Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

پنجاب کی ٹریفک پولیس دوہری مشکل کا شکار

Now Reading:

پنجاب کی ٹریفک پولیس دوہری مشکل کا شکار

حفاظتی قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ٹریفک وارڈن کی جدوجہد

تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے روکنے کی؟ تم مجھے نہیں جانتے میں ایک بااثر شخص کا رشتہ دار ہوں۔ تم ٹریفک پولیس والے ہمیں چالان صرف اپنے حصے کے پیسے جیب میں ڈالنے کے لیے جاری کرتے ہو اور تم زیادہ چالان جاری کرکے زیادہ پیسے بٹورتے ہو۔

سڑکوں خاص طور پر لاہور شہر میں تعینات ٹریفک وارڈنز کو اس طرح کے طعنے دیے جاتے ہیں۔

بعض اوقات وارڈنز پریشان ہو جاتے ہیں اور اس طرح کے غیر ضروری ریمارکس کا جواب دیتے ہیں لیکن زیادہ تر وقت وہ بدسلوکی کے نتیجے میں ہی گزارتے ہیں۔

Advertisement

2022ءکے دوران 10 سے بھی کم ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جہاں ٹریفک وارڈنز نے گاڑی چلانے والوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔

اس کے برعکس 250 سے زائد رپورٹس ایسی تھیں جن میں لوگوں کو ٹریفک قوانین یاد دلانے پر انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ صوبائی دارالحکومت کی آبادی 13 ملین سے زیادہ ہے اور یہ ایک بڑھتا ہوا شہر ہے۔

2006ء میں سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے سٹی ٹریفک پولیس کو متعارف کرایا اور 3 ہزار اہلکار بھرتی کیے۔ اس میں 2 ہزار 400 وارڈنز اور 600 کانسٹیبل شامل تھے۔ تب سے وہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں مشکل ترین کام انجام دے رہے ہیں۔

اپنے کندھوں پر دو ستاروں کے ساتھ وارڈنز کو نہ صرف موٹرسائیکل سواروں کے ناپسندیدہ رویے سے نمٹنا پڑتا ہے بلکہ اُنہیں انتہائی سخت موسم یعنی گرمیوں کی شدید گرمی، سردیوں کی سخت سردی اور مون سون کے موسم میں بارش کے دوران یہ فرض انجام دینا ہوتا ہے۔

حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے شور، دھول اور فضائی آلودگی دیگر بڑے مسائل ہیں جو ٹریفک وارڈنز کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران برداشت کرنا پڑتے ہیں کیونکہ لاہور بار بار آلودہ شہروں کی فہرست میں اول آتا رہتا ہے۔

2006ء میں جدید ٹریفک پولیس کے قیام کے بعد سے لاہور کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے لیکن عملے کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔

Advertisement

لاہور سٹی ٹریفک پولیس کے ترجمان محمد عارف نے بول نیوز کو بتایا کہ 2006ء میں پورے شہر میں 38 لاکھ گاڑیوں سے نمٹنے کے لیے 3ہزار اہلکار تھے۔

اب گاڑیوں کی تعداد بڑھ کر 70 لاکھ ہو گئی ہے جس میں 48 لاکھ موٹر سائیکلیں اور 22 لاکھ کاریں اور دیگر گاڑیاں شامل ہیں۔ 2022ء میں اس وقت وارڈنز کی تعداد 3 ہزار سے گھٹ کر 2 ہزار 800 رہ گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2018ء میں وارڈنز کے پہلے بیج کو انسپکٹرز کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی اور آج تک صرف 148 ٹریفک وارڈنز کو اس عہدے پر ترقی دی جا سکی ہے۔ “بقیہ اہلکار 16 سال قبل فورس میں شامل ہونے کے بعد سے اب بھی اپنی پہلی پروموشن کا انتظار کر رہے ہیں”۔

دوسری جانب ٹریفک پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ ترقیاں کسی اور معیار پر عمل کرنے کی بجائے عمر کے حساب سے دی گئی ہیں۔ “ان پروموشنز کے لیے محکمہ جاتی امتحان سمیت کوئی امتحان نہیں لیا گیا کیونکہ عمر کے لحاظ سے سنیارٹی دی گئی تھی”۔

سیاسی اختلافات کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) نے فورس متعارف کرائے جانے کے 10 سال بعد 2016ء تک ٹریفک وارڈنز سروس رولز متعارف نہیں کروائے تھے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سروس ان کے حریف پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل-ق) کے چوہدری پرویز الٰہی نے متعارف کروائی تھی۔  2008ء سے 2018ء تک پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں حکومت کی۔

Advertisement

ٹریفک وارڈنز شاید قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کُل 2 ہزار 400 میں سے 170 ایم فل ڈگری ہولڈر ہیں، 3 اہلکار پی ایچ ڈی ہیں اور 80 فیصد فورس کے پاس ماسٹرز کی ڈگریاں بھی ہیں۔

ترجمان کے مطابق ٹریفک پولیس لاہور میں ٹریفک کے نظم و نسق کے اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی کے علاوہ متعدد امور بھی سرانجام دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا “ہم نو پارکنگ، تجاوزات، روڈ انجینئرنگ، بھکاریوں اور احتجاج سے نمٹتے ہیں جب کہ تجاوزات لاہور میونسپل کارپوریشن کا کام ہے اور پارکنگ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کا کام ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ پلازوں میں پارکنگ کی جگہ، عمارت کے قوانین اور نقشوں کی جانچ کرنا مکمل طور پر ایل ڈی اے کا کام ہے۔ لاہور میں 2022ء میں 1500 سے زائد احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، اس دوران ٹریفک پولیس نے اپنے فرائض انجام دیے۔

انہوں نے کہا “یہ 2 ہزار 400 ٹریفک پولیس اہلکار صرف لاہور میں 1 ہزار 700 کلومیٹر سڑکوں پر کام کر رہے ہیں۔ اتنی بڑی آبادی، رقبہ اور گاڑیوں کی تعداد سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کم از کم 6 ہزار اہلکار ہونے چاہئیں”۔

سترجمان نے مزید کہا کہ وہ وارڈنز کو 8 گھنٹے کی تین شفٹوں میں تعینات کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے فورس کو تمام بنیادی سہولیات بشمول رین کوٹ، ٹوپیاں، کمبل، چھتری اور ماسک فراہم کیے جاتے ہیں۔

Advertisement

ٹریفک پولیس اہلکار “سیاسی شخصیات” اور پالیسی سازوں کی جانب سے ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی بھی شکایت کرتے ہیں۔ سینئر ٹریفک پولیس اہلکار نے کہا “ہمارے پاس اب بھی وہی گاڑیاں اور دیگر سامان موجود ہے جو ہمیں 2006ء میں ٹریفک کے معاملات سے نمٹنے کے لیے دیا گیا تھا۔ دوسری طرف، موٹروے اور رنگ روڈ پولیس کو ہر پانچ سال بعد نئی گاڑیاں ملتی ہیں”۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موٹروے پولیس احتجاج، ٹریفک سگنلز، پارکنگ اور تجاوزات سے نہیں نمٹتی لیکن اس کے باوجود وہ ہم سے زیادہ مراعات لے رہی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ موٹروے پولیس کے پاس ایک مناسب سروس اسٹرکچر ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت سے وارڈنز بعض اوقات شاہدرہ چوک، مال روڈ، کنال روڈ، لاری اڈا اور بند روڈ پر بھاری ٹریفک اور آلودگی کی وجہ سے اپنی ڈیوٹی کرنے سے کتراتے ہیں۔ “وہ بیمار ہونے سے بچنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔”

پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ میں تمام ٹریفک وارڈنز کی اسکریننگ کی جارہی ہے تاکہ ان کی صحت کے مسائل کے بارے میں جان سکیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ “تقریباً 8 سے 10 فیصد ٹریفک پولیس اہلکاروں میں آلودگی کی وجہ سے ہونے والی مختلف بیماریوں کی تشخیص کی گئی ہے”۔

دوسری جانب اس موسم سرما میں ٹریفک کا بوجھ مکمل طور پر ٹریفک پولیس سنبھال رہی ہے جب کہ موٹر ویز اور رنگ روڈز پر غُبار اور دُھند شہر کو درہم برہم کر رہی ہے۔

ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہمیں چالان سے ایک پیسہ بھی نہیں ملتا۔ سٹی ٹریفک پولیس نے اس سال 35 لاکھ سے زائد چالان کیے ہیں جن میں 80 ہزار ہیلمٹ نہ پہننے کے چالان شامل ہیں۔ مزید یہ کہ رواں سال ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر 6 ہزار 500 سے زائد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ایشیا کپ 2025، بنگلا دیش نے ہانگ کانگ کو باآسانی 7 وکٹوں سے زیر کر لیا
مون سون ختم ہونے والا ہے،ہزاروں دیہات زیرآب،900 افراد جاں بحق ہوئے،چیئرمین این ڈی ایم اے
انڈونیشیا میں قیامت خیز سیلاب، 2 جزیرے صفحہ ہستی سے مٹنے لگے، 19 افراد ہلاک
دوحہ میں شہید ہونے والے کون تھے ؟ نماز جنازہ و تدفین، امیرقطر کی شرکت
پابندی کے باوجود بھارت سے پاکستان کی درآمدات میں اضافہ
ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر