Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سندھ میں ہیلتھ ورکرز کی ہڑتال

Now Reading:

سندھ میں ہیلتھ ورکرز کی ہڑتال

کووڈ الاؤنس واپس لینے پر ڈاکٹروں اور طبی عملے کے بائیکاٹ کی وجہ سے مریض اور لواحقین شدید پریشان

سندھ بھر کے سرکاری اسپتال ایک ماہ سے زائد عرصے سے صرف انتہائی ناگزیر عملے کے ساتھ کام کر رہے ہیں کیونکہ ڈاکٹرز اور معاون عملہ اپنی تنخواہوں سے کووڈ 19 رسک الائونس واپس لیے جانے کے خلاف ہڑتال پر ہے۔

سندھ کے سرکاری اسپتالوں کا کلیدی عملے نے گرینڈ ہیلتھ الائنس (جی ڈی اے) کے احتجاجی مظاہرین میں شامل ہونے کے لیے او پی ڈیز، ایمرجنسی رومز اور وارڈز کا مکمل طور پر بائیکاٹ کردیا ہے۔

ہیلتھ رسک الاؤنس واپس لینے سے ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں 35ہزار روپے اور 16 گریڈ اور اس سے نچلے درجے کے ملازمین کی تنخواہوں میں 17ہزار روپے کی کٹوتی ہوگی۔ یہ الاؤنس کوویڈ 19 کے عروج کے زمانے میں ضروری کارکنوں کے لیے مختص کیا گیا تھا اور اس سے سندھ حکومت کو 24 ارب روپے بچانے میں مدد ملے گی۔

Advertisement

ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن ) وائے ڈی اے ( کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال، لاڑکانہ کے ڈاکٹر راجہ لکھیرنے کہا، ’’ یہ دوسرا مہینہ ہے کہ رسک الاؤنس واپس لے لیا گیا ہے۔‘‘

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) سندھ کے جنرل سیکریٹری اور جی ڈی اے کے صدر ڈاکٹر محمد خان شر نے کہا کہ ہیلتھ ورکرز کی تمام بڑی تنظمیں بشمول پی ایم اے سندھ، وائی ڈی اے، وائی این اے، پیرامیڈکس ایسوسی ایشن، اور ایل ایچ ڈبلیو جی ڈی اے کا حصہ ہیں۔

اضافی آمدنی کا جواز پیش کرنے کی کوشش میں، انہوں نے دلیل دی کہ حکومت نے اسے ’کووڈ 19رسک الاؤنس‘ کا نام دیا لیکن ہیلتھ ورکرز اسے ہیلتھ رسک الاؤنس کہتے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا، ’’ڈاکٹرز، پیرا میڈکس اور معاون عملہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے جن میں تپ دق، ہیپاٹائٹس، ایچ آئی وی اور دیگر خطرناک بیماریاں شامل ہیں۔ لہذا وہ ہیلتھ رسک الاؤنس کے حقدار ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا،’’دیکھیں، مختلف علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کے دوران اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت کم کیڈر کے عملے کو ہیلتھ رسک الاؤنس سے محروم رکھا جا رہا ہے، جو ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘‘

دریں اثنا، کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں متعدد والدین اپنے بچوں کے فوری علاج کی تلاش میں سرکاری صحت کی سہولیات کے لیے ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتے دیکھے گئے۔

Advertisement

فرزانہ بی بی نے بتایا، ’’میرے بچے کو تین دن سے تیز بخار ہے۔ میں اسے نیو کراچی کے سرکاری اسپتال لے گئی تھی لیکن وہاں بہت ہجوم تھا۔‘‘

فرزانہ ان سیکڑوں والدین میں سے ایک ہیں جو اپنے بچوں کو نیو کراچی کے اسپتال اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (NICH) میں علاج کے لیے لائے ہیں۔ “میں اپنے شوہر کے ساتھ NICH پہنچی لیکن یہاں بھی ہم ہنگامی طبی امداد کے شعبے میں پانچ گھنٹے سے ڈاکٹر کا انتظار کر رہے ہیں۔’’ یہ کہتے ہوئے فرزانہ کے لہجے میں مایوسی تھی۔ ‘‘

اطلاعات کے مطابق، او پی ڈی بند ہیں اور سرکاری اسپتالوں کو صرف چند ضروری کارکنوں کے ساتھ چلایا جا رہا ہے جو ڈیوٹی دینے کے لیے آرہے ہیں۔ بیشتر طبی ملازمین احتجاج میں ہیں اور کراچی پریس کلب کے باہر اپنے ساتھی کارکنوں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔

 علاوہ ازیں معاون عملے اور پیرا میڈکس کی عدم موجودگی کی وجہ سے صحت کی خدمات جیسے ایم آر آئی، ایکسرے اور دیگر طبی ٹیسٹ نہیں کیے جا رہے ۔ اس کے علاوہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں سرکاری اسپتالوں میں طے شدہ درجنوں آپریشن ملتوی کردیے گئے ہیں۔

 معاون عملے کے احتجاج کے باعث سرکاری اسپتالوں میں صفائی کی صورتحال ابتر ہو گئی ہے۔ اور پہلے سے اسپتالوں میں داخل مریضوں کو کھانا بھی تاخیر سے مل رہا ہے۔

اسی طرح کی صورتحال صوبے بھر میں کم و بیش ہر سرکاری اسپتال میں ہے۔ اس صورتحال میں کراچی کے مریض سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔

Advertisement

دوسری جانب صوبائی حکومت نے ہیلتھ ورکرز کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کووڈ 19 کی وبا ختم ہو چکی ہے، حکومت بھی احتجاج کرنے والے ہیلتھ ورکرز سے مذاکرات کے موڈ میں نظر نہیں آتی حالانکہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

سندھ کی وزیر صحت عذرا پیچوہو نے تبصرہ کیا کہ رسک الاؤنس نہیں دیا جا سکتا کیونکہ کووڈ 19 ’اب وبائی بیماری‘ نہیں ہے۔ انہوں نے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں اور عملے کو ملازمتوں سے برطرف کردینے کے بارے میں بھی خبردار کیا۔

ڈاکٹر محمد خان شر نے حکومت کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ اس کے پاس ہیلتھ رسک الاؤنس جاری رکھنے کے لیے اتنے فنڈز نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں 19 گریڈ کا ڈاکٹر ہوں اور میری تنخواہ 225000 روپے ہے جب کہ 19 گریڈ میں ڈپٹی سیکرٹری کو 700000 سے 800000 روپے ملتے ہیں۔

ہیلتھ سپورٹنگ اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر امام الدین شاہ نے کہا، ’’ 17000 روپے معاون عملے کے لیے کافی بڑی رقم ہے۔ تنخواہ میں اتنی کٹوتی سے گھریلو بجٹ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔‘‘

گذشتہ ہفتے احتجاج کے دوران ہیلتھ ورکرز نے جب وزیراعلیِ ہائوس کی جانب سے مارچ کرنے کی کوشش کی تو ان پر لاٹھی چارج اور واٹر کینن سے اسپرے کیا گیا ۔ پولیس نے ڈاکٹروں سمیت 25 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا جنہیں بعدازاں عدالتی حکم پر رہا کر دیا گیا۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر ڈاکٹر وارث علی نے کہا،’’ہمارے متعدد مطالبات ہیں جن میں ہیلتھ رسک الاؤنس کی بحالی، ترقیاں، ڈیپوٹیشن، نرسنگ اسٹاف کا سروس اسٹرکچر تیار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ حکومت نہ تو ہم سے بات کرتی ہے اور نہ ہی ہمارے مسائل حل کرتی ہے۔‘‘

Advertisement

جی ڈی اے کے چیئرپرسن ڈاکٹر محبوب علی کا کہنا ہے کہ احتجاج ان کا ‘جمہوری’ حق ہے اور وہ مریضوں کی تکالیف کو محسوس کرتے ہیں اس لیے وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو بلا تاخیر حل کریں۔

آل لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام یونین کی صدر بشریٰ آرائیں نے کہا، “کووڈ-19 وبائی مرض واحد خطرہ نہیں ہے۔ کووڈ 19 ہماری زندگی میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہم خطرے میں تھے۔ ہم اس وقت بھی خطرے میں تھے جب پولیو کے خاتمے کی مہم کے دوران ہماری لیڈی ہیلتھ ورکرز کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، پھر اس وقت بھی خطرے میں تھے جب لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیپاٹائٹس کا شکار ہو کر جان لیوا مرض میں مبتلا ہو گئیں۔ ہم اپنی جان اور عزت خطرے میں ڈال کر میدان میں اترتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
خواجہ آصف کی قیادت میں پاکستانی وفد دوحہ پہنچ گیا، پاک افغان مذاکرات شروع
جنگ بندی کے باجود اسرائیلی بربریت جاری،اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے 11 فلسطینی شہید
محمد رضوان کی کپتانی خطرے میں، نیا ون ڈے کپتان کون؟
ٹی ٹوئنٹی  ورلڈکپ 2026 کی لائن اپ مکمل، عمان اور یوے ای کی طویل عرصے بعد واپسی
معروف ٹک ٹاکر ٹریفک حادثے میں جاں بحق
حکومت کی پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر کابینہ میں شمولیت کی دعوت
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر