پروان چڑھانے کا سہرا محمد عثمان اور لالہ گوبند مالی کے سر ہے جو آزادی سے پہلے کے دور کے مقبول ڈرامہ نگار بھی تھے۔
ابتدائی دنوں میں، سندھی ڈراموں کے مضامین لوک اور مذہبی کہانیوں پر مشتمل ہوتے تھے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، سماجی و سیاسی مسائل اور ثقافتی تنازعات نے بھی ڈراموں کے موضوعات میں خاصی جگہ حاصل کرلی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News