Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

انسولین کی قلت کا خدشہ

Now Reading:

انسولین کی قلت کا خدشہ

بلیک مارکیٹنگ ذیابیطس کے مریضوں کو خطرے سے دوچار کر رہی ہے

انسولین کی قیمتوں میں غیرمتوقع اضافے کے بعد شہر میں ذیابیطس کے مریض بلیک مارکیٹرز کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہیں۔ شہر میں قائم بڑی فارمیسی کے مطابق انسولین 980 روپے کے بجائے 1142 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔ ہیو مولین 70/30 انسولین اسٹاک میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے بلیک میں 1800 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔میڈیکل اسٹورز پر ادویات خریدنے والے افراد نے لوگوں نے آسمان کو چھوتی قیمتوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ایک میڈیکل اسٹور پر موجود شخص نے بول نیوز کو بتایا کہ میری والدہ کو دس سال قبل ذیابیطس کی تشخیص ہوئی تھی، اورپچھلے چند برسوں میں انسولین کی قیمت میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایک انسولین پین کی قیمت 1430 روپے ہے اور میری والدہ کو ماہانہ 9 سے 10 انسولین پین کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جو ماہانہ تقریباً 14ہزارروپے بنتے ہیں جب کہ اس میں کھائی جانے والی ادویات شامل نہیں ہے۔

ہول سیل کیمسٹ کونسل آف پاکستان کے صدر محمد عاطف حنیف بلو کا کہنا ہے کہ بلیک مارکیٹنگ کے لیے ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پچھلے چند مہینوں میں ادویات کی قیمتوں میں 15 سے 20 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن بلیک مارکیٹرز نے اسے دوگنا اور تین گنا بڑھا کر صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔

عاطف حنیف بلو نے مقامی طور پر تیار کی جانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر بھی اظہار تشویش کیا۔انہوں نے کہا کہ ادویات کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کچھ ادویہ ساز کمپنیوں نے ڈالر کی زائد قیمت اور مہنگے خام مال کی وجہ سے پیداوار بند کر دی ہے۔

Advertisement

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان وجوہات کی بنا پرمقامی کمپنیاں اپنی مینوفیکچرنگ روک دیں گی اور پھر ہمارے پاس درآمدات پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتے ہوئے بحران سے بچنے کے لیے حکومت کو خام مال پر اخراجات کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ذیابیطس 2019ء میں اموات کی سب سے بڑی وجہ تھی، جس سے تقریباً15 لاکھ  اموات ہوئیں۔ چونکہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں اس کا پھیلاؤ زیادہ ہے، اس لیے پاکستان میں ذیابیطس سے ہونے والی اموات کے خدشات زیادہ ہیں۔

انٹرنیشنل ڈائیبیٹک فیڈریشن (IDF) کی 2021ء میں ذیابیطس کے شکار افراد (20 سال سے 79 سال) کی تعداد کے حوالے سے دنیا کے سرفہرست ممالک کی ایک حالیہ رپورٹ نے چین اور بھارت کے بعد پاکستان کو مجموعی طور پر 33 ملین کے ساتھ تیسرے نمبر پر رکھا ہے۔ انٹرنیشنل ڈائیبیٹک فیڈریشن نے پاکستان کو 2021ء میں 30اعشاریہ 8 فیصد کے مقابلے میں ذیابیطس کے سب سے زیادہ پھیلاؤ کی شرح کے لیے پہلے نمبر پر رکھا۔

گلوبل ہیلتھ اسٹریٹیجز اینڈ امپلیمینٹرز کے سی ای او ڈاکٹر رانا جواد اصغرکے مطابق، ملک میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز کی خدمات میں کمی تشویش ناک بات ہے، شاید اس کی وجہ شعبہ صحت کے لیے فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

پاکستان اس وقت شعبہ صحت پر اپنی جی ڈی پی کا صرف تین فیصد خرچ کرتا ہے، جو کہ ڈبلیو ایچ او کی کم از کم 6 فیصد کی سفارش سے بھی کم ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستان نے بجٹ کی مختص رقم میں اضافہ کیا ہے، جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آبادی میں اضافے سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

مزید برآں، بجٹ میں مختص رقم کا پانچواں حصہ غیر ترقیاتی مقاصد جیسے کہ تنخواہوں میں استعمال کیا گیا، اس طرح موثر، مساوی اور معیاری خدمات کی فراہمی کے لیے ایک معمولی حصہ چھوڑا گیا۔

Advertisement

صرف پاکستان میں ہر سال تقریباً صفر اعشاریہ دو ملین افراد ذیابیطس کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ذیابیطس پاکستان میں اموات کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005ء سے اب تک اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان خطرات کے باوجود ذیابیطس کے شکار افراد کی ایک بڑی تعداد اس بات سے بے خبر ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیاں اور  معمولات بہت سے حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر رانا کا خیال ہے کہ تعلیم ہمیشہ ایک طاقت ور ہتھیار ثابت ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ ذیابیطس کے مریضوں کو علاج فراہم کرنے کے قابل نہیں لیکن یہ یقینی طور پر اس کے انتظام اور روک تھام کے بارے میں عوام میں بیداری پھیلا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے خاص طور پر ٹی وی اور میڈیا کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ سست معمولاتِ زندگی کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو ذیابیطس سے لڑنے کے لیے ان کے روزمرہ کے معمولات میں ورزش اور غذائی تبدیلیوں کو شامل کرنے کی اہمیت اجاگر کی جائے۔

ماہر غذائیت ڈاکٹر فرح محمود نے ذیابیطس کو روکنے کے لیے غذائی پلان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ذیابیطس بذات خود کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ ایک ایسی حالت ہے جو دیگر بیماریوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب جسم خون میں شوگر (گلوکوز) کو تحلیل کرنے سے قاصر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں دل کا دورہ،  فالج، نابینا پن ، گردوں کی خرابی، پاؤں اور ٹانگوں کے کٹ جانے جیسی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

ڈاکٹر فرح نے تجویز کیا کہ صحت مند وزن برقرار رکھنا، جسمانی طور پر متحرک رہنا اور غذائیت سے بھرپور غذا کھانے سے ٹائپ 2 ذیابیطس کے زیادہ تر معاملات کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پری ذیابیطس والے افراد کو بیماری کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اپنے جسمانی وزن کا کم از کم 7 فیصد سے 10 فیصد تک کم کرنے کا ہدف رکھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ طرز زندگی میں تبدیلیاں لاکر ذیابطیس سے قبل کی صورتحال اور ٹائپ ٹو ذیابطیس سے بچا جاسکتا ہے۔ بچاؤ کی کلید ان پانچ الفاظ کو کہا جاسکتا ہے۔ دبلے رہو اور متحرک رہو ۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آج سونے کی قیمت کیا رہی؟ جانیے
وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی ترقی اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے پُرعزم ہے، وزیراعظم
کے الیکٹرک کی نالائقی و عدم دلچسپی؛ کراچی میں فراہمی آب کے نظام کا بیڑا غرق
’’کشمیر کی آزادی ناگزیر، دنیا جانتی ہے بھارت میں مسلمانوں کیساتھ کیا ہورہا ہے‘‘
صارفین کیلئے بڑی خبر؛ کیا واٹس ایپ جلد ایپل واچ پر دستیاب ہوگا؟
سوشل میڈیا پر وائرل سعودی عرب کا ’اسکائی اسٹیڈیم‘ اے آئی کی کارستانی نکلا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر